فتح استنبول کی حدیث اور اس سے جڑی دیگر روایات صحاح ستہ کاحصہ نہیں ہیں یہ روایت مسندامام حنبل۔اسکےبعد بخاری کی کتاب تاریخ الصغیروتاریخ الکبیرمیں لکھی ہے جسےمسندبخاری کہتےہیں مسندبخاری کی روایات درست نہیں ہیں جیسےفتح ہندکی روایت مسندنسائی کاحصہ ہے مگرسنن نسائی کانہیں ہمارےہاں کئ معززعلماء دین کو مسنداور صحیح کافرق معلوم نہیں معلوم نہیں تکمیل حدیث کی سندکس نے دی۔؟اب یہ بات کہ صحیح بخاری میں تمام روایات درست ہیں تو یہ بات بھی درست نہیں کئ معزز علماء نے اس پر کڑے سوال اٹھائے ہیں جیسےامام زیدالکوثری نے اس کی چودہ احادیث کو جھوٹ قراردیا
مصری علماء جن میں رشید رضا مفتی عبدہ قابل زکر ہیں اسکی کئ احادیث کو خلاف حقیقت قرار دیتےہیں انکو مخصوص سوچ کاحامل قراردیتےہیں انہوں نے صحیح کے کئ روایوں کو فرضی قرار دیا جیسے اسحاق بن سوید حریربن عثمان عبداللّہ بن حاتم القری اورکئ اور انکےبقول یہ کردارفرضی ہیں
صحیح بخاری میں رسول اللّہ کی حضرت عائشہ سے نکاح کی بابت جوحدیث بیان کی جاتی ہے اس سے حجرعسقلانی فخرالدین رازی دونوں کواختلاف ہے وہ اس روایت کو مستندنہیں مانتے قیاقت کی علامات پر امام غزالی نے شدیدتنقیدکی ہے انکےمطابق یہ نصرانی یہودی روایات ہیں اسلامی نہیں
صحیح بخاری کی کتاب الجماع پر کئ علمائےکرام کو سنگین تحفظات رھےہیں فرقہ اہل سنت کے بانی ابن ابی حدید نے انکو بےبنیادقرار دیاتھا فرقہ زیدیہ کےعلماء کرام نےانکو لغوقراردیا ہے جبکہ جامعہ درالعلوم دیوبند کےنصاب سے یہ روایات خارج ہیں یعنی انکو تدریس کےقابل نہیں جاناگیا
کتاب الذبیحہ میں موجود زیدبن نوفل کی روایت سےکئ علماء کو اختلاف رہا ہے علامہ ہلی علامہ فخرالدکن رازی نے ان روایات کی صحت سے انکار کیا ہے یہی بات ابن کثیر نے بھی کی ہے روایت مستندنہیں لگتی کہ اس سے شان رسالت میں کمی واقع ہوتی ہے وراثت رسول کی احادیث قرآن سےمتصادم ہيں
موسیقی کو حرام اور اس کےآلات توڑنے کی بابت حدیث پر بھی کئ علماء نے سوال اٹھائے ہیں۔ ابن حزام اس روایت کو سرے سے ماننے سے انکاری ہیں کیوں کہ اس روایت کی تاریخ اور واقعات ہرجگہ مختلف ہیں اور اس کے راویان کی بابت دورغگو کالفظ لکھا گیا ہے نیز صارفربن خالد فرضی راوی ہیں
بندر کوزنا کے الزام میں سنگسار کرنے کی روایت پر بھی کئ علماء کے تحفظات ہیں حجرعسلانی اس حدیث کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں جبکہ ابن عبدالبرکے بقول صحیح بخاری کے اصل نسخے میں یہ روایت موجودنہیں ہے یعنی گیارھویں صدی میں ہی صحیح بخاری میں تبدیلیاں ہوچکی تھیں
جنگ خیبرکےموقع پر گدھےکےگوشت اور متعہ نکاح کےحرام ہونےکی روایات کو علماءدرست نہیں مانتے السہیلی اس کو اس کو درست نہیں مانتے تاریخی اعتبارسےغلط ہے رشیدرضا کے بقول متعہ نکاح کو حضرت عمرنےحرام قراردیا اس روایت میں تاریخی اختلاف موجود ہے سواس روایت کازکرنہیں کیاجاتا
زاد المعاد میں حافظ ابن قیم کے بقول متعہ نکاح فتح مکہ کے موقع پرحرام ہوا سو تاریخی اعتبار سے روایت میں جھول موجود ہے سو اس روایت کی صحت پر مورخین کے شدید اعتراضات اب تک برقرار ہیں
حضرت علی کی عبادت میں کوتاہی والی روایات پر ابن ابی حدید جو فرقہ اہل سنت کے بانی ہيں نے شدید اختلاف کیا ہے انکی شرح ناج البلاغہ میں اس بات کی واضح تردید موجود ہے اس روایت کو ابن حزام غزالی نے بھی ماننے سے انکار کیا ہے کہ علی کی عبادت تقوی ایسی کوتاہی نہیں کرسکتا
جامعہ دارلعلوم دیوبند کے شعبہ حدیث سے سند کے حصول کیلئے امتحانات کی بجائے ایک مقالہ لکھنے کو دیا جاتا ہے عنوان طالبعلم خود چنتا ہے 2015-2016میں فدوی نے امام بخاری اور طحاوی کے موازنے پر مقالہ لکھا تھا سو آج وہیں سے چند باتیں آپ کی نذر ۔