اسرائیل اپنے وجود میں ہمیشہ سے استحکام کا متلاشی رہا ہے۔ اس نے غیر قانونی اختیار سے لے کر تاحال ہرآن توسیع پسندانہ اقدام کو اپنا لائحہ عمل بنائے رکھا ہے۔۱۹۶۷ ؍کی جنگ اس کی واضح ترین مثال ہے۔ اس جنگ میں فلسطین سمیت تین عرب سرزمین پر اپنا قبضہ جمالیا تھا۔ ساتھ ہی اس کی لازوال سعی رہی ہے کہ اپنے وجود کو امت مسلمہ میںجگہ دے۔ترکی نے اوائل عمر میں ہی اسے قبول کرلیا تھا۔ اس کے بعد عرب ممالک نے بھی اسے تسلیم کرنا شروع کردیا۔۱۹۷۹؍ میں مصر اور ۱۹۹۴؍ میںاردن نے اپنے تعلقات استوار کرلیے۔ دودن قبل متحدہ عرب امارات نے بھی اسرائیل سے محض مغربی کنارے پر مزید انضمام کی روک تھام کے لیے دوستانہ تعلقات بحال کرلیے لیکن جو کبھی کسی کا نہ ہوا ہو وہ ایک طویل عمر سے بنے دشمن کا کیسے ہوسکتا ہے…!؟اس نے بھی اپنی کرسی بچانے کی خاطر اعلان کردیا کہ توسیع کاعمل محض تاخیر کیا گیا ہے، رد نہیںکیا گیا ہے۔ مطلب واضح ہے ،وقت آنے پر مغربی کنارے پر توسیع ضرورہوگی۔یہ اعلان دراصل امارات کے منھ پر ایک زوردار طمانچہ تھا کہ ہم اپنوں سے کبھی بغاوت نہیں کرتے۔یہ وضاحت اس لیے ضروری تھی کہ یہودی زمینی توسیع معاملہ میں کسی قیمت پر راضی نہیں ہونے والے۔ انہیں زمین سے بہت محبت ہے۔ انہیں اس سے علیحدہ کرنا بہت مشکل ہے۔آپ ملاحظہ کریں کہ جب سے اسرائیل کا وجود صفحہ ارض پر نمایاں ہوا ہے ، اس وقت سے یہ ملک مسلسل زمین پر قبضہ کرتا جارہا ہے۔
یو۔ اے۔ ای اور اسرائیل کے درمیان ابھی تک جو کچھ بھی ہوا ہے وہ ایک ٹیلی فونی بات چیت تک کامعاملہ ہے۔ ابھی عملی اقدام میں کوئی خاطر خواہ شواہد سامنے نہیں آئے ہیں۔ اس معاہدہ کے بعد دونوں ملک کے ذمہ دار سے کوئی ملاقات اور کسی قسم کی گفتگو نہیں ہوئی ہے۔ اب اگر امت مسلمہ اور خصوصاً خلیج فارس کے حالات نے دباؤڈالا تو بہت ممکن ہے کہ یہ معاملہ جلد ہی کمزور پڑجائے۔ مسلم ریاست کی دو عظیم قوتیں ترکی اور ایران نے سخت مذمت کی جبکہ بحرین، مصر، عمان نے مثبت خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ابھی تازہ خبرموصول ہورہی ہے کہ سوڈان بھی مثبت خیال کی صف میں شامل ہونے کو ہے۔سعودی عرب کی جانب سے محض خاموشی کے بیان آئے ہیں۔ اس کی خاموشی نے پورے عالم کو حیرت میں ڈالا ہواہے۔ ملک کی خاموشی بھی بے معنی نہیں ہوسکتی چوں کہ یوں ہی اس کے اسلامی ممالک سے بہتر تعلقات نہیں ہیں ۔ ایران سمیت ترکی،یمن، لبنان ، شام اور دیگر ممالک میں سعودی عرب کی عداوت واضح ہے۔ اس لیے اگر وہ ہاں یا نہیں کا جواب دیتا ہے تو پھر اسے لینے کے دینے پڑجائیں گے۔ اگر نہیں کہتا ہے تو امریکہ اور اسرائیل سے اس کے تعلقات خراب ہوجائیں گے۔ صدر ٹرمپ نے پہلے ہی کہاتھا کہ اگر ہمارا سایہ اٹھ جائے تو ملک دو ہفتوں کا مہمان ہے۔ اگر ہاں کرتا ہے تو امت مسلمہ میں شدید ناراضگی اور احتجاج تک کی نوبت آسکتی ہے۔لیکن خاموشی بہت حد تک مثبت خیالات کی فہرست کی جانب مائل دکھائی دیتی ہے۔ابھی تازہ خبریں موصول ہورہی ہیں کہ ملک کے امریکہ اور اسرائیل سے بہتری کے تعلقات پر بات چیت رواں ہے۔ خیر !دیکھئے، آگے ہوتا کیا ہے۔۔۔؟
اس امن معاہدہ سے اسرائیل کاسب سے بڑا مسئلہ خلیج ممالک میںاپنے قدم جمانا ہے ۔اگر وہ اپنی جگہ مستحکم کرلیتا ہے تو پھر مشرق وسطی کے حالات مکمل طور پر بدل سکتے ہیں۔ ایران کا سب سے بڑا دشمن صرف اس بات پر خوش ہے کہ وہ کہیں نہ کہیں ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے گا جبکہ ایران نے دو ٹوک اعلان کردیا ہے کہ اس سے ہماری قوت دفاع مزید قوی ہوجائے گی۔
