(Last Updated On: )
اُردو زبان کے جدید ناقدین میں مظفر علی سید ایک ایسا معتبر اور ممتاز نام ہے جن کے ہاں تنقیدی روایت کی منفرد پاسداری کا احساس ملتا ہے۔ مشرق و مغرب کے ادب عالیہ پر گہری نظر رکھنے والے اس صاحب بصیرت نقاد کی متعدد تخلیقی جہتوں کو تجرباتی نقطہ نظر سے جانچنے والوں میں ڈاکٹر روبینہ شاہین کا نام خصوصیت سے قابل ذکر ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے مظفر علی سید پر اختصاصی نوعیت کا تحقیقی کام کیا ہے اور اُن کی ہمہ جہت ادبی اور علمی شخصیت کے متعدد مخفی گوشوں کو دریافت کیا ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں مظفر علی سید کے فکر و فن کے تعلق سے ڈاکٹر روبینہ شاہین کی فکری کاوشوں کو زیربحث لایا گیا ہے۔
Muzaffar Ali Syed is ranked among prominent Pakistani critics who understood deeply the literature of the East and the West. Dr. Rubeena Shaheen in her dissertation ‘Muzaffar Ali Syed: Aik Mutalaya’ has examined numerous facets of Syed’s creativity on an empirical basis. The following article discusses Dr. Rubeena Shaheen’s endeavors in illuminating Muzaffar Ali Syed’s doctrines and art.
اگرچہ ترقی پسند اندازِ نظر اپنانے والے اُردو زبان و ادب کے معتبرو ممتاز ناقدین کی محدود فہرست میں مظفر علی سید کا نامِ نامی اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے مگر علمی و ادبی دنیا میں اُن کی تنقیدی ریاضت اور تخلیقی بھرپوریت کے یہ پہچان رکھنے والے رنگ اردو ادب کے عام قاری کی آنکھوں میں اس طرح منظر نہیں ہوئے جس طرح ان کا ادبی استحقاق تھا۔ مظفر علی سیّد کے اس ادبی استحقاق کو اُردو ادب کے عام قاری تک پہنچانے کا فریضہ معروف ادیبہ ،ہر دل عزیز استاد اور صدر شعبہ اُردو جامعہ پشاور ڈاکٹر روبینہ شاہین نے اپنے پی ایچ ڈی کی سطح کے تحقیقی کام ”مظفر علی سیّد۔ ایک مطالعہ“ کے عنوان سے نبھایا ہے ۔ جو اب کتابی روپ میں دستیاب ہے ۔
اُردو زبان و ادب میں بھی دیگر زبانوں اور ان کے ادب یا زندگی کے مختلف شعبوں کے علوم کی طرح یہ بات عام رویے کے طور پر ہمارے یہاں عمومی طور پر رائج ہے کہ مرتب کردہ یا مرتبہ کتب کو وہ مقام ، حیثیت ، عزت ، حشمت ،قدرو منزلت اور قبولیت نہیں مل پاتی جو مصنفین کی کتب کو حاصل ہوتی ہے ۔ طُرفہ تماشہ یہ ہے کہ عوام الناس، ناقدین اور قارئین کی ایک بڑی تعداد اگر اپنے ذاتی علم کا تجزیہ کرے تو ہم پر واضح ہو کہ ہم مقتدر شعراءموقر ادبا ، ناقدین اور مقبول مصنفین کے اصل نسخوں تک کس حد تک رسائی رکھتے ہیں؟ بھلا ہو ان انتخاب کرنے والوں ، مضمون نگاروں اور تبصرہ کاروں اور مرتبین کا جن کی کاوشوں سے ہمیں معیاری ادب کے جستہ جستہ منتخب اور چیدہ چیدہ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں اور یوں شعرو ادب کی عمومی تصویر ہماری نگاہوں میں دھندلاتی نہیں ہے۔
