آج – ١٢؍اکتوبر ١٩٧٠
اردو کے جدید شعرا میں ایک اہم نام، جن کی نظمیں داخل اور خارج کا حسین امتزاج ہیں اور مقبول و معروف شاعر” مصطفیٰ زیدیؔ صاحب “ کا یومِ وفات…
نام سیّد مصطفیٰ حسین زیدی اور تخلص زیدیؔ تھا۔ شروع میں تیغ ؔ الٰہ آبادی تخلص کرتے تھے۔ ۱۰؍اکتوبر۱۹۲۹ء کو الٰہ آباد، ( اتر پردیش ) میں پیدا ہوئے۔اوائل طالب علمی ہی سے شاعری کا شوق پید ا ہوگیا تھا۔انٹرمیڈیٹ اور بی اے کے امتحانات امتیاز کے ساتھ پاس کیے۔ ایم اے (انگریزی) کا امتحان ۱۹۵۲ء میں گورنمنٹ کالج، لاہور سے پاس کیا۔ دوران تعلیم ان کی غیر معمولی قابلیت کے اعتراف میں انھیں کئی گولڈ میڈل اور تمغے ملے۔۱۹۵۴ء میں سول سروس کے امتحان میں کامیاب ہوئے۔مختلف شہروں میں ڈپٹی کمشنر رہے۔ حکومت پاکستان نے اعلی کارکردگی کے صلے میں انھیں’’تمغاے قائد اعظم ‘‘ عطا کیا۔ ۱۲؍اکتوبر۱۹۷۰ء کو کراچی میں مصطفی زیدی کی اچانک موت کا سانحہ رونما ہوا۔ ان کا پہلا مجموعہ شاعری ’’روشنی‘‘ کے نام سے قیام پاکستان سے قبل شائع ہوا ۔ان کے دیگرشعری مجموعوں کے نام یہ ہیں:
’زنجیریں‘، ’شہرِ آذر‘، ’موج مری صدف صدف‘، ’گریباں‘، ’قباے ساز‘، ’کوہِ ندا‘۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:240
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
معروف شاعر مصطفےٰ زیدیؔ کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
اب جی حدود سود و زیاں سے گزر گیا
اچھا وہی رہا جو جوانی میں مر گیا
—
دنیا تمام چھٹ گئی پیمانے کے لیے
وہ مے کدے میں آئے تو پیمانہ چھٹ گیا
—
ہم انجمن میں سب کی طرف دیکھتے رہے
اپنی طرح سے کوئی اکیلا نہیں ملا
—
چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
ہم اس کے پاس جاتے ہیں مگر آہستہ آہستہ
—
میں اسی کوہِ صفت خون کی اک بوند ہوں جو
ریگ زارِ نجف و خاک خراساں سے ملا
—
اک رشتۂ وفا تھا سو کس نا شناس سے
اک درد حرزِ جاں تھا سو کس کے صلے میں تھا
—
تیرا وعدہ تھا کہ اس ماہ ضرور آئے گی
اب تو ہر روز گزرتا ہے مہینے کی طرح
—
وہ جن کے در ناز پہ جھکتا تھا زمانہ
آتے تھے بڑی دور سے چل کر اسی گھر میں
—
تری تلاش میں ہر رہنما سے باتیں کیں
خلا سے ربط بڑھایا ہوا سے باتیں کیں
—
وہی اقرار میں انکار کے لاکھوں پہلو
وہی ہونٹوں پہ تبسم وہی ابرو پہ شکن
—
قدم قدم پہ تمنائے التفات تو دیکھ
زوالِ عشق میں سوداگروں کا ہات تو دیکھ
—
''زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے''
وہ خود اگر کہیں ملتا تو گفتگو کرتے
—
کوئی ہم نفس نہیں ہے کوئی رازداں نہیں ہے
فقط ایک دل تھا اب تک سو وہ مہرباں نہیں ہے
—
کسی تو کام زمانے کے سوگوار آئے
تجھے جو پا نہ سکے زیست کو سنوار آئے
—
وہ عہد عہد ہی کیا ہے جسے نبھاؤ بھی
ہمارے وعدۂ الفت کو بھول جاؤ بھی
—
فن کار خود نہ تھی مرے فن کی شریک تھی
وہ روح کے سفر میں بدن کی شریک تھی
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
مصطفیٰ زیدیؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