جب مجھے وہ کرایہ پکڑاتی تھی تو اس کے ہونٹوں پہ ایک دھیمی سی، نامعلوم سی مسکراہٹ ھوتی تھی ویسی ہی نا معلوم جیسے رویت ہلال کمیٹی والوں کو چھوٹی عید کا چاند دکھائی دیتا بھی ھے اور نہیں بھی..اور پھر وہ اسکی بڑی بڑی آنکھیں، ڈوبتے ڈوبتے سارا دن سکون سے گزر جاتا تھا.. میں اپنی زندگی کی سبھی تلخیاں بھول جاتا تھا.. میں بھول جاتا تھا کہ جب میں صرف چار ماہ کا تھا تو میرا باپ ہالینڈ کا ویزہ لگوا کے ایسا گیا کہ پھر آج تک خبر نہیں کہ وہ ھے بھی کہ نہیں.. میں بھول جاتا تھا کہ کیسے میری ماں رو رو کے روز مرا کرتی تھی، وہ چھوڑ کر جانے والے کو یوں روتی تھی جیسے وہ مر ہی گیا ھو.. میں بھول جاتا تھا کہ جب جانے والے کو روتی روتی مجھے صرف آٹھ سال کی عمر میں ایک بار پھر یتیم کر گئی تھی.. میں بھول جاتا تھا کہ کیسے میرے ماموں نے ماں کے گھر پہ قبضہ کر کے مجھے آٹھ سال کی عمر میں گھر سے نکال دیا تھا.. میں بھول جاتا تھا کہ کیسے کبھی مسجد میں ، کبھی قبرستان کے دربار میں سوتے جاگتے میں نے چھے سال گزار دئیے اور اب پچھلے چار سال سے میں ایک ویگن پہ کنڈکٹر تھا جہاں وہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں لئے کالج جایا کرتی تھی اور میں اس کی آدھی جلتی آدھی بجھتی مسکراہٹ اور آنکھوں میں ڈوبتے ڈوبتے سب بھول جاتا تھا..
صبح صبح اٹھ کے سردیوں میں جب ٹھنڈے پانی سے گاڑی دھوتا تھا تو سب کچھ کسی فلم کی طرح میری آنکھوں میں چلتا تھا اور ساری فلم گیلی ھو جاتی تھی..
زندگی کی تمام تر تلخیاں میرے اردگرد ایسے ناچتی تھیں جیسے کوئی افریقی وحشی قبیلہ جلتی آگ پہ مجھے الٹا باندھ کے آگ کے گرد گھومتا جاتا ھو اور اپنی اول فول زبان میں خونخوار گانے گاتا ھو…. مگر وہ ایک لمحہ جب وہ بڑی بڑی آنکھوں میں سمندر سمائے اور آدھی جلتی آدھی بجھتی مسکراہٹ کے ساتھ کرایہ پکڑاتی تھی تو مجھے لگتا کہ جیسے میں بکنگھم پیلیس میں تخت پر بیٹھا ھوں اور سب گورے گوریاں میرے سامنے آدھے جھکے ھوئے کہہ رھے ھوں، یس یور ھائی نیس، آرڈر "…
……
زندگی ایسے سرپٹ دوڑتی ھے جیسے ہرن شیر کے آگے بھاگتا ھے.. وہ بڑی بڑی آنکھوں میں ھزاروں رنگ کے سپنے سموئے کسی کے گھر میں روشنیاں بھر رھی ھو گی اور میں اب دو ویگنوں اور ایک نئی ٹویوٹا کرولا کا مالک ھوں، تلخیاں، کب آسانیوں میں بدل گئی، پتہ بھی نہیں چلا.. کام کرتے، زندگی کے ساتھ دوڑتے بھاگتے کاروبار بھی چل پڑا شادی بھی کر لی اور شادی کے چار سال بعد ایک بیٹی بھی دی خدا نے… بیٹی اب سات سال کی ھے، نام مسکان رکھا ھے اس کا… جب دن بھر کی کمائی اور تھکاوٹ لئے گھر آتا ھوں تو مسکان بڑی بڑی آنکھیں لئے، مسکراتی ھوئی بابا بابا کہتی جب ٹانگوں سے آ لپٹتی ھے تو لگتا ھے کہ جیسے میں بکنگھم پیلیس کے تخت پر بیٹھا ھوں اور سب گوریاں گورے میرے سامنے آدھے جھکے ھوئے کہہ رھے ھوں، یس یور ھائی نیس، آرڈر "…
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...