موسیقی کی دنیا کے پرفیکشنسٹ کی کہانی
آج جس عظیم انسان کی کہانی پیش کررہاہوں ،اس لیجنڈکا نام ہے ،خواجہ خورشید انور ۔خواجہ خورشید انور برصغیر کی موسیقی کی دنیا کا ایک بہت بڑا نام ہیں ۔خواجہ صاحب موسیقی کی دنیا کا اتنا بڑا نام ہیں کہ ہم اگر بھلانا بھی چاہیں تو انہیں نہیں بھول سکتے ۔خواجہ صاحب 30مارچ 1912 کو میانوالی میں پیدا ہوئے ،1928 میں گورنمنٹ کالج لاہور کا حصہ بنے ،1935 میں پنجاب یونیورسٹی سے فلاسفی میں ایم ائے کیا ،پھر آئی سی ایس جسے اب سی ایس ایس کا امتحان کہا جاتا ہے ،اس میں ٹاپ کیا ۔یہ 1939 کا زمانہ ہے ،اسی سال وہ آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہوگئے ۔1940 میں خواجہ صاحب نے آل انڈیا ریڈیو کی نوکری کو خیر باد کہہ دیا اور ممبئی چلے گئے ۔ممبئ جانے کی وجہ موسیقی تھی ،انہیں موسیقی سے عشق تھا ،کہتے تھے انہوں نے زندگی میں صرف ایک بار عشق کیا ہے ،وہ عشق انہیں موسیقی سے تھا،موسیقی کو وہ اپنی محبوبہ کہتے تھے ،اس لئے انہیں موسیقی کی دنیا کا پرفیکشنسٹ بھی کہا جاتا ہے۔اشارہ،یتیم ،پروانہ ،نیلم پری،سنگھار،انتظار ،جھومر،ہم راز،ہیر رانجھا ،سلام محبت ،شیریں فرہاد حیدر علی ان کی مشہور فلمیں ہیں ،وہ فلموں کے پروڈیوسر بھی تھے،کہانی بھی خود لکھتے تھے ،ڈائریکشن بھی خود ہی دیتے تھے اور میوزک بھی خود ہی ترتیب دیتے تھے ۔انہیں کئی مرتبہ بیسٹ میوزک ڈائریکٹر کے ایوارڈز سے نواز گیا ۔ایک زمانہ تھا جب پاکستان کی پہچان اور شناخت صرف دو ناموں کی وجہ سے تھی ،ایک خواجہ صاحب کی موسیقی کے سر اور دوسرا میڈم نورجہاں کی آواز،کہا جاتا تھا یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے پیدا ہوئے تھے ۔میڈم کی آواز اور خواجہ کی دھنوں کا نام پاکستانی موسیقی تھی ۔کبھی موقع ملے تو میڈم کی آواز میں ایک گانا ضرور سنیئے گا ،چاند ہنسے ،دنیا بسے ،اس سے اندازہ ہوجائے گا کہ خواجہ صاحب کی دھنیں کیسی تھی ۔خواجہ صاحب جب نئے نئے فلم کی دنیا کی موسیقی میں داخل ہوئے تو اس وقت کی موسیقی کی روایات میں ایک مسئلہ تھا ،وہ یہ کہ کلاسیکل سنگیت کی پہنچ ایک خاص طبقے تک محدود تھی ،لیکن خواجہ صاحب نے فلموں کے زریعے کلاسیکل سنگیت عوام تک پہنچایا ۔خواجہ صاحب کا یہ سب سے عظیم کام تھا ۔انہوں نے کلاسیکل موسیقی کی کوالٹی کو برقرار رکھتے ہوئے فلموں کے زریعے اسے ایک نئی شناخت دی اور کسی قسم کا اس ھوالے سے کمپرومائز نہیں کیا۔خواجہ صاحب نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ پاکستان کی فلم کی موسیقی میں نکھار اس وقت آئے گا جب اس میں کلاسیکل موسیقی کی روایات کو شامل کیا جائے گا ۔اگر ہماری فلموں سے کلاسیکل رنگ نکل گیا تو ہم موسیقی کی حقیقی شناخت کھو دیں گے ۔اب ہماری تہذیب و کلچر سے کلاسیکل دلکشی ختم ہو گئی ہے اس لئے موسیقی کا جو حال ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے ۔ان کی ایک فلم تھی جس کا نام تھا کوئل ،اس فلم کا ایک گانا ہے ،جس کے بول ہیں تیرے بنا سونی سونی لگے رے چاندنی رات ۔اس گانے کو سن کر انسان یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ موسیقی تو اسے کہتے ہیں ۔دھنوں اور سروں کے حوالے سے خواجہ صاحب کی ایک خاص شناخت تھی ،جیسے آج بھی کہیں کوئی گانا بج رہا ہو تو انسان یہ کہتا ہے کہ یہ موسیقی تو خواجہ خورشید انور کی ہے ۔