مصطفی دلکش صاحب کی ابتدائی شاعری سے ایک شعر پیش خدمت ہے جو ان کے خیالات اور جذبات کی عکاسی کرتا ہے
جرم ثابت نہیں ہے مگر آج بھی
ہیں مقید ہزاروں حوالات میں
مصطفی دلکش صاحب کا اصل نام محمد مصطفی اور والد صاحب کا نام عتیق الرحمن یے۔ تاریخ پیدائش 3 اکتوبر 1966 اور جائے پیدائش گنگوارہ ضلع سہتا مڑھی ریاست بہار بھارت ہے ۔ تخلص اور قلمی نام دلکش ہے ۔ وہ حالات کی مجبوری کے باعث کسی تعلیمی ادارے سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کر سکے البتہ مدرسوں سے عربی اور فارسی کی واجبی سی تعلیم حاصل کر پائے ہیں ۔ یہ ان کی ہمت اور حوصلہ ہے کہ ابتر حالات میں بھی انہوں نے غیر رسمی تعلیم حاصل کی کوئی ڈگری یا سند نہ سہی لیکن غیر رسمی تعلیم کی بدولت مناسب علم حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور ماشاءاللہ کامیاب زندگی گزار رہے ہیں ۔ وہ پیشے کے لحاظ سے ایک تاجر ہیں جبکہ شاعری کا شوق انہیں بچپن ہی سے تھا ۔
مصطفی دلکش صاحب کی مادری زبان اردو ہے لیکن اس کے علاوہ آپ فارسی، ہندی، مراٹھی اور بھوجپوری زبان بھی روانی کے ساتھ بولتے ہیں ۔ معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں، ظلم،جبر اور زیادتیوں پر ان کا دل کڑھتا رہتا ہے جس کے اظہار کے لیے وہ اپنے قلم اور الفاظ کو خوب استعمال کر رہے ہیں ۔ انہوں نے باقاعدہ شاعری کا آغاز 1992 سے کیا ہے ۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ "لفظوں کے دریچے سے" 2010 میں شایع ہوا ہے جبکہ دوسرا شعری مجموعہ "نغمہ عشق" اور بچوں کے لیئے نظموں پر مشتمل کتاب "دلکش دلکش پھول ہمارے " طباعت اور تکمیل کے مراحل میں ہیں اور لاک ڈاون کی وجہ سے زیر التواء ہیں ۔ مشاعروں کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ بھارت میں مشاعروں کے نام پر مذاق ہو رہا ہے ۔ مشاعروں میں زیادہ تر مصنوعی شعراء کو لایا جاتا ہے جو شاعری کے الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں ۔ حقیقی معنوں میں بہت کم مشاعرے ہو رہے ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میری شاعری کا اہم مقصد ظلم اور جبر کے خلاف آواز بلند کرنا ہے ۔ مجھ سے جتنا ممکن ہو سکے گا میں ظلم کے خلاف اپنا ذہن اور قلم استعمال کرتا رہوں گا ۔ ان کی شاعری بھارت کے مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہوتی رہتی ہے ۔دلکش صاحب کی شاعری سے کچھ انتخاب قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے جس میں ان کے دل کے جذبات کا اظہار ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
اگر میں جھوٹ بولوں تو مراکردار خطرے میں
اگر سچ بو لتا ہوں تو مری دستار خطرے میں
زمانہ دشمنِ جاں ہو گیا سچ با ت کہنے پر
بڑی مشکل میں جاں ہے آجکل ہوں یار خطرے میں
ا میرِ شہر کی خا طر سڑ ک تعمیر ہو تی ہے
غریبوں کے مکاں آتے ہیں اوراشجار خطرے میں
نہ لےآ ہیں غریبوں کی ا میرِ شہر سن لے تو
کہیں آجا ئے نہ تیری درو دیوار خطرے میں
دعا ئیں تم ہمیں مت دو سنو اے حاکمِ دوراں
حکیمِ وقت سے ہیں اب کئی بیمار خطرے میں
حکومت ہم نے دیدی ہے میاں قاتل کے ہاتھوں میں
کبھی ہے جان خطرے میں کبھی گھربار خطرے میں
اکڑ کے دیکھ مت مفلس کو اپنی کار سے ناداں
کہیں آجا ئے نہ تیری چمکتی کار خطرے میں
مجھے چپ رہنے دو یا رو مجھے چھیڑو نہ تم ہرگز
میں لب کھولوں تو آجا ئیں کئی کردا ر خطرے میں
کوئی جاکے اسے کہدے اے دلکش ہوش میں آئے
اٹھا دیں ہا تھ تو آ جا ئے گی سر کا ر خطرے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاند کیا حسین لگتا ہے
ان کو چھت پر بلا کے دیکھیں گے
اس کے رخ پہ جمال آیا ہے
اس کو میرا خیال آیا ہے
ضرورت ہے ہمیں روٹی کی اے حاکم دوراں
سناو مت ہمیں اب تم لب و رخسار کا قصہ
کبھی ہے عالم برزخ کبھی ہے عالم ارواح
وہ مومن ہوں کہ یہ ہجرت بھری ہے داستاں میری
مصطفی دلکش مہاراشٹر الہند