یو۔ اے۔ ای کے اس فیصلہ پر تقریباً نوے فی صد مسلم ریاستیں نالاں ہیں۔ خود فلسطین نے اس کا صاف انکار کیا ہے اور کڑی تنقیدبھی کی ہے۔دراصل، ان سب باتوںکا خلاصہ یہ ہے کہ ان بہتر برسوں میں اسرائیل نے فلسطینیوں پرجو تشدد روارکھے ہیں ، ان سے یہی واضح ہوتا ہے کہ اسے کبھی بھی امت مسلمہ کی خیرخواہی کی فکر لاحق ہی نہیںہوسکتی۔ہاں! یہ اپنے مفاد کے لیے کسی کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
دوسراسب اہم مسئلہ نتن یاہوکی اپنی کرسی کا ہے۔ صہیونی عدالت کی جانب سے ملک کے وزیر اعظم پر فرد جرم عائد ہوچکا ہے۔ اس لیے متعدد بار احتجاج بھی ہوئے ہیںکہ ہمیں ایسے وزیر اعظم کی ضرورت نہیںجس پر عدالتی جرم ثابت ہے۔ جب تک وہ باعزت بری نہیں ہوتے، وزیر اعظم کی مسند پر متمکن ہونے کے لائق نہیں۔ اس کے علاوہ کورونا کا بھی مسئلہ ہے۔ نو ملین کی آبادی میں جس صورت سے کورونا کے تعلق سے تدابیر اپنائی گئی ہے، اس سے عوا م بالکل بھی راضی نہیں ہے۔ چوں کہ ابھی تک حکومت ایسے کسی اقدام سے قاصر رہی ہے جو کورونا کے مقابل معقول راہ حل تلاش کرسکے۔ ساتھ ہی بے روزگاری کی شرح بھی ۲۰؍ فی صد سے تجاوز کرچکی ہے۔ ان سب باتوںکو پیش نظر یہ فیصلہ بظاہر وزیر اعظم کی جیت جیسا ہے۔اسی لیے تو اسے ’تاریخی معاہدہ‘کا نام دیا گیا ہے۔اس معاہدہ سے بہت ممکن ہے کہ احتجاجات کمزور پڑجائیں اور شدت پسند یہودیوں کے دل وزیر اعظم کی جانب مائل ہوجائیں جس کا مطلب نتن یاہو کے استعفیٰ کا مطالبہ کا سرد پڑجانا ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کامسئلہ بھی ذاتی مفاد سے خالی نہیں۔ رواں سال کے ماہ نومبر میںملک میں الیکشن ہونے کو ہے اورماہرین کا عندیہ ہے کہ اس بار ٹرمپ اپنی کرسی کے بچاؤ میں کامیاب نہیںہوسکیںگے۔ اس لیے انہیں بھی اپنی یہودی لابی کو خوشحال کرنا ہے۔امریکی صدر کی نگاہ میں بظاہر یہ گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ امریکی عوام کا بیرونی سیاست سے کوئی خاص واسطہ ہے۔ انہیںتو اپنی داخلی مسائل سے لگاو ٔ ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ہر انسان اپنے ملک کی فکر میں محو رہتا ہے۔ اسے اپنی زندگی کی فکر ہوتی ہے۔ یوںہی امریکہ بھی ہے۔ اسے کورونا کے سبب آئی بے روزگاری اور آفات و بلیات سے دفاع کی مستعد راہ چاہئے۔ اسے یو۔ اے۔ای اور اسرائیل تعلقات سے کیا واسطہ…!اس لیے ٹرمپ کو الیکشن نتائج میںکامیابی ملنے کی راہیںمسدود نظر آتی ہیں۔ مستقل قریب میںکوئی حادثہ پیش آجائے توبات الگ ہے۔
اب درمیان میں متحدہ امارات کا کردار رہ جاتا ہے۔واضح ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کبھی کسی کے نہیںرہے ہیںچہ برسد امت مسلمہ کے۔مصر اور اردن کو ملکی روابط قائم کرنے سے کیا حاصل ہوا ۔۔۔۔؟ کچھ نہیں۔ اس لیے یہ بات یقینی ہے کہ جب تک ان کے مفاد وابستہ رہتے ہیں،سب سے بہتر اور برتر آپ ہی ہیں ۔اس لیے اب مطلب نکل جانے پر یو۔ اے۔ ای کو بہرحال کف افسوس ملنا پڑے گا۔ انضمام کی روک تھام کا مسئلہ تو اوائل معاہدہ میں سرے سے خارج ہوگیا ۔ عالم اسلام کے دو ممالک اس سے روابط استوار کرکے خود الگ تھلگ ہوچکے ہیں اور اپنے کئے پر شرمندہ ہیں ۔ اب تیسرے کی باری ہے۔ امت مسلمہ میں تقسیم در تقسیم کا مسئلہ زور پکڑرہا ہے اور سب ایک دوسرے کے دشمن بنتے جارہے ہیں ۔اس وجہ سے یہ خوف بہرحال ہے کہ ہم خود ہی لڑے گیں اور دشمن تماشہ دیکھے گا۔ اب اگر متحدہ عرب امارات کو اس کا برے نتائج نظر آجائیں گے تو وہ بھی یوں ہی تنہا ہوجائے گا ، اس لیے اس کی اولیں ترجیح غیر کا دامن پکڑے رہنا رہے گی۔ اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔۔۔؟
“