عصر حاضر میں زبان و ادب میں ایک اور کم قسمتی بلکہ بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں اگر کسی ادب پارے کو غیر مقبول بلکہ درد سر بنانا مقصود ہو تو اسے نصاب میں شامل کر کے مطلوبہ نتائج باآسانی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ یہی حال ان تحریروں کا بھی ہے جو بطور نصابی سرگرمی وجود میں آتی ہیں۔ ان میں بے ساختگی اگر سہواً آ بھی جائے تو اصول تحقیق ، حوالہ جات دینے کی پخ، طریقہ تحریر کے نمایاں خصائل چہار سو پہرے داروں کی طرح موجود رہ کر تحریر کی عمومی دلچسپی ، عمدگی بیان ، اسلوب کی چاشنی اور اظہار کا سلیقہ سلب کر لیتے ہیں ۔ ڈاکٹر روبینہ شاہین کا یہ تحقیقی کام ان کی پختگی و پرکاری ، دونوں کی علامت ہے۔ یہاں تک کہ جب تک از خود بیان نہ کیا جائے کہ یہ تحقیق دراصل ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے ۔ مخاطب بے مزہ نہیں ہوتا بلکہ بعد ازاں کتاب کا مطالعہ کر لینے کے بعد بھی شاداں ہی رہتا ہے ۔
کتاب کی صورت میں ڈاکٹر صاحبہ کا یہ مقالہ قریباً چار صد صفحات پر مشتمل ہے ۔ جس طرح کسی لذیذ پکوان میں عمدہ بگھار، روح کیوڑہ کا چھڑکاﺅ یا گرم مصالحے کے اضافے سے طعام کا لطف دوبارہ کیا جاتا ہے اور وہ قرار واقعی ہو بھی جاتا ہے اسی طرز پر ڈاکٹر روبینہ شاہین اس کاوش میں پروفیسر سحر انصاری کے ابتدائیہ کا کردار رہا ہے جس کی توثیق بعد ازاں ”تعارف و ابتدائیہ“ کے عنوان سے ڈاکٹر روبینہ کے بیانیے سے ہوتی ہے ۔
یہ بات بہ ہر طور کچھ اچھنبے کا باعث ہے کہ جناب سحر انصاری کی نگارش کو ”ابتدائیہ“ سے موسوم کرنے کے بعد اپنی گزارشات کو بھی تعارف و ابتدائیہ ہی کا نام دینا سہو ہے ، خلاف اُولیٰ ہے ۔ تتبع حقیقی ہے ، احترام کی شدت ہے یا جو کچھ بھی ہے ، اس قدر اختصار سے استعمال بھی ڈاکٹر صاحبہ کے حفظ مراتب کے ملحوظ خاطر رکھنے کی وجہ معلوم ہوتا ہے ۔ بعد ازاں پیش لفظ ہے جو مختصر اور جامع ہے ۔
ڈاکٹر روبینہ کے یہاں مظفر علی سیّد کی حیثیت کا نمایاں ترین پہلو ان کا فنِ تنقید ہے ۔ فنی سطح پر اُن کے اس پہلو کو حتی المقدور سمیٹنے کے بعد زیر بحث لاتے ہوئے رقم طراز ہیں:
“اُردو تنقید میں مظفر علی سید کا شمار ان ناقدین میں ہوتا ہے جنہوں نے مشرق و مغرب کے ہر تنقیدی نظریے سے استفادہ کیا ہے ۔ اس لیے ان کو آسانی سے کسی تنقیدی نظریے سے جوڑا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے اپنی زندگی کے کم و بیش 45سال تحقیق، تنقید، تراجم و مطالعے میں صرف کیے۔ اس مقالے کا مقصد مظفر علی سید کے ان تنقیدی رویوں کی نشاندہی کرنا اور انہیں منظر پر لانا ہے جو بوجودہ ادبی قارئین کی نظروں سے اوجھل ہیں۔” ۱
