مسلم مخالفت کے پردے کا اصلی کھیل کیا ہے ؟
— جب میانمار جل تھا تھا ،نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے تشدد کو لے کر جشن منا رہی تھیں .خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ انھیں اپنے محل سے نوبل انعام اور عالمی حقوق کی سسکیاں سنایی بھی دے رہی تھیں یا نہیں ..؟
— جب فوجیوں اور بودھ مذہب کے پیروکاروں کے ہجوم مسلمانوں کی لاشوں کو روند رہے تھے ، وہ بین الاقوامی سطح پر اور اقوام متحدہ کی جانب سے کی جانے والی مخالفت اور روہنگیا مسلمانوں کی درد بھری چیخیں سننے کے باوجود انسانیت کا دل سوز تماشا دیکھنے میں مصروف تھیں –
— امریکی حکومت مسلم مخالف پالیسی کو عمل میں لانے کے لئے ہر انتہا سے گزر چکی ہے .اسرائیل فلسطینیوں کے لہو سے مسلسل ہولی کھیلنے کے باوجود ابھی بھی اپنے بد ترین کھیل سے باز نہیں آیا ہے .مغرب کی اسرائیل نوازی کاسلسلہ جاری ہے .انسانی حقوق کی علمبرادی کا دم بھرنے والے ممالک مسلمانوں کی شکست اور بربادی کا تماشا دیکھ رہے ہیں …
ایسا ہی ایک تماشا اس وقت ہندوستان میں ہو رہا ہے .دادری کے اخلاق احمد کے قتل سے پہلے ہی مسلمانوں کی ہلاکت کا منظر نامہ تیار ہو چکا تھا ..پھر راجستھان کے پہلو خان اور بے شمار مسلمان قتل اور حادثے کا شکار ہوئے .قتل مسلمانوں کا ہوتا رہا .الزامات بھی مسلمانوں پر لگتے رہے ..انصاف تقسیم ہوا ..مسلمانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیے جانے کے باوجود انصاف ایک مخصوص نظریہ کی آغوش میں دم توڑتا رہا . مظفر نگر فسادات نےپہلے ہی ایک مخصوص سیاسی نظریہ کی طرف سے قاتلوں کو انصاف اور ہندوتو کا تحفہ دیا تھا .اس تحفے نے پورے ملک میں مسلح ہندوتو کے حامیوں کی فوج تیار کر لی .اور اس کے بعد قتل و ہلاکت کے بھیانک کھیل میں مسلمان حاشیے پر پھیک دئے گئے .اترپردیش میں گورکھپور کے ایک اسپتال میں 30 بچوں کی موت کے حادثے کے بعد جس مسلمان ڈاکٹر نے باقی بچوں کی زندگی بچانے کا کام کیا ، اس مسیحا کو ہی یو پی کی یوگی حکومت نے شیطان بتا کر جیل میں بھیج دیا . کاس گنج کے عبد الحمید چوک پر ترنگا کا احترام کرنے والے مسلمانوں پر بھگوا دہشت گردوں نے حملہ کیا ..ساری فوٹیج ،تمام ویڈیو موجود ہونے کے باوجود یوگی حکومت نے مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا اور جیل میں بند کیا ..وزیرا علی یوگی نے اسکے بعد اپنے دہشت گردانہ بیان میں جس طرح مسلمانوں کو پاکستانی ٹھہرایا ، اس سے بھی یہ وضاحت ہو جاتی ہے کہ اب ملک میں کھیلے جانے والا کھیل کس سمت کو جا رہا ہے ؟ مرکزی حکومت اور آر ایس ایس اس حقیقت سے واقف ہے کہ مسلمانوں کی حب الوطنی کے جذبے پر شک نہیں کیا سکتا .تاریخ گواہ ہے کہ غلامی کے بھیانک اور بدترین دور میں مدرسوں ،خانقاہوں نے بھی آزادی کے لئے نا قابل فراموش کردار ادا کیا تھا .بی جے پی کی باجپائی حکومت کے دوران بھی مدرسوں کو ٹارگٹ کیا گیا .