"مسکان کی خوشبو"
اومنی بس کے اڈٰے پر آج بھی بس کا انتظار کرتی سواریوں کے چہروں پر گرمی، دھول، دھواں اور انتظار ایک ساتھ بیٹھے محوِ تماشہ تھے۔ خدا خدا کرکے بس آئی اور پھر بھگدڑ سی مچ گئی۔ بس کے دروازوں سے ایک ساتھ سواریوں کے جتھے کے جتھے اندر گھسنے کی کوشش میں دھکم پیل، گالی گلوچ کی مدد سے بالآخر کامیاب ہوئے۔ یہ ہجوم جب بڑی بڑی گٹھریوں کی صورت بس کے اندر گھسا تو ایک گھڑی میں وہ بھی اپنی دو محلے دار ہم جماعت لڑکیوں کے ساتھ موجود تھی۔۔۔۔ بس کا ڈرائیور وہی تھا، وہی جس کا نام انھوں نے مسکان رکھ دیا تھا، کیونکہ اس کے چہرے پر ہر وقت ایک مسکان کھیلتی رہتی۔ خواہ موسم کتنا ہی خراب ہو، سواریاں کتنی ہی بد اخلاق کیوں نہ ہوں، حکومت کی کھٹارا سی بس بیچ سڑک دو چار جھٹکوں کے بعد چلنے سے انکاری ہو جائے، لیکن اس کا چہرہ مسکراتا رہتا۔ یہ سخت جان مسکان جانے اس کے اندرون کے کتنے مقاماتِ درد سے بچتی بچاتی، صحیح و سالم اس کے چہرے پر اپنا دائمی گھر بنا چکی تھی۔ وہ شاید ادھیڑ عمر تھا لیکن بوڑھا دکھتا تھا اور مسکان اس کے چہرے کی جھریوں کا اٹوٹ حصہ بن چکی تھی۔ اب اسے مسکرانے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی تھی، اس کا چہرہ مسکراہٹ کا دوسرا نام تھا۔ اسے دیکھ کر دیکھنے والوں کی تھکن یا پژمردگی بھی مسکان میں بدل جاتی۔ ۔۔۔ ایسے ہی ایک روز اس نے اپنی سہیلی سے کہا، جانے جب ہم بوڑھے ہوں گے تو ہمارے چہرے کیسے ہوں گے، میں تو چاہوں گی یہ مسکان میرے چہرے کا بھی دائمی حصہ بن جائے۔۔۔۔۔
مسکان کی خوشبو نے لمبا سفر طے کیا ۔ اس کی گود میں لیٹا اس کا ننھا نواسہ اس کی مسکان اسے لوٹا رہا تھا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“