تحقیقی مقالہ جات میں گر کی بات یہ نہیں ہوتی کہ آپ اس میں کیا کچھ شامل کرتے ہیں اس لیے کہ یہ وسیع میدان تو آپ کو کتب ، جرائد، اخبارات ، ذاتی مطالعہ ، اقوال غرض یہ کہ طرح طرح کے عملی ماخذ نہایت فراخدلی سے آپ کے دامن میں بھر دیتا ہے ، یوں بھی موجودہ دورنے معلومات کو مزید قابل دسترس بنا دیا ہے ۔ چنانچہ نکتے کی بات یہ ہے کہ آپ معلومات کے اس بحرِزخار سے پیش قیمت موتی کیسے نکالتے ہیں یا یہ کہ آپ کیا کچھ ترک کرتے ہیں اور حاصل شدہ اخذ شدہ معلومات کو کس زاویے سے ، کس اسلوب میں ، کیسی بنت سے اور کن تحقیقی اصولوں کی پاسداری میں برتتے ہیں۔ یہ وہ فن ہے جو ڈاکٹر روبینہ شاہین نے اس مقالے میں جگہ جگہ دکھایا ہے اور اس پر وہ مبارکباد کی مستحق ہیں۔
انہوں نے اپنے مطالعاتی فیض کی سمت آرائی کو چھ ابواب میں مرحلہ وار تقسیم کیا ہے ۔ باب اوّل میں سید صاحب کے حالاتِ زندگی کی تفصیل دی ہے اور ان کی پیدائش سے وفات تک کے زمانی عرصے میں رونما ہونے والے حالات و واقعات کو اس طور مصور کیا ہے کہ ان کی ذاتی روّیوں ، شخصی مزاج ، خاندانی روایات علمی استعدادو استقامت کے ساتھ ساتھ ادبی مباحث کی ساری علمی فضا اور تہذیبی ماحول ایک متحرک فلمی کردار کی طرح ہمارے رو برو آ جاتا ہے ۔
باب دوم کو نظریاتی تنقید کے لیے وقف کیا ہے ۔ اس باب میں واقعاتی شہادتوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ سیّد صاحب کا شمار ناقدین کی اُس حقیقی صف میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے انگریزی ادبیات کے ذاتی غائر مطالعے ،مغرب کے کلاسیکی ادب اور جدید ادب پاروں کی تفہیم کے لیے براہ راست مغربی ادبی تنقید سے اخذ شدہ نظریات و تصورات کو معیار بنا کر فن پاروں کو عصری ادب کے میزان میں پرکھا ہے ۔ انہوں نے اپنے ذوقِ تحقیق کی بدولت اپنے قارئین پر یہ واضح کیا کہ سیّد صاحب کے تہذیبی رچاﺅ نے جہاں ایک طرف انہیں مشرقی اقدار سے جوڑا ہوا تھا تو دوسری طرف مطالعاتی وسعت کی بنیاد پر وہ بیک وقت فارسی، عربی ، اُردو ، انگریزی اور فرانسیسی فن پاروں کی اساسی قدروں کے پرکھ تھے۔ انہوں نے ادب میں تہذیب اور زندگی سے ہم رشتہ عناصر حقائق اور مسائل کی تعبیر کا کھوج لگاتے ہوئے سید صاحب کے نظریہ فن کی وضاحت اس خوب صورتی سے کی ہے کہ اس سے مظفر علی سیّد کا شعور تنقید نظریاتی اعتبار سے اپنی پوری تاب و توانائی سے جگمگا اٹھتا ہے۔
“عملی تنقید کو موضوع بحث بناتے ہوئے اُسے اپنی تحقیقی سمت آرائی میں تیسرے باب کے لیے مختص کیا اور مظفر علی سیّد کے تصّور ادب پر گفتگو سے قبل اُن کے ادبی نظریات کو بنیاد بنایا اس ضمن میں انہوں نے سیّد صاحب کی تنقیدی کاوش ”تنقید کی آزادی“ کو پس منظری مطالعہ میں رکھتے ہوئے عملی تنقید کی تعریف، انتہائی اختصار کے ساتھ انہی کی زبانی بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں۔
