نام کتاب: مظفر حنفی: شخصیت اور فکر وفن
مصنف: جاوید اختر
مبصر:خان محمد رضوان ، پی ایچ ڈی اسکالر، دہلی یونیورسٹی۔ دہلی
…………………..
’’مظفر حنفی :شخصیت اور فکر وفن‘‘ نوجوان اسکالر جاوید اختر کی دوسری باضابطہ تحقیقی کتاب ہے۔اس کتاب کی اہمیت اور معنویت کئی اعتبارسے دوچند ہے، کیوں کہ پروفیسر مظفرحنفی نہ صرف اردو زبان و ادب کے ایک مخلص اور مشفق استاذہیں بلکہ وہ ایک اچھے اور زودگو شاعر ہونے کے ساتھ کئی اہم کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔وہ قدیم روا یتوں کے پاسدار اور جدید انداز فکر کے نمایاں شاعر ہیں۔انہیں یہ اعتبار مسلسل محنت،جانفشانی،یکسوئی اور مستقل جہد وعمل کے ذریعہ حاصل ہوسکا ہے۔ اس طور پر ان کی زندگی اورتخلیقی کارنامے نئی نسل کے لیے مشعل راہ اور قابل تقلید ہیں۔ کبھی کبھی یہ احساس ہوتا ہے کہ انسان کی محنت اور اس کی انتھک کوشش ہی اسے منزل مقصود تک پہنچاسکتی ہے۔کسی حد تک یہ احساس درست بھی ہے۔ مظفر حنفی نے اپنی پوری عمر ادب لکھنے اور ادب سکھانے میں صرف کی ہے اورایک ایسا جذبہ ہے جو جنون کی حد تک بڑھا ہوا ہے اور یہ بات بھی قابل قدر ہے انہوں نے شاعری،تنقید،تحقیق،صحافت،افسانہ،ادب اطفال،سفرنامہ اور ترجمہ جیسی اصناف کے علاوہ ترتیب وتدوین کے میدان میں بھی قابل قدرکام کیا ہے۔دراصل مظفر حنفی جیسے بزرگ ادیب وشاعرکی ادبی خدمات اور ان کی زندگی کے کارناموں کا اعتراف کرنا میدان ادب کے نوواردان طلبہ اور اسکالرس کوادب کی مستحکم روایت اور روشنی سے روبروکراناہے۔اس تعلق سے ان کا ایک شعر ہے کہ:
جہاں کہیں روشنی ملی بانٹ لی مظفر
ہمارے دل میں کشاکش کفر و دیں نہیں تھی
اس کتاب کو لکھ کر جاوید اختر نے ایک مستحن کام انجام دیاہے اور بے حد خوبصورتی سے یہ کردکھایا ہے کہ اپنے بزرگوں کی خدمات کو کس طرح اجاگرکیا جا سکتا ہے۔جاوید اختر نئی نسل کے فعال اور متحرک اسکالر ہیں۔ابھی حال ہی میں انہیں منٹو پر تحقیقی مقالہ لکھنے پر جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی نے پی ایچ ڈی کی سند سے سرفراز کیا ہے۔ پیشتر ان کی ایک قابلِ قدر کتاب ’’تحقیقی وتنقیدی مضامین‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آچکی ہے۔جاوید اختر کا شمار اپنی روایت کے پروردہ اور پاسدار نوجوانوں میں ہوتا ہے۔وہ اپنے بڑوں کا اسی طور احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہیں جیسا رکھنا چاہیے۔ وہ منکسر المزاج،ہمدرد،مخلص انسان ہیں اوران کا شمار ہیلپ فل طلبہ میں ہوتا رہا ہے۔وہ ذہین اس معنوں میں بھی ہیں کہ اپنے متعلق افراد کی ذہنی اور فطری عادات و اطوار سے واقف ہوکر معاملات کرتے ہیں۔یوں تو وہ ہر خاص وعام سے رشتہ استوار رکھتے ہیں مگر رشتوں کی سماجی اور معاشرتی نوعیتوں کا ہمہ آن خیال رکھتے ہیں جو عموماً لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔وہ باصلاحیت،بااخلاق اورباکردار نوجوان ہیں جس پر ہمیں فخربھی ہے۔کیوں کہ نئی نسل ان چیزوں سے بہت تیزی سے عاری ہوتی جارہی ہے،ایسے بے بہرہ دور میں ان اقداری نوجوانوں کی نہ صرف قدر ہونی چاہیے بلکہ حوصلہ افزائی بھی کی جانی چاہیے تاکہ ہماری اسلامی تہذیبی اقدار کی نشاۃ ثانیہ ممکن ہوسکے۔
یہ کتاب سات ابواب پر منقسم ہے۔ابواب اس طرح ہیں۔
باب اول:’’شخصیت اور فکر وفن‘‘، باب دوم:’’شعری تخلیقات‘‘، باب سوم:’’نثری تخلیقات‘‘، باب چہارم:’’تحقیق و تنقید‘‘، باب پنجم:’’شاد عارفی پر کتابیں‘‘، باب ششم:’’مدیرانہ صلاحیت‘‘، باب ہفتم:’’ترتیب وتدوین وتراجم‘‘کے عنوانات سے ہے۔
اس طور پر اگرہم اس کتاب کو دیکھیں تو اس کی جامعیت کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے۔ یہاں اس بات کاشدت سے احساس ہوتا ہے کہ جاویداختر نے اس کام کو بے حد سنجیدگی،محنت اور لگن سے کیا ہے۔یقینا یہ تحقیقی نوعیت کا کیا ہوا کام ہے۔یہ کتاب مظفر حنفی پر آئندہ تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے مآخذ کی حیثیت رکھے گی ۔ میں اس کتاب کے لیے مصنف کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