مسکراہٹ ہی انسان کی شناخت ہے
ٹریفک کی ہنگامہ خیزی عروج پر تھی، شور شرابے کا بھیانک سماں تھا۔ ہم دونوں فٹ پاتھ پر خاموشی سے چلتےجارہے تھے ۔اس کی معصوم آنکھوں میں آنسو رواں تھے ۔ایسا محسوس رہا تھاجیسے ہم کسی ہنگامہ خیز فٹ پاتھ پر نہیں بلکہ اداس جنگل میں سفر کررہے ہیں ۔وہ اآنسووں کی دنیا میں بدمست تھا اور میں اس کی آنکھوں کی معصوم کی آنکھوں سے رواں آنسووں کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔بہت وقت گزرچکا تھا،ابھی تک اس کی انکھوں سے آنسوؤں کا سلسلہ جاری تھا ۔معلوم نہیں کیوں میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس کیفیت سے باہر نکلے۔
اب اس کے آنسو میری برداشت سے باہر تھے،چلتے چلتے میں نے کہادوست کہاں جانا ہے؟ اس نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا اس طرف ۔پھر ہم گالف روڈ کی طرف چل پڑے۔گالف روڈ کا میری زندگی سے پرانا رشتہ جڑا تھا ۔تین سال سال قبل اس روڈ پر ٹریفک حادثہ ہوا تھا جس سے میرے بائیں ہاتھ کی دو انگلیاں ٹوٹ گئی تھی ۔حادثے کی جگہ پر پہنچتے ہی اچانک میری ہنسی نکل گئی ۔میری دلکش مسکراہٹ سن کر دوست اچانک گھبرا گیا۔ اس نے کہا کیا ہوا ؟میں نے کہا دوست ہر زخم بھر جاتا ہے ،آج سے تین سال پہلے اسی جگہ پر میرے ساتھ حادثہ پیش آیا تھا ۔سالی انگلیاں ٹوٹ گئیں تھی ۔آج ان انگلیوں کو دیکھ رہا ہوں ،بے شرم میرے ہاتھ سے شرارتیں کررہی ہیں ۔
کبھی کبھی اداس یادیں بھی انسان کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہیں ۔جب یہ یہ حادثہ پیش آیا تھا،اس روز مجھے ایسے لگا جیسے زندگی ختم ہو گئی ہے،میں معذور ہوگیا ہوں۔ ۔لیکن آج دیکھو ہونٹوں سے مسکرہٹ پھوٹ رہی ہے ۔ دلفریب خوشی سی محسوس ہو رہی ہے ۔سوچا تھا شاید عمر بھر ان انگلیوں سے محروم رہوں گا ۔لیکن ایسا نہیں ہے ۔ دوست نے کہا انسان کی شناخت اس کی سوچ نہیں ہوتی نہ ہی اس کے خیالات اور نظریات ہوتے ہیں۔ سوچ،خیالات اور نظریات میں زندگی نہیں ۔خواب اور حقیقت پسندی بھی انسان کی شناخت نہیں ۔انسان کی شناخت تواس کے احساسات ہیں ۔یہ جو مسکراہٹ ہے،یہی تمہاری شناخت ہے ۔
اس نے کہا زندگی ایسا سفر نہیں جو صرف خیالات ،نظریات خوابوں اور حقیقتوں میں گزار دیا جائے ۔خیالات کا سفر اچھا ثابت ہوسکتا ہے ،لیکن حقیقی سفر انسانی احساسات ہیں ۔انسان صرف دماغ یا زہن کا نام نہیں ،انسان احساس کانام ہے ۔باتیں کرتے کرتے وہ اچانک خاموش ہوگیا ۔دوست کی آنکھوں سے آنسو اچانک تھم گئے ۔پارک کا گیٹ سامنے تھا ،ہم پارک میں داخل ہو گئے ۔سبزے سےمزین لہلہاتے میدان میں ایک درخت کے نیچے جاکر بیٹھ گئے۔بچے کرکٹ میچ کھیل رہے تھے ۔
دوست اب زندگی کو انجوائےکرتا نظر آرہا تھا ۔وہ مسکرا رہا تھا ۔میں نے کہا دوست میں سمجھا تھا جیسے تم زندگی کے دشمن ایک اداس انسان ہو،اب ایسا نہیں لگ رہا ؟اس نے کہا میں زندگی کی انجوائمنٹ کے خلاف نہیں ہوں ۔میں اس لائف اسٹائل کے خلاف ہوں جو آج کے انسانوں نے اپنایا ہوا ہے ۔انسان زندگی کو انجوائے نہیں کررہا ۔زندگی کو انجوائے کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔انجوائمنٹ کے خواب دیکھ رہا ہے۔اسی لئے تکلیف میں ہے ۔ہم امید کے پیچھے دوڑ رہے ہیں ۔امید انجوائےمنٹ نہیں ۔امید توایک دھوکہ ہے جو انسان کا زہن و دماغ اسے دے رہا ہے۔معلوم نہیں کیوں انسان ایسا کرتا ہے جب وہ یہ کہتا ہے آج تکلیف اور دکھ ہے کل ایسا نہیں ہوگا ۔زندگی انجوائے کرنے والا انسان آنسوؤں کو بھی انجوائے کرتا ہے اور کرکٹ دیکھ کر بھی مسکراتا ہے ۔کیونکہ زندگی آج ہے ۔زندگی یہی ہے۔انسان کو زندگی کے ہر لمحے کا لطف لینا چاہیئے ۔چاہے وہ لمحہ آنسوؤ سے مزین ہو یا پھر مسکراہٹ کا ۔اس نے کہا میرا نظریہ جشن بھی ہے اور آنسوو بھی ۔
دوست نے درویشانہ انداز میں اآسمان کی طرف ہاتھ لہراتے ہوئے کہا کہ میرا نظریہ خوشی اور غم ہے ۔میں اس نظریئے کے پیچھے زندگی ضائع نہیں کرسکتا جو خوشی اور جشن منانے سے روکتا ہے ۔ انسان کا المیہ یہ ہے کہ وہ خوشی اور غم دن دونوں کو پوشیدہ رکھتا ہے ۔انسان کو ایک معصوم بچے کی طرح زندگی کو انجوائے کرنا چاہیئے ۔وہ رقص کرے ،ںغمے گائے اور آنسو بہائے ،لیکن ایک معصوم بچے کی طرح ۔لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نظریات اور خیالات کی وجہ سے فطرت کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ پرندوں ،درختوں ،پھولوں ،سورج،چاند اور ستاروں سے ناواقف ہیں ۔انسان کے علاوہ تمام کائنات زندگی کا لطف لیتی نظر آرہی ہے ۔لیکن ہم خوشی اور غم کی وجوہات تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔جو انسان ہر لمحے زندگی کا لطف لیتے ہیں، وہی تو ہیں جو زندگی کو جانتے ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