ان سطور کا لکھنے والا ان لوگوں میں شامل نہیں جو اصولی نظریات کے ایسے مجموعے پر ایمان رکھتا ہو جسے تنقیدی نظام کا نام دیا جا سکے۔ جس تنقید کو عملی کہا جا سکتا ہے اس میں اگر شعورو احتیاط سے کام لیا گیا ہو تو کچھ نظری بنیادیں بھی مل جائیں گی۔” ۲
بعد ازآں مظفر علی سیّد کے ناقدانہ زاویہ نگاہ کی وضاحت کے لیے اُن کی تحریروں میں عملی تنقیدی نمونوں کا تجزیہ کیا اور اسے تین حصوں میں منقسم کیا۔ اوّل ناقدین پر تنقید، دوم شعرا پر تنقید، اور سوئم ادیبوں پر تنقید۔ ڈاکٹر صاحبہ نے مظفر علی سیّد کے عملی تنقیدی نمونوں کے تجزیاتی مطالعے کی روشنی میں دیکھتے ہوئے ان کے فکری رویوں کی مناسبت سے پیدا ہونے والے نظری تنقیدی خیالات کی نشان دہی کی ہے اور اِس طرح کی ہے کہ اس سے ”مظفر علی سیّد کے فکری و نظریاتی زاویوں سے آگہی کی ایک نئی جہت کا اضافہ ہوا ہے جو بجائے خود ایک اہم اور منفرد تحقیقی خوبی ہے ۔ اسی طرح چوتھے باب میں ایک مترجم اور شاعر کی حیثیت سے اُن کے فکرو فن کی مختلف جہات کی تفہیم کا کھوج لگایا گیا ہے اور آخرمیں ان کے اسلوب اور مقام و مرتبے کا تعین کرتے ہوئے شاملِ مطالعہ کے طور پر اپنے تجزیاتی نکتہ نگاہ کو حتمی رائے کی شکل میں پیش کر دیا ہے ۔
انہوں نے مظفر علی سیّد کے شخصی مزاج، نظریاتی وابستگی اور بے نیازانہ طرزِ زندگی کے تعلق سے اُن کی منفرد اور فقیرانہ خو کی حامل شخصیت کے باطن میں موجود بے باک اظہار کے مدلل، دلچسپ اور فکر انگیز انداز نمایاں کرتے ہوئے ڈاکٹر وحید قریشی سے اس بابت سوال کرتی ہیں اور پھر ڈاکٹر صاحب ہی کے جواب کو اپنے تجزیاتی اظہار میں دلیل کے طور پر یوں بیان کرتی ہیں۔
“ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے بتایا کہ مظفر علی سید کس چیز کو سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے اور متلون مزاج تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی کتاب مرتب نہ کر سکے جب مشفق خواجہ نے ان کی واحد تصنیف اُن کا ”وزیٹنگ کارڈ“ بتائی تو اُس کے رد عمل میں تنقیدی مضامین کا مجموعہ ”تنقید کی آزادی“ اشاعت پذیر ہوا۔ گھومنے پھرنے کے شیدائی تھے ، چائے سگریٹ، کافی ہاﺅس اور علمی مباحث اُن کی زندگی کا محور تھے، طبیعت میں چیزوں کو ردّ کرنے کا رجحان غالب تھا۔ فقرے بازی میں عسکری کے مقلد تھے ۔ جب ڈاکٹر عبادت بریلوی نے ”کلیات میر“ شائع کروائی تو کہنے لگے ، دراصل دو کتابیں شائع ہونی چاہئیں ایک کُلیات میر“ اور دوسری ”اغلاطِ کُلیاتِ میر”۔ ۳
اس طرح انہوں نے مظفر علی سیّد کی علمی دوستی اور ادب شناسی سے گہرے شغف کو بڑی علمی وجاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے سیّد صاحب کی تحقیقی جستجو کو البیرونی کے مشہور واقعے سے ہم رشتہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
