مستقبل سے متعلق منصوبہ بندی
اگر لوگوں کی اکثریت سوچتی ہو کہ وہ ملک کے مستقبل کو سنوارنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی تو ایسا سوچنے کی وجوہ ہوں گی۔ جیسے کہ لوگ ایک دوسرے پر اعتبار کرنا چھوڑ دیتے ہیں اسی طرح سماجی اداروں، حکومت، کاروبار سے متعلق لوگوں و اداروں، این جی اوز اور میڈیا پر بھی۔ حال ہی میں اعتماد کی مونیٹرنگ کے بین الاقوامی ادارے ایڈلمین ٹرسٹ بیرومیٹر نے ایک عرصے کے بعد پہلی بار اندازہ لگایا ہے کہ دنیا کے 28 ملکوں میں سے بیس ملکوں کے لوگوں کو اعتبار نہیں کہ نظام درست طور پر کام کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں جن لوگوں سے اس بارے میں پوچھا گیا ان کی تعداد کا 75 فیصد اپنی حکومتوں پر اعتبار نہیں کرتا۔ پاکستان میں یہ سروے نہیں کیا گیا البتہ روس میں سماجی اداروں پر اعتبار کرنے والوں کی شرح سب سے کم ہے یعنی اکتیس فیصد۔
اعتماد یا اعتبار کی کمی وہ اہم عامل ہے جو طویل مدتی منصوبہ بندی کو دشوار بنا دیتا ہے۔ ارتقائی نفسیات کی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت انسانوں میں انفرادی معاملات کے حل کی خاطر نہیں بلکہ مشکل مسائل سے اجتماعی طور پر نمٹنے کے ضمن میں پیدا ہوئی تھی۔ تعلق باہمی کا ورطہ جس قدر متنوع ہوگا، اتنے ہی زیادہ سماجی معاملات ایسے ہونگے جن میں انسان ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا سکیں گے۔ خاندان کے مسائل کو مل کر حل کرنا ایک بات ہے اور پورے ملک یا پوری انسانیت کو درپیش مسائل پر باہم ہونا دوسری بات۔
ہمارے روابط کا دائرہ جس قدر وسیع ہوگا اتنی ہی صحت سے ہم مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کے اہل ہونگے۔ اگر روابط کے وسیع دوائر نہیں ہونگے تو سماج میں اعتبار کی سطح بھی کچھ اتنی بلند نہیں ہو پائے گی یوں لوگ انہیں لوگوں سے رابطے میں ہونگے جو "ہم خیال" ہونگے یعنی ماہرین عمرانیات کے مطابق "حلقہ ہائے یاراں" جنم لینے لگیں گے جن میں "اپنوں" اور "غیروں" کی واضح تخصیص برتی جانے لگے گی۔ یوں بالآخر "غیروں" سے "غیریت" بلکہ "تنافر" جنم لینے لگے گا۔ ایک طویل عرصے تک کی گئی تحقیق کے مطابق عدم برداشت کی سطح جس قدر زیادہ ہوگی، امکانات کا دورانیہ اتنا ہی مختصر ہو جائے گا اور انسان ملک کے مستقبل پر اثرانداز ہونے کی اپنی صلاحیت کو اتنا ہی کمتر آنکنے لگے گا۔
دلچسپ مطالعہ ہے کہ مستقبل کے افق کے مختلف زاویوں پر نفسیات کے مختلف پہلو اثر ڈالتے ہیں۔ طویل عرصے پر مبنی منصوبہ بندی کو ہم بہتر خیال کرتے ہیں اس کے برعکس ہم مختصر عرصے کی منصوبہ بندی کے مفاد کا اندازہ کم لگا سکتے ہیں چنانچہ اگر ہم حال سے مطمئن نہ ہوں تو مستقبل کی بہتری کا سہارا لے سکتے ہیں۔ ایسا کیے جانے میں خطرات ہوتے ہیں کیونکہ ہمارے حالیہ مسائل کے حل کا انحصار مستقبل کی بیساکھیوں پر ہوتا ہے۔
مستقبل کی منصوبہ بندی میں ماضی کا کیا کردار ہے؟ اس سوال کا جواب عارضی امکانات کے تصور میں مضمر ہے۔ ادوار سے متعلق نفسیات پر 25 برس سے کام کرنے والے معروف ماہر نفسیات فلپ زمباردو نے معلوم کیا ہے کہ وہ لوگ زیادہ سماجی کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں جو اپنے ماضی کو مثبت خیال کرتے ہیں۔ ہمارے ذاتی ماضی میں بہت کچھ ایسا ہو سکتا ہے جو تکلیف دہ ہو جیسے دکھ اور المیے لیکن پھر بھی اچھی باتیں ڈھونڈی جا سکتی ہیں۔ ایسا کرنے سے لوگوں کو دباؤ برداشت کرنے کی قوت ملتی ہے۔
ایسا ہی گروہ کی شکل میں بھی ہو سکتا ہے کہ اگر اپنے ماضی کی بہتریوں کو پیش نظر رکھیں تو نہ صرف باہمی اعتبار کی سطح بلند ہوگی بلکہ طویل المدتی منصوبہ بندی کی صلاحیت بھی بیشتر ہوگی۔ اس لیے بہت اہم ہے کہ ہم اپنی سوچ کا انداز بدلیں یعنی ہم نے ماضی میں کچھ اتنا برا نہیں کیا اور مستقبل میں بہتر ضرور کریں گے۔
ماضی سے متعلق منفی تاثرات مستقبل کی منصوبہ بندی پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ مثلا ایسے لوگ ہیں جو جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے حق میں ہیں۔ وہ ماضی کے منفی تجربے کے حوالے سے حب الوطنی اور جانفشانی کا شعار رکھتے ہیں۔ آج کی دنیا میں ایسا سوچنا موجب خطرہ ہو سکتا ہے کیونکہ اگر آپ مد مقابل کو ڈراتے رہیں گے تو مدمقابل بھی آپ کو ڈرائے گا یوں ایک اجتماعی خوف کی فضا پیدا ہوگی جو صرف اسلحے کی دوڑ کو فروغ دے گی جو سماجی بہتری کی طویل المیعاد منصوبہ بندی کیے جانے کو روک دے گی۔ میڈیا میں ایک دوسرے کو خائف کرنے کا مقابلہ لوگوں میں خطرے سے جھوجھنے کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ یہ درست ہے کہ اجتماعی خوف کی فضا سماج میں ہلچل ضرور پیدا کرتی ہے مگر خوف بذات خود قوم کو مضمحل کرنے کا موجب بنتا ہے۔
جس معاشرے میں سماجی بھلائی کو دفاع سے کم اہمیت دی جاتی ہے وہاں طاقت سے وابستہ اداروں کے زیادہ بااثر ہونے سے بچا جانا ممکن نہیں رہتا۔ ایسے معاشروں میں اعتبار کی سطح کم ہوتی ہے، سماج سدھار کی فضا مفقود ہوتی ہے اور مذاکرات کرنے کی صلاحتیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ ایسے بہت سے تجربات کیے جا چکے ہیں جن سے ثابت ہوا ہے کہ اجتماعی خطرے کی فضا میں بسنے والے لوگ بغیر سوچے سمجھے انتہائی اقدامات لینے کی جانب راغب ہو جایا کرتے ہیں۔ وہ ایسے غیر عمومی فیصلے کر لیتے ہیں جن کی وجہ سے وہ مسائل سے عہدہ برآء نہیں ہو پاتے۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“