مسکراہٹ ایسی چیز نہیں جو ہم سیکھتے ہیں۔ دنیا میں ہر تاریخی اور موجودہ کلچر میں خوشی کے اظہار کا طریقہ ہونٹوں کا یہ خم رہا ہے۔ وہ بچے بھی جو بہرے اور نابینا ہوتے ہیں، اسی ٹائم ٹیبل پر مسکرانا شروع کر دیتے ہیں جس پر وہ بچے جو دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ کس چیز پر خوش ہونا ہے؟ اس پر کلچرز کا اتفاق نہیں لیکن خوشی کے اظہار کا طریقہ یونیورسل ہے۔ تمام نارمل انسان اندورنی خوشی کا اظہار ہمیشہ سے مسکرا کر کرتے رہے ہیں۔
آج کا دور بہت سی زبردستی کی مسکراہٹوں سے بھرا پڑا ہے۔ مثلا، کسی ہوائی جہاز پر فلائیٹ سٹیورڈ کی مسافروں کو الوداع کہتے ہوئے مسکراہٹ۔ مسکراہٹ پر فرانس کے نیورولوجسٹ ڈوشین ڈی بولوگنے نے 1862 میں فوٹوگرافی اور بجلی کی مدد سے تحقیق کی تھی اور اس پر اپنی کتاب شائع کی تھی۔ (ڈارون نے جب اس سے دس سال بعد اپنی بیسٹ سیلر کتاب “انسانوں اور جانوروں کے جذبات” لکھی تو اس کتاب کی تحقیق کو استعمال کیا تھا)۔ لیکن ڈوشین کی تحقیق پس منظر میں چلی گئی۔ اس سے ایک صدی کے بعد یونیورسٹی آف کیلے فورنیا کے سائیکلولوجسٹ پال ایکمین نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ پال ایکمین چہرے کے تاثرات پر دنیا کے بہترین ماہرین میں سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے اصل مسکراہٹ کا نام ڈوشین سمائل رکھا۔
ڈوشین نے اصل اور زبردستی کی مسکراہٹ کا فرق چہرے کے پٹھوں کے استعمال سے لگایا۔ ان دونوں مسکراہٹوں میں الگ مسلز استعمال ہوتے ہیں اور یہ فرق سب سے زیادہ نمایاں آنکھوں میں نظر آتا ہے۔ وہ مسل جو آنکھوں کی مسکراہٹ کو کنٹرول کرتا ہے وجہ اوربیکولارس آکولائی کہلاتا ہے۔ یہ مسل ہماری آنکھ بند کرنے کے کام آتا ہے اور اگر یہ ایکٹو ہو تو یہ نشانی اس چیز کی ہے کہ مسکراہٹ اصل ہے۔ دماغ کے سکین یہ بتاتے ہیں کہ خوشی میں یہ مسل ایکٹو ہو جاتا ہے جبکہ زبردستی کی مسکراہٹ میں یہ نہیں ہوتا۔ اگر ویٹر مسکرا کر آپ سے بات کر رہا ہے، اس کی بھویں چیک کریں۔ اگر اس کے باہری کنارے نیچے کی طرف معمولی سے خمیدہ نہیں تو یہ مسکراہٹ زبردستی کی ہے۔
نہ صرف یہ اصل اور جعلی مسکراہٹ میں فرق کا بتاتا ہے بلکہ ہمارے اور ہمارے جذبات کے بارے میں ایک اہم سبق بھی ہے۔ جذبات یا مسکراہٹ طاری نہیں کئے جاتے۔ شعوری عمل اس کا ایک حصہ ہی کر سکتا ہے۔ اس کی ایک بڑی حیران کن اور واضح مثال سٹروک کا شکار وہ مریض ہیں جو ایک افسوس ناک کنڈیشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس کو سنٹرل فیشل پیرالاسس کہا جاتا ہے۔ اس میں چہرے کا ایک حصہ (دایاں یا بایاں) ان کے شعوری کنٹرول میں نہیں رہتا۔ جب ان کو مسکرانے یا ہنسنے کا کہا جاتا ہے تو یہ صرف ایک سائیڈ پر ایسا کر سکتے ہیں اور آدھی مسکراہٹ بکھیر سکتے ہیں۔ ایک طرف سے ہونٹ پھیل جاتے ہیں، دوسری طرف سے جامد۔ لیکن جب ان کو اچھا لطیفہ سنائے جائے یا کسی اور طریقے سے خوشی ہو تو چہرے پر کھلنے والے مسکراہٹ مکمل ہوتی ہے۔
ہماری مسکراہٹ کے ایک سے زیادہ ماسٹر ہیں۔ اس سے حیران کن؟ ہم جعلی مسکراہٹ کو فوری طور پر سمجھ لینے کے معاملے میں اتنے نکمے نہیں۔ زیادہ تر لوگ اس کو دیکھتے ساتھ ہی پہچان جاتے ہیں، خواہ یہ بالکل نہ بتا سکیں کہ ان کو ایسا کیوں لگتا ہے۔
ساتھ تصویر میں دائیں طرف والے شخص نے اپنا چہرہ ہاتھوں سے چھپایا ہوا ہے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ مسکرا رہا ہے یا نہیں اور کیا اس کی مسکراہٹ اصل ہے؟ جبکہ بائیں طرف والا کا مسکراتا چہرہ نمایاں ہے۔ کیا یہ مسکراہٹ اصل ہے؟