روزنامہ ڈان کی خبر کیمطابق تحریک انصاف نے “عورت مارچ” کی مشروط حمایت فرما دیُ ہے اور ایسی ہی مشروط حمایت مسلم لیگ (ن) نے بھی کردی ہے کہ “عورتیں ثقافتی اقدار” کو مدنظر رکھیں ۔اور مذہب کو دونوں ایسے گھسیٹ لائے ہیں جیسے جناح اور آل انڈیا مسلم لیگ سیاست میں گھسیٹ لائے تھا ۔
پاکستان تحریک انصاف ، مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں کو چاہئیے کہ صرف عورت مارچ کیخلاف اسلام کو بطور حوالہ سیاست میں استعمال نہ کریں بلکہ پورے کے پورے اسلام میں داخل جائیں ، مثلا” اسلام میں قبروں کی ڈنڈوت حرام ہے کیونکہ شرک اکبر ہے شرک کی معافی نہیں
صرف عورت مارچ پر اسلام کو استعمال نہ کریں کیونکہ اسلام میں دھرنے دینا ، ہڑتالیں کرنا، شہر بند کروانا حرام اور عشاء کے بعد فضول بات کرنا سخت ناپسندیدہ ہے (دھرنے کے دوران کیا ہوا تھا؟) اور یہ کیا ہے ؟ مذہبی اشتعال انگیزی ؟ اور یہ جو مولوی حضرات جمیعت علماۓ اسلام (ف) اور جماعت اسلامی و دیگر “عورت مارچ” پر بے دریغ سیاسی مقاصد کے لیئے مذہب کو استعمال کررہے ہیں زرا مفتی محمود ، میاں طفیل اور پروفیسر غفور کی داتا دربار پر حاضری، وہاں چادر چڑھانے اور ڈنڈوت کرنے کا شرعی جواز تو دیں؟ قیامت تک نہ دے سکیں گے۔
ہمارے ابن الوقت سیاست دان (تمام جماعتوں) میں باریک کام دکھاتے ہیں کہ “ثقافتی اور مشرقی اقدار” کو گھسیٹ لاتے ہیں جبکہ مشرقی روایات و تہذیب کے کئ ایک شاہکار اگر جناح اور آل انڈیا مسلم لیگ کے اسلامی دو قومی نظریہ اور انکے نعرے اسلام کی کسوٹی پر پرکھیں جائیں تو حرام ٹھہریں ! شاعری؟
مثلا” مشرقی اور ہماری برصغیر کی روایات کیمطابق یہاں ریاستی سطح پر صوفیائے کرام و بزرگوں کا عرس منایا جاتا ہے تو اب زرا اسکو شرعی جواز سے ثابت کرکے دکھائیں ۔ پیغمبر علیہم السلام و صحابہ کرام (رع) تو دور کی بات ہے ائمہ اربع سے ثابت نہیں وہ تمام چیزیں جو اسلام کے نام پر ہورہی ہیں۔
عورت مارچ پر اعتراض ! کیا محترم خلیل الرحمان قمر صاحب کے ڈراموں میں کوئی ایسا منظر ہے جس کو خالص مشرقی تہذیب کیساتھ ساتھ اسلامی بھی کہا جائے؟ کیا انکے ڈراموں میں ہیروئن “شرعی پردے” میں ہوتی ہیں اور ہیرو “باشرع” ہوتے ہیں ، کیا انکے ڈراموں میں لڑکا لڑکی کا رومانوی اختلاط اسلامی ہے؟
عورت مارچ پر خلیل الرحمان قمر اور انکے حواریوں کا اعتراض بالکل بجا تو جس کسوٹی پر وہ “بیباک عورتوں و لڑکیوں” کو پرکھ رہے ہیں اسی کسوٹی پر خود کو پرکھیں اور ڈراموں میں شامل تمام عورتوں اور لڑکیوں کو پردے میں شوٹنگ کریں بلکہ تمام غیر شادی شدہ کی شادی کروادیں ۔ مشرق میں گھس جائیں۔
پاکستان کے اسلامی اور دو قومی نظریئے کے بانی اور مشرقی روایتوں کے امین سرسید احمد خان کے مطابق “اگر ولایت کی عورتیں اگر ہندوستان کی عورتوں کو دیکھ لیں تو حیوان سمجھیں (بحوالہ ۔ حیات جاوید از حالی اور دوسرا نسخہ از ضیاء الدین لاہوری ) اسی لیئے سرسید عورتوں کی تعلیم کے خلاف تھے۔
خلیل الرحمان قمر و دیگر کی من پسند “مشرقی روایت “ یہ بھی تھی کہ مسلمانان برصغیر اپنی “بیوہ و مطلقہ خواتین “ کا نکاح کروانا معیوب سمجھتے تھے تو اسکے خلاف پاکستان کے نظریاتی و قومی قائدین شاہ اسماعیل دہلوی اور انکے پیر سید احمد بریلوی نے کامیاب مہم چلائ (حیات طیبہ مرزا حیرت دہلوی)
