آج – 27/دسمبر 1809
کلاسیکی شاعری کے ممتاز شاعر” مصطفی خان شیفتہؔ صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام محمد مصطفی خاں تخلص شیفتہؔ ہے۔وہ 27 دسمبر 1809ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ۔شعر گوئی اور سخن فہمی کا بڑا اعلی مذاق رکھتے تھے ۔ گرمی اور لذت کے علاوہ جو ان کے کلام میں خدا دادہے اس میں وہ شکوہ الفاظ اور چشستی ترکیب بھی پائی جاتی ہے جو کسی وقت سوداؔ اور نصیرؔ کا حصہ تھی کلام میں بندش الاظ اور ترکیب روش وار رعایت اسی طرح کی ہے جو غالب اور خاص کر مومنؔ میں پائی جاتی ہے ۔ متانت تہذیب اور سنجیدگی ان کے ہاں کوٹ کوٹ کر بھری ہے کسی موع پر تہذیب کے پہلو کو نظر انداز نہیں کرتے خود کہتے ہیں ۔ یہ بات تو غلط ہے کہ دیوان شیفتہؔ ہے نسخۂ معارف و مجموعۂ کمال لیکن مبالغہ تو ہے البتہ اس میں کم ہاں ذکر خدوخال اگر ہے تو خال ہے ان کی سخن فہمی کا ثبوت ان کی مشہور تذکرۂ گلشن بے خار(1250ھ مطابق1834ء) ہے جس میں ہر شاعر کے کلام کے متعلق انہوں نے بڑی جچی تلی رائیں لکھی ہیں خود خود ان کے معاصران کے مذاق سخن کے معترف و مداح تھے ۔ حالیؔ نے بہت کچھ شیفتہؔ ہی کے فیض صحبت سے حاصل کیا ہے تصوف کے مضامین ، پند و حکمت ، مومنؔ کی سی نزاکت خیال اور ہلکی شوخی و ظرافت ان کے یہاں خاص چیز ہیں۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
ممتاز شاعر مصطفی خان شیفتہؔ کے یوم ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
—
ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بد نام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
—
اظہار عشق اس سے نہ کرنا تھا شیفتہؔ
یہ کیا کیا کہ دوست کو دشمن بنا دیا
—
بے عذر وہ کر لیتے ہیں وعدہ یہ سمجھ کر
یہ اہلِ مروت ہیں تقاضا نہ کریں گے
—
شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہؔ
اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی
—
فسانے یوں تو محبت کے سچ ہیں پر کچھ کچھ
بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لیے
—
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
—
طوفانِ نوح لانے سے اے چشمِ فائدہ
دو اشک بھی بہت ہیں اگر کچھ اثر کریں
—
اے تابِ برق تھوڑی سی تکلیف اور بھی
کچھ رہ گئے ہیں خار و خس آشیاں ہنوز
—
دل بد خو کی کسی طرح رعونت کم ہو
چاہتا ہوں وہ صنم جس میں محبت کم ہو
—
کرتے ہیں غلط یار سے اظہارِ وفا ہم
ثابت جو ہوا عشقِ کجا یارِ کجا ہم
—
سرفروش آتے ہیں اے یار ترے کوچے میں
گرم ہے موت کا بازار ترے کوچے میں
—
دستِ عدو سے شب جو وہ ساغر لیا کیے
کن حسرتوں سے خون ہم اپنا پیا کیے
—
عشق کی میرے جو شہرت ہو گئی
یار سے مجھ کو ندامت ہو گئی
—
میں وصل میں بھی شیفتہؔ حسرت طلب رہا
گستاخیوں میں بھی مجھے پاس ادب رہا
—
مر گئے ہیں جو ہجرِ یار میں ہم
سخت بیتاب ہیں مزار میں ہم
—
اڑتی سی شیفتہؔ کی خبر کچھ سنی ہے آج
لیکن خدا کرے یہ خبر معتبر نہ ہو
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
مصطفی خان شیفتہؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ
آپ مصطفی خان شیفتہؔ کی کتب پنجند۔کام کے اس لنک سے پڑھ سکتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...