“البیرونی نے بھی شیر مرگ پر وفات سے ذرا ہی دیر پہلے ایک دوست سے تقسیم میراث کا ایک پیچیدہ فقہی مسئلہ پوچھا تھا اور جب اُس دوست نے کہا کہ ایسی حالت میں اس مسئلے پر گفتگو کیا ضروری ہے؟ تو البیرونی کا جواب یہ تھا ”کسی چیز کو سیکھ کرنا مرنا لا علم رہ کر مرنے سے بہتر ہے۔” ۴
اپنے تجزیاتی مطالعے کے دوران ڈاکٹر صاحبہ نے کہیں بھی اُنہیں فرشتہ سیرت کا حامل بنا کر پیش نہیں کیا۔ بلکہ جہاں بھی انہیں سیّد صاحب کے کردار و اطوار میں معمول سے ہٹ کر کوئی واقعاتی شہادت دستیاب ہوئی ہے ۔ اُسے انہوں نے باکم و کاست رقم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔صداقت پسندانہ طرزِ اظہار کا یہ وصف اس اقتباس سے نمایاں ہے۔
“ طالب علمی کے زمانے میں جب انہوں نے کولرج کے بارے میں پڑھا کہ وہ اور اُس کے چند ہم عصر تجربے کے طور پر رتی بھر افیم کار روزانہ استعمال کرتے تھے تو موصوف نے بھی یہ تجربہ شروع کر دیا۔ میرا بائی اور میرا جی کی عشق کی وارداتوں کا سُنا تو یہ تجربہ بھی کرنا چاہا۔ بشریٰ نذیر نے اپنے ایم فل کے مقالے میں مظفر علی سیّد کے فرضی عشق کا ذکر کیا ہے ۔ راقم کو حنیف رامے نے بتایا کہ کبریٰ نامی خاتون سے دلچسپی تھی لیکن واجبی سی ۔ یہ سب ادبی تجربے تھے۔” ۵
ڈاکٹر صاحبہ نے مظفر علی سیّد کے حالاتِ زندگی ، شخصیت اور شخصیت سے ابھرنے والے اوصاف ، عادات، روّیوں ، رجحانات ، نظریات اور طرزِ احساس و فکر کے باطنی گوشعری کی باز آفرینی کرتے ہوئے بڑی بصیرت افروز مشاہداتی نظر کا ثبوت دیا ہے اپنے تحقیقی نتائج میں انہوں نے سید صاحب کی ذات اور خاندان کے بارے میں اہم معلومات درج کی ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ ایک ایسے سیّد گھرانے کے چشم و چراغ ہیں جنہوں نے اپنے خاندانی علمی و ادبی روایات کی ہمیشہ پاس داری کی ہے اور ایک روشن خیال اور مشرقی تہذیب یافتہ ماحول کے سائے میں اُن کے تنقیدی نظریات کی پرداخت ہوئی مگر اُنہوں نے اُردو کو جدید مغربی ادب کے شانہ بشانہ لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اُن کا شمار کلیم الدین احمد، فراق، عابد علی عابدسے ہوتا ہوا حسن عسکری کے تنقیدی نظریات کی بخشی ہوئی روایت کے نمائندہ ادیبوں میں ہوتا ہے۔ داستان عسکری سے نظریاتی و فکری وابستگی کے اسی زاویے کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر انور سدید کا کہنا ہے کہ:
“ مظفر علی سید کی تنقید میں داخل سے روشنی حاصل کرنے ، اضطراری جملہ تخلیق کرنے اور باطن کی سیاحت کا جو انداز ہے اُسے بعض لوگوں نے دابستان عسکری کے اثرات قرار دیا ہے ۔ اُن کی تنقید افراط مطالعہ سے مزین ہے۔” ۶