وہ الفاظ اور سروں کی طاقت کا بھرپور استعمال کرتے تھے ۔خواجہ صاحب سنگیت خسروی کے حقیقی اور اصلی رہنما تھے ۔کمال کی بات یہ ہے کہ وہ فن کے تقاضوں اور مقاصد سے بھرپور آگاہ تھے ،کلاسیکل میوزک کے ساتھ ساتھ وہ فوک میوزک کو بھی سمجھتے تھے ،کشمیری ،راجھستانی اور پندوستان کے تمام موسیقی کے رموز پر انہیں بھرپور عبور تھا ۔موسیقی کے ان تمام اثرات ان کے مزاج کا ھصہ تھے ۔اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ فلسفے کے ایک طالبعلم تھے ،اس لئے وہ ہر قسم کی موسیقی کے تعلق کو تلاش کرتے تھے کہ فلاں موسیقی کا کس زمین سے تعلق اور آہنگ ہے ۔وہ موسیقی یا ایسی فلم جو آرٹ کی حدوں کو تو چھوتی تھی ،لیکن عوام تک اس کی رسائی مشکل تھی تو اسے وہ فن کی ناکامی سمجھتے تھے ،اسی لئے انہیں موسیقی کی دنیا کا حقیقی عاشق کہا جاتا ہے ۔ان کی بدقسمتی یہ رہی کہ جب وہ ممبئی میں بہترین موسیقی دے رہے تھے تو تقسیم ہوگئی ،تقسیم کے بعد بھی وہ کچھ سالوں تک ممبئی رہے اور اعلی درجے کی موسیقی ترتیب دی ،اس موسیقی کو آج بھی بھارت میں یاد کیا جاتا ہے ۔اس کے بعد خواجہ صاحب پاکستان آگئے ۔خواجہ صاحب جگمگاتے نام اور شہرت کے ساتھ پاکستان تشریف لائے ۔اونچے زہن اور سوچ رکھنے والے اس شاہکار انسان نے یہاں آکر بھرپور انداز میں کام شروع کردیا ۔کہانیاں لکھیں ،فلمیں ڈائریکٹ کی اور اعلی و ارفع موسیقی سے پاکستان کے عوام کو روشناس کرایا ۔فیض صاحب کہتے ہیں کہ خواجہ صاحب ایک اچھے شاعر بھی تھے جو ان سے بھی پہلے شاعری کرتے تھے ،کیونکہ شعری مزاج اچھا تھے اس لئے موسیقی پر بھی اس کے اچھے اثرات پڑے ۔کیا کمال انسان تھا ،جو سنجیدہ طبعیت سے مالا مال تھا ،ایک خاص انداز میں ایسے سگریٹ کے کش لگاتا تھا کہ دنیا اس کے اس کش لگانے کے انداز پر جان چھڑکتی تھی ۔کم گو ،دھیما مزاج اور کبھی کبھی اشاروں سے باتیں کرنے والا یہ انسان موسیقی کا شہنشاہ بن چکا تھا ۔ایک گانا ہے کہاں ہو تم جواب دو ،کیا کمال اور لاجواب موسیقی ہے ۔خواجہ صاحب کو کرکٹ کھیلنے اور دیکھنے کا بہت شوق تھا انگلینڈ کے ایک بلے باز کالن کونوے ان کے پسندیدہ کھلاڑی تھے ۔ایک انٹرویو کے دوران شاید یہ انیس سو چھتر کی بات ہے وہ کہتے ہیں کہ انہیں پنجابی فلموں اور گیتوں سے گھن آتی ہے کیونکہ پنجابی فلموں میں جو گیت اور کلچر دیکھایا جارہا ہے وہ اس زمین کا کلچر نہیں ہے ۔خواجہ خورشید انور ایک عظیم انسان تھے ،ایسے انسان صدیوں کے بعد پیدا ہوتے ہیں ،موسیقی پر اتنا عبور تھا کہ انہیں ماسٹر آف آل میوزک کہا جانے لگا تھا ۔انہوں نے خیالات کا اظہار سچے اور ایماندارانہ انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا ۔اس دھرتی کے انقلابی شاعر حبیب جالب نے انہیں کچھ اس انداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے ۔۔۔۔۔سچے سروں کی جوت جگاتا تھا وہی تو تھا ،جیون کے گیت ہم کو سناتا تھا وہی تو تھا ،ہم اہل دل کے حال سے کون تھا باخبر ،کوئل کی کوک پپیہے کی ہوک سے ،بیتے دنوں کی یاد دلاتا وہی تو تھا ۔آخر میں خواجہ صاحب کے لئے یہ شعر کہ ،بھولیں اگر تجھے تو کہاں جائیں کیا کریں ،ہر رہگزر پہ تیرے گزرنے کا حسن ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