مسلم دنیا کے انسان کا مسئلہ ۔۔۔
انسان کی نشوونما کے لئے ایک چیز بہت ضروری ہے اور یہی وہ ایک چیز ہے جو ہماری تہذیب و کلچر میں نہیں پائی جاتی ہے۔اس خصوصیت کو انگریزی میں courage اور اردو میں بہادری کہتے ہیں ۔یہ انسان کی سب سے پہلی اور بنیادی روحانی خصوصیت ہے۔پاکستان کی انسانیت بدقسمتی سے اس خصوصیت سے محروم ہے ۔ تمام نام نہاد ترقی یافتہ اور ترقی پزیر مسلم دنیا میں بھی یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی۔بہادری یہ نہیں کہ اسلام اور خدا کے نام پر خود کش حملہ کردینا چاہیئے ۔بہادری یہ نہیں کہ غیرت کے نام پر قتل کردینا چاہیئے ۔بہادری یہ نہیں کہ مذاہب اور عقائد کی بنیاد پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کی تبلیغ شروع کردی جائے ۔بہادری یہ نہیں کہ کسی کو قتل کردینا اور بہادری یہ نہیں منافقت اور عیاری سے کسی کو شکست دے دینا ۔ہم تمام انسان ،چاہے وہ پرانے زمانے کے انسان تھے یا آج کے ہیں ،صرف ہجوم کا یا مجمع کا حصہ تھے ،ہیں اور شاید صدیوں تک رہیں گے ۔ہم انسان نہیں ہیں اور نہ ہی افراد ہیں ،ہم سب ہجوم ہیں ۔ہجوم یا مجمع کبھی بہادر نہیں ہوتا ،ہجوم یا مجمع ہمیشہ بزدل تھا ،ہے اور رہے گا ۔ہم ڈرپوک اس وجہ سے ہیں کہ ہم ہجوم ہیں ،اس لئے انتہا پسند ،متعصب اور دہشت گرد ہیں ۔ہمیں ہر جگہ تحفظ اور سیکیورٹی کی ضرورت ہے ۔اس دنیا میں رہتے ہیں ،لیکن ہمیں آنے والی زندگی کے لئے تحفظ اور سیکیورٹی چاہیئے،رہتے اس دنیا میں ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ مرنے کے بعد حوریں نصیب ہوں ،شراب طہورا کا نشہ نصیب ہو ،جنت کی عیاشیاں ملیں ۔اسی وجہ سے ہم اپنے آپ کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیتے ہیں ،قادیانی کو قتل کردیتے ہیں ،شیعہ مسلمانوں کو عقیدے کے نام پر مار دیتے ہیں ۔۔ ۔ہم مجمع ہیں اور ہجوم ہیں ،اور ہمارا خیال ہے کہ یہاں ہر کوئی غلط نہیں ہوسکتا ،اس لئے ہم ہجوم کا حصہ ہیں ۔یہ نواز زرداری جمہوریت بھی ایک ہجوم ہے ،ضیاء الحق اور مشرف کا مارشل لاء بھی ایک ہجوم تھا ۔اسی وجہ سے ہمارا معاشرہ مصائب اور مسائل کا شکار ہے۔ایک بات یاد رکھیں ہجوم یا مجمع ہمیشہ غلط ہوتا ہے۔مجمع یا ہجوم کبھی درست ہو ہی نہیں سکتا ،کیا کبھی ہم میں سے کسی نے سنا ہے کہ کہیں ہجوم باشعور اور بصیرت والا بن گیا ہے؟چاہے وہ جمہوریت کا ہجوم ہو یا مارشل لاء کا ہجوم ۔ ۔صرف ایک فرد ہی شعور،آگہی اور بصیرت کے بلند ترین آسمان کی اونچائیوں تک پہنچ سکتا ہے ۔ہم اسی فرد کو قتل کررہے ہیں ۔کبھی ہم امجد صابری کو قتل کردیتے ہیں ،کبھی خرم زکی کو تو کبھی صبین محمود کو ۔کبھی لاہور میں حملہ کرکے درجنوں افراد کو مار دیتے ہیں۔۔ہجوم ہمیشہ بے شعور رہتا ہے اور کبھی آگہی اور بصیرت کی انڈر اسٹینڈنگ حاصل نہیں کرسکتا ۔شعور عبدالستار ایدھی تھا ۔شعوری ادیب رضوی ہے ۔شعور رضا رومی ہے جو امریکہ اور کینڈا میں اب ہے ۔بہادری کا مطلب ہے ،اکیلے کھڑے رہنا ،کسی رہنمائی ،کسی نقشے کے بغیر اپنا راستہ ،اپنی سچائی خود تلاش کرنا ۔زندگی کے گھنے اور پیچیدہ ترین جنگل میں اپنا راستہ خود تلاش کرنا بہادری ہے۔اور یہی چیز انسان کو الرٹ کرتی ہے ۔اور اسے باشعور بناتی ہے ۔زندگی کے گھنے اور خوفناک جنگل میں جنگلی جانوروں کا سامنا بھی کرنا چاہیئے،رات کی تاریکی سے بھی مقابلہ کرنا چاہیئے ۔یہ خوفناک راستہ تو ہوسکتا ہے ،لیکن اسی میں خوبصورتی ،شعور ،آگہی اور زندگی ہے ۔کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں جارہا ہے؟اور اسی دوران انسان کی اندر کی دنیا میں ایک دھماکہ ہوتا ہے اور اسی دھماکے سے نیا انسان پیدا ہوتا ہے ۔لیکن ہم تو انسانوں کو خودکش دھماکوں سے اڑا رہے ہیں ،۔ایسا فرد جو کسی ماضی ،کسی کلچر کو کھاتے میں نہیں لاتا ،اور خود ہی زندگی کے گھنے جنگل میں اپنی سچائی کے لئے نکل پڑتا ہے وہی بہادر ہے اور وہی تو ہے جو انسان کہلانے کا حقدار ہے ۔وہی کبیر ہے ،وہی منصور حلاج ہے ،وہی بابا بلے شاہ ہے ،وہی ڈارون ہے اور وہی غالب یا پھر فیض احمد فیض ہے ۔نیا سورج تب طلوع ہوگا یا نئے انسان کی شروعات اس وقت ہوں گی جب ہم بہادر بنیں گے ۔کیا ہم میں سے ایسا بہادر ہے ؟کیا اس قسم کی بہادری ہم میں ہے؟ضرور سوچیئے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