ڈاکٹر صاحبہ نے مظفر علی سید کے تنقیدی نظریات کی پرکھ کے لیے اُن کے اُس شعورانہ ادراک کی تفہیم کے امکانات کا کھوج لگایا ہے جس کے عقب میں عالمی ادبی تحریکوں اور مشرقی علوم کے سرچشموں کا تعلق رواں دواں ہے اور جس نے سیّد صاحب کی فکری اور نظریاتی اساس کو وہ ٹھوس شکل عطا کر دی تھی جو اُن کی تحریروں کی پہچان بن کر اُردو ادب کا خاصا بن گئی۔ انہوں نے سینکڑوں ہم عصر تخلیق کاروں پر اپنی وقیع اور جچی تُلی آراءکا اظہار کیا اور ہمیشہ خود کو ایک غیر جانبدار نقاد کے طور پر نمایاں کیا۔مختلف کتب پر اُن کے تحریر کردہ ان کے تنقیدی تجزیے ، اُن کی غیر متزلزل اور حقیقت پسند علمی نگاہ کا ایک عمدہ ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ اُن کی تحریروں کا مجموعی تاثر یہ بتاتا ہے کہ انہوں نے کبھی ذاتی فائدے ، وقتی مصلحت بینی ، منصبی رغبت ،مذہبی ، علاقائی یا لسانی تعصب کی بنا پر اپنا اسلوب بدلا نہ لب و لہجے ہی میں کمی بیشی آنے دی۔ اُن کی شخصیت کے اس اعلیٰ کردار ی پہلوﺅوں کو ڈاکٹر صاحبہ نے بہت حقیقت پسندانہ انداز میں واشگاف کیا ہے۔ڈاکٹر صاحبہ نے سیّد صاحب کی تحقیقی تنقید اور شخصی رویوں اور بصیرتوں کو اس فطری اور ادبی چاشنی میں سمو کر پیش کیا ہے کہ قاری کے لیے انہیں پڑھنا، سمجھنا اور ان سے لطف لینا ایک خاصے کی چیز بن گیا ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ نے مظفر علی سیّد کی سوانح اور فکر وفن پر کام کے دوران یہ ادبی صداقت ہمیشہ مدِ نظر رکھی کہ ایک دیانت دار اور معتبر محقق کبھی بھی بنیادی مآخذ اور معتبر گواہی سے زیادہ کسی دوسری چیز کو اہمیت نہیں دیتا۔ اُسے حتمی اور لاریب صداقت کی تلاش رہتی ہے اور وہ حتی المقدور ممکنہ ذرائع و وسائل بروئے کارلا کر اپنے اس محققانہ فرض کو نبھاتا ہے۔ محض سنی سنائی باتوں یا مفروضوں کی بنیاد پر سامنے آنے والی صورتِ حال کو حقیقت نہیں مانتا۔ تحقیق کے اس وصف کی جھلک زیرِ نظر تحقیقی کام میں اگرچہ کئی مقامات پر اپنی موجودگی ظاہر کر رہی ہے تاہم یہاں اس کی ایک نمایاں مثال مظفر علی سیّد کے ایک شعر سننے اور پھر داد دینے کے اُس واقعے میں ملتی ہے جس کے اوّلین راوی حنیف رامے ہیں جنہوں نے ڈاکٹر صاحبہ کو ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ
“ مظفر علی سیّد کے ہاں ادب میں احساسات و جذبات کا یہ عالم تھا کہ ناصر کاظمی کو ایک شعر کی داد یوں دی کہ اس کے ہاتھ پر اپنا آنسو گرایا۔” ۷
مگر ڈاکٹر صاحبہ نے حنیف رامے کے اس بیان کی تصدیق مزید کے لیے انتظار حسین کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ” چراغوں کا دھواں“ سے رجوع کیا تو وہاں یہ واقعہ معروف شاعر احمد مشتاق کے تعلق سے لکھا پایاتو اُسے ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی تحقیقی جستجو میں حتمی اور لاریب گواہی اور بنیادی مآخذ کے طور پر محفوظ کر لیا ، آپ لکھتی ہیں:
“حنیف رامے نے ناصر کاظمی کے سلسلے میں یہ بات سنائی جبکہ انتظار حسین نے اپنی کتاب ”چراغوں کا دھواں”میں یہ حکایت احمد مشتاق کے لیے بتائی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:
