بیشترلوگ پیش بندی ردعمل (Anticipatory reaction) کے عادی ہوتے ہیں۔ یعنی وہ جب کسی سے بات کرتے ہیں یا بحث کرتے ہیں تو سامنے والے کی بات پر اپنی ہی بات کو ترجیح دینے کی کوشش کرتے ہیں' چاہیے ان کی بات علم وادب کے دائرے میں آتی ہو کہ نہ آتی ہو۔ ایک اور بات یہ بھی کہ وہ حسب مراتب کا خیال بھی نہیں رکھتے ہیں۔ نفسیاتی طورپران لوگوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کسی بھی موضوع یا مسئلہ سے متعلق ابجدی معلومات ذہن میں رکھی ہوتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ انسکائیکلو پیڈیائی علم رکھتے ہیں۔اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ایک اور بدعت یہ بھی پھیلی ہے کہ دوسروں کے خیالات تھوڑا بہت تبدیل کرکے اپنے کھاتے میں ڈالے جاتے ہیں اور حوالہ دینے کی بھی جسارت نہیں کی جاتی ہے۔ ایسے لوگ شترمرغ بن کرسمجھتے ہیں کہ شاید باشعور جاننے والے ان کی سرقہ بازی کو سمجھ نہیں پائیں گے۔ دراصل یہ جہالت اور لاعلمی کا شاخسانہ ہوتا ہے۔ کیونکہ علم کی کوئی حد نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا بے کنار سمندر ہے جس کی گہرائیوں میں ڈوب کر بھی انسان بہت کم حصہ حاصل کر پاتا ہے۔ ایک دفعہ ایک ایم اے ڈگری یافتہ دوست نے مجھے علامہ اقبال سے متعلق پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب اقبال کی شاہکار نظم کونسی ہے تو میں نے اس کی علمی ڈگری کواعتبار بخشتے ہوئے مسجد قرطبہ'ابلیس کی مجلس شوریٰ وغیرہ دو چار نظموں کے نام گنوائے تو وہ ہر نظم کے بعد سر نفی میں ہلاتا رہا اور بالآخر بول پڑا کہ اقبال کی شاہکار نظم "لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری" ہے۔ میں یہ سن کر مسکرایا اور سوچنے لگا کہ دراصل میں نے اس کی ڈگری کے مطابق جواب دیا تھا لیکن ذہنی سطح پر وہ ابھی بھی پرائمری سطح پر ہے۔ اگر نہیں ہوتا تو وہ شاہکار نظم پر بچوں کے لئے دعائیہ نظم کو ترجیح نہیں دیتا۔ اسی طرح کئی لوگ شاعری 'افسانہ یا شاعری/افسانہ کی تنقیدی کتب یا تنقیدی کتابوں کے گہرے مطالعہ اور سمجھ وفہم میں ذہنی مفلس نظرآتے ہیں اور چند لوگوں کے اقوال اور کتابوں کے اقتباس طوطے کی طرح رٹائے رکھتے ہیں اور پھر وہ کج بحث کرتے ہوئے خود کوعالم وفاضل اور ادیب و نقاد گردانے کی طفلانہ اچھل کود کرتے رہتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ جن مستعار خیالات کی وہ گردان کرتے رہتے ہیں وہ دوسرے لوگوں کے حافظے میں پہلے ہی محفوظ ہونگے یا ہوسکتے ہیں اور حسب موقع اپنی تحریر وتقریرمیں کوٹ بھی کرتے رہتے ہیں۔ ایسے کم فہم اور ناتجربہ کار لوگوں کے لئے شیخ محمد ابراہیم ذوق کا یہ شعر اپنی معنویت رکھتا ہے:
آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا
دراصل علم کے ساتھ آدمیت کا شعور بھی آنا چاہیے اور جس علم کے پڑھنے سے عقل نہ آئے تو وہ گدھے کی پیٹھ پر کتابوں کا بوجھ لادنے کے مترادف ہے۔ چاہیے انسان اعلی ڈگریاں بھی حاصل کیوں نہ کرے۔ علم اگرکم ہی ہو لیکن شعور اتنا بالیدہ ہو اورادب واخلاق مہذبانہ ادا کی عکاسی کرتے ہوں تو انسان کی شخصیت نکھر جاتی ہے۔ علم وادب کے فہم اور تشہیر کے لئے سنجیدہ مطالعہ نہایت ضروری ہے اور مطالعہ بھی معیاری کتب کا کیونکہ کئی کتابیں پڑھ کر انسان آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے ہی ہوجاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میں کچھ جان چکا ہوں اور پھر وہ اناپ شناپ بک کر سمجھتا ہےکہ اس نے کچھ پڑھا ہےاس لیے اس کی بات صحیح ہے۔ اس دھوکے سے نکلنے کے لئے مطالعہ کرنے کےطریقےکوذہن میں رکھنا مفید رہے گا۔ جیسے
(Extensive reading) وسیع مطالعہ
عمیق مطالعہ(intensive reading)
میکانکی مطالعہmechanical reading
Pseudo statementخام بیانیہ
سنجیدہ مطالعہ(Serious reading)
حصول علم کا پہلا زینہ وسیع مطالعہ ہے۔ کسی بھی موضوع کی جہات کو سمجھنے کے لئے وسیع مطالعہ آب حیات کی مانند ہوتا ہے۔ اس کے بعد عمیق مطالعہ کا نمبر آتا ہے یعنی گہرا مطالعہ 'اسے انسان موضوع کی گہرائی اور گیرائی کو سمجھ سکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر میکانکی مطالعہ کی عادت پڑجائے تو انسان سرسری مطالعہ کرکے ذہنی حظ تو اٹھا سکتا ہے لیکن علم کے گوہر کو دماغ کی جھولی میں ڈالنے سے قاصر رہے گا اور وہ سطحی قسم کی باتیں کرکے خود کو جاننے والوں میں شمار کرنے لگے گا اس طرح اس کا پورا علمی اظہار خام بیانیہ ہوگا۔ اس زمرے کاایک اہم جز سنجیدہ مطالعہ ہے۔ ویسے بھی سنجیدگی کا مادہ ہر کام کے لئے ضروری ہے کیونکہ پھر انسان دوسروں کے ساتھ فضول قسم کی بحث وتکرار'طفلانہ فوقیت اور سطحی فکر کو پختہ فکر سمجھنے جیسی جاہلانہ عادات سے محفوظ رہتا ہے۔ سنجیدہ مطالعہ انسان کی فکر کو پختہ کرتا ہے اور توسیعی علم وادب کا باعث بنتا ہے۔ مطالعہ'فعالیت اور تحریری صلاحیت کے فوائد کے ضمن میں فرانسس بیکن کا یہ قول کتنا حوصلہ افزاہے کہ مطالعہ انسان کو مکمل 'کانفرنس متحرک اور تحریری صلاحیت صحیح (موثر) بناتی ہیں۔
"Reading maketh a full man; conference a ready man; and writing an exact man."
Francis Bacon
اس لئے مطالعہ کرنے کی عادت ڈالیں'سنجیدہ فکر کامالک بنیں اور صحیح سوچنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ مطالعہ سے دماغ کو مہکائے تاکہ معاشرہ مہک اٹھے۔۔۔۔۔ مسکراہٹ