لیکن حکومت کو کویی بڑی کامیابی حاصل نہ ہو سکی .اس لئے مودی کی آر ایس ایس حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی بندے ماترم ، یوم یوگا ، سوریہ نمسکار جیسے معاملات میں مسلمانوں کو پھنسا کر انکی حب الوطنی کے جذبے کو داغدار کرنا چاہا .جب وہ یہ حقیقت جان گئے کہ مسلمان قوم اپنے ملک پر جان نثار کرنے کا جذبہ رکھتی ہے ، تو انہوں نے گیم کا انداز بدل دیا .لیکن اس بار کاس گنج میں اپنے شاطرانہ کھیل میں حکومت خود ہی پھنس گیی – سماج وادی پارٹی کے نیتا پروفیسر یادو نے بڑا بیان دے ڈالا کہ ہندو کا قتل ہندو نے کیا .-
کاس گنج کے واقعہ کے بعد ایک حادثہ ہریانہ میں ہوا جب مسلمان ہونے کے نام پر دو کشمیری مسلمانوں کو ہندو دہشت گردوں نے بری طرح زخمی کیا .یہ حادثے اس بات کے گواہ ہیں کہ آئندہ دنوں میں بے گناہ اور معصوم مسلمانوں پر اس طرح کے حملے ہوتے رہینگے . ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو گئے ہیں جہاں تانا شاہی اس حد تک عروج پر ہے کہ لوہیا کیس کی پولیس ڈائری اور تمام ریکارڈس غایب کر دیے جاتے ہیں .انصاف کرنے والی پولیس فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کے خلاف پر تشدد کردار ادا کرتی ہے .آزادی کے بعد کے تمام دنگوں میں پولیس کا کردار وحشیانہ رہا ہے .پھر انصاف کی امید کس سے اور کہاں کی جائے ؟ کاس گنج کے یکطرفہ حملے پر جب بریلی کے ڈی ایم آر وکرم سنگھ نے آواز اٹھایی تو یوگی حکومت وکرم سنگھ کے ہی پیچھے پڑ گیی .وکرم سنگھ نے بلا خوف دل کی بات لکھی کہ عجیب رواج بن گیا ہے .آپ مسلم علاقوں میں ترنگا لے کر جاہیں اور پاکستان مردہ بعد کے نعرے لگایں .جو بھیڑ کا حصّہ تھے اور فائرنگ کر رہے تھے ، حکومت ان لوگوں کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے .سہارن پور کی ایک بڑی خاتون افسر رشمی ورن نے بھی حکومت پر چوٹ کرتے ہوئے لکھا کہ چندن گپتا کو بھگوا لوگوں نے مارا ہے .چندن کی موت کے لئے آر ایس ایس ،بی جے پی اور ہندو سنگھٹن ذمہ دار ہیں .اب ایسی آوازیں چہار طرف سے اٹھنے لگی ہیں .سوال ہے ،حکومت ان آوازوں پر کب تک پابندی لگاہے گی .؟ کیا ایسی آوازوں کو روک پانا آسان ہے .؟ یہ بیان کیی لوگوں کی طرف سے بھی آ چکا کہ کاس گنج میں فساد بھڑکانے کی ساری ذمداری بھگوا بریگیڈیر کی ہے -یہ حقیقت ہے کہ فساد کی تیاری بھگوا بریگیڈیر نے کی .ترنگے کی جگہ بھگوا پرچم لے کر مسلمانوں کے محلے میں اہے .فساد برپا کیا .چندن گپتا نام کے ایک نوجوان کو گولی لگی .یوگی نے شہید کا درجہ دیتے ہوئے چندن کے خاندان کو بیس لاکھ کا تحفہ عنایت کیا .. مسلمان مسیحا کہلاے ، قبول نہیں .دیش بھکتی دکھاے ، قبول نہیں .جو مسلمانوں کو سر عام ذبح کریں وہ ہیرو اور فاتح کہلایں .سیکو لرزم اور جمہوریت کی قبر کھودنے والے آخر چاہتے کیا ہیں …یہی سوال ہے ، جو برسوں کے مسلسل حملوں سے برآمد ہوا ہے .