“ایک تو آدھی رات کا جادو اوپر سے مشتاق کے شعروں کا سوز و گداز، مظفر نے داد کے جوش میں مشتاق کا ہاتھ تھام لیا اور مشتاق نے محسوس کیا کہ ہتھیلی پر کوئی گرم شے گری۔ یہ مظفر کا آنسو تھا، شعر پر اس سے بڑی داد کیا ہو سکتی ہے۔” ۸
گویا ڈاکٹر صاحبہ نے تخلیقی متن کی مدد سے جو کچھ محسوس کیا اُسے صداقت کے اظہار کے طور پر پیش کر دیا اور اس میں شخصی پسند نا پسند اور تعلقات کے عمل کا کوئی سروکار نہیں رکھا اور یہی ایک سچی تنقید کا منصب اور معیاری تحقیقی کا فرض ہے ۔ اس منصب اور اس فرض کو ڈاکٹر صاحبہ نے خوب خوب نبھایا ہے۔
مظفر علی سید نے اردو ادب ، لسانیات کے تراجم کے تعلق سے مختلف سیمیناروں میں جو مقالات پیش کیے ہیں ڈاکٹر صاحبہ نے انہیں اُن کی مجموعی پیش کش، اسلوب اور تجزیاتی مطالعات کی روشنی میں بڑی عمدگی سے دیکھا اور دکھایا ہے ۔ نیز انہیں ادبی خدمات کی بدولت مختلف ادوار میں جو اعزازات عطا ہوئے ، اُن کی تفصیل بھی اس انداز میں بتائی کہ اُسے پڑھتے ہوئے قاری کو مظفر علی سید کی فطری ذہانت اور علم و ادب سے گہری وابستگی کا یقین ہو جاتا ہے ۔ اُنہوں نے بتایا کہ مظفر علی سید نے کہاں کہاں اور کن کن اداروں اور اساتذہ سے تعلیمی اور ادبی فیض اُٹھایا اُن کی مختلف ادوار میں تدریسی خدمات کیا صورتحال رہی اور کس طرح دوران ملازمت انہوں نے ایئر فورس کی تاریخ کا ترجمہ کیا اور کس مرحلے پر جنرل ضیاءالحق کے انگریزی تقریر نویس کی خدمات سرانجام دیں۔ ایسی اور اس جیسی دیگر کوئی سوانحی واقعاتی شہادتوں کو ادبی و علمی تاریخ کے طور پر محفوظ کیا اور زیر نظر تحقیقی کاوش کو ہمیشہ کے لیے بنیادی مآخذ کی حیثیت دے دی۔
انہوں نے اپنی تحقیق کے دوران مظفر علی سید کو بطور مترجم ، مضمون نگار ، مرتب ، تبصرہ نگار ، کالم نگار ، شاعر ، نقاد ، استاد اور بطور مدیر ادبی مجلے ”نوید“اور شاہین ہر علمی اور ادبی درجے میں خود بھی دیکھا اور اپنے قاری کو بھی دکھایا۔ تاریخ، نفسیات، ادب ، مذہب ، اخلاقیات اور سیاسات تک میں ہر ایک حیثیت سے پرکھا اور اُس کافکریاتی اور نظریاتی تجزیہ پیش کرتے ہوئے کتنے ہی شعبہ ہائے سے زندگی سے متعلق اُن کے نظریات و خیالات کے ممکنہ پوشیدہ گوشوں کی بازیافت کا فریضہ نہایت احسن انداز و اسلوب میں انجام دیا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے یہ ثابت کیا کہ مظفر علی سید نے اگرچہ عمر بھر علم و ادب کے متعدد شعبوں میں اپنی تخلیقی توانائیوں کے جوہر آزمائے مگر ان کے تنقیدی مضامین ہی ان کے ذہنی رجحانات کی بھرپور نمائندگی کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہی تنقیدی کام اُن کے پہچان کے اوّلین اور واضح نقش اُجاگر کرتا ہے ۔ اُن کی تنقیدی حیثیت کا تعین کرتے ہوئے معروف اسکالر ڈاکٹر شائستہ حمید کہتی ہیں۔
