مستنصر، غزالِ شب اور مدار کی بڑھیا
اردو کے بیشتر فکشن نگار شاعری بالخصوص معاصر اردو نظم کم کم پڑھتے ہیں۔ عبداللہ حسین اور مستنصر حسین تارڑ اس نارسائی کا برملا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ عبداللہ حسین کا اس ضمن میں اعتراف تو مبنی بر حقیقت تھا لیکن مستنصر کے معاملے میں یہ بات متناقض بالذات لگتی ہے۔ وہ کئی شاعروں کے بارے میں اپنی پسندیدگی کا اظہار اپنے کالموں اور تحریروں میں کر چکے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جدید اردو شاعری میں بے تحاشا رطب ویابس کے باعث وہ اسے در خورِ اعتنا نہیں سمجھتے۔ لیکن دیگر ملکوں اور زبانوں کی شاعری وہ بااہتمام “کینڈل لائٹ” میں پڑھتے ہیں۔ ایذرا پاو¿نڈ، ایلیٹ، لورکا، پابلو نیرودا سے لے کر ناظم حکمت، محمود درویش، نزار قبانی تک ان کے پسندیدہ شاعروں کی فہرست طویل ہے لیکن داغستانی شاعر رسول حمزہ توف اور امریکی شاعر والٹ وہٹ مین کی نظمیں انہیں زیادہ ہانٹ کرتی ہیں۔ مستنصر اپنی بعض کہانیوں اور ناولوں میں نظموں کو کامیابی سے کہانی کے تار و پود میں پلانٹ بلکہ ٹرانسپلانٹ کرتے ہیں…. میں نے کہیں لکھا تھا کہ جب انسان کی ازلی و ابدی تنہائی اور اداسی اس کے بس سے باہر ہو جاتی ہے تو نثری نظم سرزد ہوتی ہے۔ مستنصر پر یہ بات یوں صادق آتی ہے کہ وہ کبھی کبھی کہانی کی ٹوٹتی ہوئی یا الجھی ہوئی صورتِ حال اور کرداروں کی بس سے باہر ہوتی ہوئی کیفیات میں کسی نظم کو ایک ایسے صاعد کے طور پر استعمال کرتے ہیں جو مسند الیہ اور مسند کو اداسی کی ایک ارفع سطح پر لا کر باہم جوڑ دیتی ہے۔ مستنصر اگر فکشن رائٹر نہ ہوتے تو بہترین نثری نظم نگار ہوتے۔ مارکس بھی شاعری کے راستے سے کمیونزم میں داخل ہوا تھا۔ مستنصر نے اپنے نئے ناول کا نام “اے غزالِ شب” ن م راشد کی نظم سے لیا ہے۔ راشد نے اس نظم میں کلانچیں بھرتی ہوئی رات سے مخاطبت کی ہے، ناول میں بھی اداسی کلانچیں بھرتی ہے اور نافِ شب سے نکلا ہوا مشکِ نافہ جیسا ناسٹلجیا رواں دواں پھرتا ہے۔ مستنصر نے اپنے لفظوں سے کمیونسٹ سوویت یونین کے غروب ہو چکے آہوئے فلک کو اردو فکش کا آہوئے مشکیں و زریں بنا دیا ہے۔
لینن نے کہا تھا کہ اگر آپ کا وطن آپ کو رہائش، خوراک، تعلیم اور باعزت زندگی نہیں دیتا تو وطن کی محبت مشکوک ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ پھر نظریے کے پیچھے دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں۔ تیسری دنیا کے پسماندہ ملکوں کی طرح ہمارے ہاں بھی شروع سے ایک طبقاتی جدو جہد جاری تھی، جس میں مزدور تحریکیں زیادہ تھیں، کسان تحریک بھی تھی۔ کسی نہ کسی لیفٹسٹ پارٹی کے حوالے سے لوگ سوویت یونین چلے جاتے تھے۔ ترہ کئی کے زمانے میں افغانستان کے کمیونسٹ انقلاب نے بھی ان تحریکوں کو مہمیز کیا۔ کچھ لوگ ضیا کے دور میں روس گئے۔ بائیں بازو کے سیاسی لیڈر بھی اپنے بچے اور رشتہ دار تعلیم کے لیے سوویت یونین بھجواتے تھے۔ سرکاری وظائف بھی تھے جن پر درپردہ زیادہ تر دائیں بازو کے طالب علم بھیجے جاتے تھے۔ ا±س وقت کے سوویت یونین میں غیر ملکیوں کو بڑی قبولیت ملتی تھی۔ نظریے کے حوالے سے جانے والوں کو زیادہ عزت دی جاتی تھی اور انہیں ایسے مجاہدین کے طور پر دیکھا جاتا تھا جو ایک نظریے کے لیے اپنا ملک، قوم، گھر بار سب کچھ چھوڑ کر آتے تھے۔ ان سے شادیاں ایک عام بات تھی۔ سوشلزم کے حوالے سے ایک عالمی دوستی کا ماحول تھا جہاں کالے، گورے، ایشین سب برابر ہو جاتے تھے۔ روسی لڑکیاں ایشینز، یہاں تک کہ افریقن کے ساتھ بھی شادیاں کر لیتی تھیں۔ مستنصر کا ناول “اے غزالِ شب” ایسے ہی کرداروں پر مشتمل ہے جو اپنی دھرتی سے پیار کے باوجود نظریاتی لگاو¿ کے تحت سوویت یونین گئے اور کمیونزم کے، ایک سرخ سویرے کے خواب دیکھے۔ یہ سارے کردار اس ناول کے ہیرو ہیں۔ ایک کہانی میں کئی کہانیاں چلتی ہیں، جن کے کردار جرمنی، ہنگری روس، پاکستان میں پھرتے ہیں۔ ظہیر الدین، قادر قریشی، عارف نقوی…. لگتا ہے یہ سب حقیقی کردار ہیں، صرف نام بدلے یا فکشنائے گئے ہیں۔ سردار سیماب یوں لگتا ہے جیسے حبیب جالب کا کردار ہو۔
دسمبر 1991ءمیں سوویت یونین ٹوٹ جاتا ہے۔ سوویت ریاستیں علیحدگی کا اعلان کر دیتی ہیں۔ کسی جد وجہد کے بغیر۔ آخری دن تک یہ تھا کہ یونیورسٹیوں میں کیپٹلزم کے خلاف پڑھایا جا رہا تھا اور اگلے دن یکدم بتایا جاتا ہے کہ اب سے آپ سرمایہ دارانہ نظام میں آ گئے ہیں۔ جو ان کے نزدیک لوٹ مار کا نظام تھا۔ اور یہی ہوا، لوٹ مار شروع ہو گئی۔ سابقہ کے جی بی کے اہل کاروں نے ذاتی مافیا گروہ بنا لیے۔ لوگوں نے سرکاری کارخانوں پر قبضہ کر لیا یا سستے داموں خرید لیا اور اسکریپ کر کے بیچ دیا۔ ہر چیز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ بورس یلسن نااہل تھا۔ 24 گھنٹے شراب کے نشے میں دھت رہتا تھا۔ ایک دفعہ آئس لینڈ کے دورے پر گیا۔ جہاز میں اتنی شراب پی لی کہ جہاز سے باہر ہی نہ نکل سکا۔ یلسن کی بیٹی اور اس کے ایک عاشق نے مل کر ملک کو چلانا اور لوٹنا شروع کر دیا۔ گورباچوف نے جمہوریت کا مہاتما بننے کی کوشش کی۔ اس دوران نیشنلزم تیزی سے پھیلا۔ غیر ملکیوں کو لوٹ لو، لوٹنا نہیں تو یہاں سے مار بھگاو¿، یہ سوچ عام ہو گئی۔ نئی نسل کے لیے غیر ملکیوں کو قبول کرنا مشکل ہو گیا۔ نظریہ درمیان سے نکل گیا تو دور دیسوں سے آئے نظریاتی لوگوں کا بھی کوئی کردار نہ رہا۔ وہ روسی پاسپورٹ رکھنے کے باوجود اجنبی اور غیر ملکی بن گئے۔ کچھ کردار نئے تقاضوں میں ڈھل گئے، کچھ اپنے آپ کو نہ بدل سکے۔ صرف پاکستانی یا دیگر غیر ملکی نہیں خود سوویت معاشرے کے لوگ بھی فال کے بعد پاگل ہو گئے۔ انہیں سمجھ نہیں آ سکی کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے اور اب وہ کیا کریں، کہاں جائیں۔ دانشور، پروفیسرز، ادیب اور ادھیڑ عمر کامریڈ جو لوٹ مار کا حصہ نہیں بن سکے اب تک خستہ حال ہیں۔ پیوٹن نے، جو اُس وقت کے جی بی کا ڈپٹی چیف تھا، روس کو دوبارہ ایک پاور پولر بنانے کی کوشش کی ہے لیکن سوسائٹی میں جو کایا کلپ ہو چکی ہے اس کے اثرات ختم نہیں ہو سکے۔ مستنصر نے روس کی اس سیاسی اتھل پتھل اور ریاستی و معاشی شکست و ریخت کو پیش کرتے ہوئے ناول کو سپاٹ تاریخی، سیاسی یا نظریاتی دستاویز نہیں بنایا۔ یہ نظریاتی رومانیت اور نوکلاسیکی طرزِ انشا کا ناول ہے جو کرداروں کے سماجی، معاشرتی اور جمالیاتی پہلوؤں کے گرد گھومتا ہے۔ اس موضوع پر یہ اردو کا پہلا ناول ہے جو کم از کم مغرب کے نقطہ نظر سے نہیں بلکہ حقیقتِ حال پر لکھا گیا ہے۔ اس میں نظریے کو پوری موت بھی نہیں مارا گیا۔ اور معروضی حقیقت بھی یہی ہے۔ نظریہ ٹوٹا ہے ختم نہیں ہوا۔ غربت اور امارت کی جنگ جاری ہے۔ کیوبا، شمالی کوریا، ویت نام، چین میں سوشلزم کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ ڈنمارک، ناروے، سویڈن، فن لینڈ اور آسٹریا میں سیاسی نظام سرمایہ دارانہ ہے لیکن معاشی ڈھانچہ سوشلزم کے قریب ہے۔ دیوارِ برلن گری ہے لیکن اس فال کے بعد مشرقی جرمنی میں ظالمانہ تبدیلیاں بھی آئی ہیں۔ تاہم ناول میں کسی قسم کی ثقافتی اور نظریاتی گھٹن نہیں بلکہ فنی، ادبی اور تخلیقی وسعت ہے اور ایک خاص نوع کی اداس اور بے یقین آزادی ہے۔ انسانی رشتوں کی باہم اور مٹی کے ساتھ ایک منتشر محبت ہے، یادِ ایام ہے۔ یہ ’کنفیوزڈ محبت‘ اور ’کنفیوزڈ نظریے‘کا ناول ہے جس کے پس منظر کا مواد لکھے گئے متن سے زیادہ ہے۔ ایسے بیانیہ کو قابلِ مطالعہ یا خواندگی پذیر بنانا آسان نہیں ہوتا لیکن مستنصر نے اسے سہولت اور کامیابی سے لکھا ہے۔
فِکشن میں پیراڈاکس علامت یا استعارے سے بڑا ہوتا ہے اور بسا اوقات تو یہ استعارے کو کھا جاتا ہے۔ لیکن ’اے غزال شب‘میں طلسم آمیز کمال ہوا ہے۔ کہانی اختتام پہ آ کر نہ علامت بنی نہ استعارہ نہ پیراڈاکس رہی۔ بوریوالا کے نواحی ویرانے میں کِھلے اکوار کے ڈوڈے سے نکلی مدار کی بڑھیا پہلے استعارہ تھی، پھر اُڑتی ہوئی ماسکو کی گلیوں تک پہنچی تو اپنا ہی پیراڈاکس بن گئی۔ سرگی سرجی بن گیا، سویت لانا سویٹ لانا بن گئی اور داچا ڈاچا ہو گیا حالانکہ روسی زبان میں ج، ٹ اور ڈ نہیں بولے جاتے۔ لیکن اُس وقت سب ٹھیک تھا۔ آک کے ڈوڈے اور سمبل کے پھول میں کوئی فرق نہیں تھا۔ بس ایک یک رنگ سرخ خمار تھا جو تمام لفظوں، جذبوں، زبانوں اور جسموں پر رنگ، نسل، قوم، مذہب، وطن کی تفریق کے بغیر منعکس ہوتا تھا۔ اور جب سرخ سویرے کا خواب ٹوٹا تو مدار کی بڑھیا نہ آک رہی نہ سمبل، کامل ناسٹلجیا بن گئی۔ علامت، استعارہ، پیرا ڈاکس کہانی کا ساتھ نہ دے سکے۔ جی ہاں پوری کہانی بیک وقت گزرے اور موجود زمانے پر محیط ایک دائمی خواب ناک ناسٹلجیا بن گئی جو پڑھنے والے کے حواس پر چھا جاتا ہے۔ ناسٹلجیا عظیم ہے۔ دراصل ہم سب کا کسی نہ کسی نواح میں کوئی نہ کوئی ویرانہ ہوتا ہے جہاں آک کے ڈوڈے کھلتے ہیں۔ چاہے وہ بوریوالا ہو یا مستنصر کے ناولوں کا کوئی شہر ہو یا میرا گاو¿ں ناگڑیاں ہو۔ مدار کی بوڑھی مائیاں ہر جگہ پہنچ جاتی ہیں۔ میں نے یہاں بحریہ ٹاو¿ن میں، جہاں اکوار ہیں نہ سمبل، اپنے گھر میں سفید روئی جیسی مائی بوڑھیوں کو بارہا اڑتے دیکھا ہے حالانکہ سب کھڑکیاں اور دروازے بند ہوتے ہیں۔ جانے یہ ناگڑیاں کے نواحی ویرانوں سے اڑ کر میرے کمرے میں کیسے پہنچ جاتی ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“