ایک کہاوت ہے کہ رائے ہماری اپنی اپنی ہو سکتی ہے، حقائق نہیں۔ لیکن حقائق اور رائے سے بھی اوپر ایک تہہ ہے جہاں پر ہمارے ذہن کی جنگ لڑٰ جاتی ہے جو ہمارے جذبات اور احساسات ہیں۔ لسانیات، نفسیات اور علم انشا کے سنگم پر ایموٹو کنجوگیشن کا نظریہ ہے جو بتاتا ہے کہ ہم خیالات کیسے بناتے ہیں۔ رسل نے 1948 میں اس کی مثالوں کی ساتھ تعریف کی اور فرینک لنٹز نے اس کو ڈیٹا سائنس میں تبدیل کیا۔
اس تصور کے لئے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ الفاظ اور فقرے دو چیزوں کو ساتھ ملا کر بتا رہے ہوتے ہیں۔ پہلی وہ معلومات ہے جو وہ لفظ دے رہا ہے اور دوسری اس حقیقت کو بیان کرنے والے کے اپنے جذبات۔
اس نظریے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہم کسی بھی چیز کو ٹھیک یا غلط ماننے سے پہلے اپنے سے یہ سوال کرتے ہیں کہ "اگر میں اسے مان لوں تو اس کے نتائج کیا ہوں گے؟"۔ ہم معاشرتی مخلوق ہیں اور اپنے رائے کو حقائق کے مطابق بنانے سے قاصر رہتے ہیں۔ کوئی بات پڑھتے یا سنتے وقت ہم پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ بات کر کون رہا ہے اور پھر اپنی زبان کے ہتھیاروں سے دوسرے کی کہی بات کو رنگ دیتے ہیں۔ ٹھیک یا غلط کا فیصلہ اکثر ہم بات سمجھنے سے پہلے اپنے جذبات سے ووٹ لے کر کر چکے ہوتے ہیں۔
فرینک لنٹز نے اس پر تجربات کئے جس کے نتائج حیرت انگیز تھے۔ ایک مثال: اگر کوئی شخص بڑی وراثت چھوڑ کر مرا ہے تو کیا ریاست اس میں سے کچھ حصہ لے سکتی ہے؟ اس کو جب 'جاگیر پر ٹیکس' کا نام دے کر لوگوں سے رائے پوچھی تو زیادہ لوگوں نے اس کی حق میں رائے دی۔ جب بالکل اسی تصور کو انہی لوگوں سے دوبارہ پوچھا اور اب 'موت پر ٹیکس' کا لفظ استعمال کیا تو وہی شخص جو کچھ سیکنڈ پہلے اس ٹیکس کی حمایت کر رہا تھا، اس کی مخالفت کرنے لگا۔ حقائق نہیں بدلے تھے۔
اس تکنیک کو کامیاب سیاستدان، مارکنٹنگ کرنے والے، اور رائے بنانے والے اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایک ہی حقیقت، ایک ہی پراڈکٹ اور ایک ہی خبر کو مختلف الفاظ سے پیش کر کے ایک ہی خیال کو اپنے مطابق ڈھال کر اس کے مطابق رائے بنا لینے میں مہارت ان کی کامیابی ہوتی ہے۔ حقیقت نہیں بدلتی، الفاظ اور فقرے جذبات سے کھیل کر رائے بدل دیتے ہیں۔
انٹرنیٹ نے معلومات کو آزاد کر دیا ہے لیکن اس سے لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں کچھ خاص فرق نہیں پڑا، اس کی وجہ یہیں ہے۔ کسی بھی معلومات اور خیال کے بارے میں اگر ہمیں لگے کہ اصل جذبات ہماری گروہی شناخت سے کچھ فرق بننا شروع ہوئے ہیں تو ہم پہلے اپنے گروہ میں اچھی طرح اِدھر اُدھر دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا یہ خیال رکھنا محفوظ ہو گا۔ اپنی رائے عام طور پر ہم اس کے بعد قائم کرتے ہیں۔
حقائق سے بھری تحریر کبھی بھی وہ اثر نہیں کر سکتی جو ایک جذباتی تقریر کر دیتی ہے۔ کیا صرف ہمارے جذبات ہمارے راہنما ہیں؟ مکمل طور پر نہیں لیکن بڑی حد تک۔
ایک شخص جو اپنا ذہن جلد نہ بدلے، اس کے لئے اردو میں کئی الفاظ ہیں۔ کیا یہ خاصیت خود اچھی ہے کہ نہیں؟ معلوم نہیں۔ اگر آپ یہ پوری تحریر پڑھ کر اس سے اختلاف رکھتے ہیں تو آپ بھی شاید ذہن جلد بدلنے والوں میں سے نہیں۔ میں بھی کچھ ایسا ہی ہوں۔
کیونکہ میں مستقل مزاج اور ثابت قدم ہوں، جبکہ آپ ضدی اور ہٹ دھرم۔