“مظفر علی سید نے تنقید کو انسانی آزادی سے وابستہ کر کے ایک کارنامہ انجام دیا ہے لیکن اس میں یہ امتیاز بھی پیدا کیا کہ تنقید انسانی جرات اور بہادری کا اظہار بھی ہے ۔ ان کے نزدیک تنقید کی آواز اصل میں ”انسانی دلآوری کی آواز ہے“ اور انسانی دلآوری کی آواز مسلسل اور مستقل طور پر سنائی دینی چاہیے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے تنقید کو انسانی زندگی کے بنیادی عمل اور جمہوری سرگرمیوں کی بنیادی شرط کے طور پر پیش کیا۔ اُردو ادب میں کسی نقاد نے تنقیدی آزادی کا ایسا تصّور اور تنقید کی اہمیت کا ایسا لائحہ عمل پیش نہیں کیا۔” ۹
زیرِ نظر تحقیقی کاوش کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس تحقیقی جستجو کی تکمیل کے لمحوں میں قاری کو کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ اس کی پیش کار ڈاکٹر روبینہ شاہین نے اپنے ممدوح کو کسی مقام پر ایسے کسی طرزِ اظہار و خیال کو نمایاں کیا ہو جو مدلل مداحی کے زمرے میں آتا ہو یا محض سوانحی کوائف ، کتب کی تفصیل اور اُن میں درج ادبی حوالوں کو زیر بحث لانے پر اکتفا کیا گیا ہو بلکہ ڈاکٹر صاحبہ نے زیرِ بحث شخصیت کی دلچسپی کے مختلف الجہات دائروں اور اُن سے متعلق قلمی آثار کے متنوع پہلوﺅں کا بھی بڑی خوبی سے احاطہ کیا ہے ۔
مظفر علی سید پر کام کرنے والے تشنگانِ ادب کے لیے یہ کتاب تاریخ اُردو ادب میں ہمیشہ ایک اساسی نوعیت کی حامل تحقیقی و تنقیدی کاوش قرار پائے گی اور مظفر علی سید کی شخصیت اور اُن کے فکرو فن تک حقیقی رسائی کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ازحد ضروری سمجھا جاتا رہے گا۔ اس لیے کہ تحقیق کے اوّل میں کسی بھی محقق کے لیے جس تنقیدی شعور ، تحقیقی دیانت داری ، نظری و فکری بصیرت، علمی نگاہ اور اعلیٰ ذوقی حیثیت کی ضرورت ہوتی ہے ،اِن سب کی جھلک اس کتاب کے صفحے صفحے بلکہ سطر سطر سے عیاں ہے۔
حوالہ جات
۱۔ روبینہ شاہین ڈاکٹر، ”مظفر علی سید ایک مطالعہ“مشمولہ مظفر علی سید ،کراچی، انجمن ترقی اُردو ، 2016ء، ص:11
۲۔ بہ حوالہ مظفر علی سید،مشمولہ” مظفر علی سید ایک مطالعہ“ ایضاً، ص:123
۳۔ ایضاً،ص:23
۴۔ روبینہ شاہین ڈاکٹر، حالات زندگی مشمولہ مظفر علی سید ، ایک مطالعہ،ایضاً، ص:19
۵۔ روبینہ شاہین ڈاکٹر، مظفر علی سید، ایک مطالعہ ، ایضاً، ص:26
۶۔ انور سدید ڈاکٹر، مشمولہ ”اُردو ادب کی مختصر تاریخ“ لاہور، عزیز بک ڈپو ، ایڈیشن دہم ، 2014، ص:662
۷۔ بہ حوالہ حنیف رامے ایک ملاقات، روبینہ شاہین (ڈاکٹر) ،مشمولہ،2جنوری 2004ء، لاہور،،”مظفر علی سید ایک مطالعہ“، ص:25
۸۔ بہ حوالہ ”چراغوں کا دھواں“ ،(انتظار حسین)، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، 999، ص:25
9۔ مظفر علی سیّد ، شائستہ حمید خان (ڈاکٹر) مشمولہ”بکھرے موتی“ لاہور، الوقار پبلی کیشنز،2014، ص:136