آخر ان کی نیت کیا ہے ؟ منشاء کیا ہے ؟ کشمیر کے ایک مفتی نے کس کے کہنے سے یہ بیان دیا کہ اب مسلمانوں کو اپنے الگ ملک کی مانگ کرنی چاہئے ؟
در اصل مشن ٢٠١٩ کے لئے حکومت مسلمانوں کی طرف سے اسی طرح کا بیان چاہتی ہے .وہ چاہتی ہے کہ مسلمانوں پر اتنا ظلم ہو کہ آخر مسلمان اپنے لئے ایک آزاد ملک کی مانگ کر بیٹھیں . اور اس مانگ کو آسانی سے ٢٠١٩ کے مشن فتح کے لئے استعمال کیا جا سکے .پھر میڈیا کو، مسلمانوں کو غدار اور دشمن ثابت کرنے سے کویی روک نہیں سکے گا .وہ چاہتے ہیں کہ ظلم و ستم کی انتہا سے گھبرا کر مسلمان ٹوٹ جائے .لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ ہندوستانی مسلمان اس مٹی کا بنا ہے کہ ہر ظلم اور بربریت کی ہر آندھی سے گزرنے کے بعد وہ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور صابر ہو جاتا ہے .ہندوستانی مسلمان اب یہ سمجھ چکا ہے کہ ملک کے جمہوری وقار کو قایم رکھنے کی ذمہ داری اب اس کے بھی سر آ گی ہے . وہ یہ بھی جان چکا ہے کہ جمہوریت اور اظہار راہے کی آزادی کے لئے اسے ہندوستان کے بڑے اکثریتی طبقے کی حمایت بھی حاصل ہے .ہندوستانی مسلمان یہ بھی جانتا ہے کہ عام اکثریت آر ایس ایس حکومت کی نا کامیوں کو سمجھ چکی ہے .ہندوستان غلام تھا تو یہ طبقہ انگریزوں کے ساتھ تھا .انگریزوں کے اقتدار کی بنیاد تھی کہ ہندو مسلم کو ایک نہ ہونے دو .پچھلے چار برسوں میں آقا کا یہی کھیل آر ایس ایس نے کھیلا . حکومت اور میڈیا کا کھیل اب سب کی سمجھ میں آ چکا ہے .فلم اداکار کمل ہاسن ، پراکاش راج ، بی جے پی لیڈر یشونت سنہا ، شتروگھن سنہا جیسے سیکڑوں لوگ اور میڈیا کا با ضمیر طبقہ بھی واقف ہو گیا ہے کہ پردے کے پیچھے کی اصل کہانی کیا ہے ..
ہندوستانی مسلمان یہ ضرور غور کریں کہ ان پر حملہ ملک نے نہیں کیا ہے ، حملہ ایسی سیاسی جماعت نے کیا ہے جس کو ملک کی ملت اور سکون گوارا نہیں . مسلمان نہ بھولیں کہ آج بھی بڑا اکثریتی طبقہ انکے ساتھ ہے . یہ وقت ہوشیاری اور دور اندیشی سے کام لینے کا ہے .ملک کے تحفظ کی ذمہ داری صرف اکثریتی طبقہ پر نہیں ڈالی جا سکتی .راجستھان اور مغربی بنگال کے انتخاب نے بہت کچھ کہہ دیا ہے …ہم وقت کا انتظار کریں کہ وقت ہی زخموں پر مرہم رکھتا ہے ..وقت ہی فضاء سازگار بناتا ہے . وقت ہی تانا شاہوں کے قصوں کو بھولا بسرا افسانہ بنا دیتا ہے …..
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