مشرقی روایات کے تحت “خواتین” کو دفاعی و داروغہ کی ڈیوٹیاں نہیں اور شرعی طور پر تو خواتین پر جہاد ہے ہی نہیں تو کیا خلیل الرحمان قمر صرف عورت مارچ پر طبع آزمائیں فرمائیں گے یا دفاعی اور قانوںن نافذ کرنے والے اداروں میں خواتین کی نوکریوں کیخلاف اعلی عدلیہ میں پیٹیشن دائر کرینگے؟
خلیل الرحمان قمر و حواری کا اعتراض “عورت مارچ” پر اپنی جگہ کہ مشرقی اقدار و تہذیب سے روگردانی ہے اور انکے ڈراموں میں جو بے پردہ خواتین دکھائ جاتی ہیں اس پر جو مرد حضرات عورتوں پر نظر بازی کرتے ہیں اس پر حکم یہ ہے۔ خلیل الرحمان قمر و دیگر مشرقی روایات کے امین حضرات کو جاننا چاہییے کہ صرف عورتوں پر پردہ کی پابندی نہیں، مردوں پر بھی ہے۔
پہلی نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالو’ بے شک پہلی نظر تو تیرے لیے (معاف) ہے لیکن دوسری تیرے لیے (معاف) نہیں ہے”۔ (حضرت علی (رع) سے روایت ہے ترمذی میں)
تحریک انصاف و مسلم لیگ (ن) اگر مشرقی اقدار، تہذیب اور مذہب کی کسوٹی پر “عورت مارچ” کو پرکھیں گے تو خود پہلے اپنے آپ کو اسی کسوٹی پر پرکھیں اور اپنی تمام ممبر خواتین کو اسمبلیوں و سینٹ سے استعفی دلوائیں کہ گھر سنبھالیں ، بچوں کی تربیت کریں اور “ہر وقت” اپنے شوہروں سے پیار کریں۔
مشرقی روایات و تہذیب کے دعویدار حضرات “عورت مارچ” پر عورتوں سے مشرقی روایات و تہذیب کی پاسداری کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ کیا خلیل الرحمان قمر صاحب کے ڈراموں میں اداکاری کرنے والی خواتین کے محرم انکے ساتھ اسٹوڈیو میں موجود ہوتے ہیں؟
طاقت کی سیاست میں اسلام کو نہ گھسیٹیں!!
مشرقی تہذیب و روایات کے امین #جوش_ملیح_آبادی نے کوٹھوں پر جانا شرفاء کے لیئے باعث فخر بتایا جبکہ عورتوں کے معاملے میں اس زمانے میں لکھنؤ کی مسلمان اشرافیہ کی غیرت کا یہ عالم تھا کہ فحش ترکاری و سبزی یعنی لوکی، کھیرا ، مولی اور گاجر وغیرہ ثابت نہیں لائ جاتی تھیں کہ بہک نہ جائیں۔ مشرقی روایات کے دعویدار حضرات عورت مارچ پر سیخ پا ہورہے زرا اس “مشرقی روایت” پر توجہ فرمائیں۔
This Pakistani shrine received offerings of phallic symbols for ages. But now they are deemed vulgar via @scroll_in by @awhitetrail
خلیل الرحمان قمر و دیگر کو بہت شدت سے مشرقی روایات و اقدار ہورہی ہیں ۔ یہ ہمارے مشرقی شعراء کا “لڑکوں” سے خالص مشرقی “عجمی ذوق (لونڈے بازی) “ ملاحظہ فرمائیں ۔ ان شعراء کا کلام ہمارے نصاب میں شامل ہے۔ بشکریہ “ریختہ” @Rekhta
جو فسق و فجور کا بازار “مغربی دنیا” میں ۲۰ صدی میں گرم ہوا وہ مسلمانوں کے خالص “مشرقی تہذیب اور اقدار” کے منبع برصغیر میں ۱۸۵۷ سے پہلے کھلے عام ہوتا تھا۔خلیل الرحمان قمر و دیگر مشرقی روایات کے دعویدار پڑھیں مرقع دہلی از درگاہ قلی خان (فارسی و اردو)
World Economic Forum, which our leaders rush to attend each year with seemingly no other purpose than to further their sense of self-importance & massage their egos, places Pakistan in the gender disparity index at 151 out of listed
لنک