گزشتہ روز وطن عزیز کی سب سے بڑی عدالت کے لان میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس قاضی فائز عیسی نے مل کر جو پودا لگایا ہےدعا گو ہیں کہ اس پر پھول جلد آئیں ۔یہ پودا پھلے پھولے اور بہار کی نوید لے کر آئے ۔ لگے ہاتھوں یہ بھی دعا ہے کہ نظام انصاف کا پودا بھی تناور ہو اس کی چھاوں ہر مظلوم کو میسر ہو ۔ دعا ہے کہ وہ ہزاروں مقدمات جو التوا کا شکار ہیں جلد انصاف کے ترازو میں تولے جائیں اور ایسے تولے جائیں کہ انصاف کی دیوی کسی کو دیکھ نا سکے اسکی آنکھوں پر پٹی بندھی رہے ۔اہل علم کہتے ہیں کہ دعا کرتے رہا کریں دعائیں اگر بروقت پوری نا بھی ہوں تو کبھی نا کبھی پوری ہوہی جاتی ہیں دل سے مانگی گئی خیر کے لیے دعائیں رد نہیں ہوتیں ۔
بات اگر دعا کی چل نکلی ہے تو کچھ اور بھی دعائیں جو وقت کی ضرورت ہے کرتے جائیں دعا ہے کہ ملک کو سیاسی استحکام نصیب ہو تاکہ ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہوسکے ملک ڈیفالٹ کے خطرے سے نکل سکے۔اب سیاسی استحکام کے لیئے ضروری ہے سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنی زات سے بالاتر ہوکر ملک وقوم کے مفاد میں سیاسی فیصلے کریں کیا ہی اچھا ہو کہ سیاسی قوتیں بشمول عمران خان ایک میز پر جمع ہوجائیں اور اتفاق رائے سے ملک و قوم کی بہتری کے لیئے لائحہ عمل تیار کریں ۔یاد رہے کہ جس طرح نواز شریف کا ملکی سیاست سے باہر ہونا فائدہ مند نہیں تھا ایسے ہی عمران خان کا سیاسی عمل سے باہر ہونا فائدہ نہیں دے گا
ایسے میں محترم وجاہت مسعود کے خدشات کسی حد تک درست ہیں کہ کیا عوام کے حق حکمرانی کا واقعی ہی فیصلہ ہوگیا ہے ۔کیا عمران پراجیکٹ مکمل طورپر ختم ہوگیا ہے مطلب اب یہ دوبارہ کسی اور شکل میں تو سامنے نہیں آئے گا اگر ایسا ہے تو پھر عمران پراجیکٹ کا خاتمہ نہیں ہوا اور اس کا مطلب یہ کہ عوام کا حق حکمرانی تسلیم نہیں کیا گیا۔محترم وجاہت مسعود کو لگتا ہے کہ 9 مئ کے واقعات سے سیاسی قوتوں کو نقصان پہنچا ہے ۔ان کو لگتا ہے کہ 9 مئی کے بعد کا مرحلہ سیاسی قوتوں کے ہاتھ میں نہیں رہا یہ سیاسی قوتیں بس ہاں میں ہاں ملا رہی ہیں۔جناب وجاہت مسعود کے خدشات بے جا نہیں ہیں واقعی ہی میں ایسا ہی ہو رہا ہے مگر کیا کرسکتے ہیں عمران خان کے جذباتی بیانیہ سے ان کے ورکرز نے کپتان کی گرفتاری پر جو غیرسیاسی ردعمل دیا ہے وہ کسی طورپر قابل قبول نہیں ہے ۔اس واقعہ سے تمام سیاسی جماعتیں کمپرومائز ہوگئی ہیں ۔اب شائد ایک مدت لگے گی دوبارہ وہی سیاسی پوزیشن لیتے ہوئے جو اب تک سیاسی جماعتوں کی تھی بشرطیکہ کہ عمران خان بھی ان کے ہم خیال ہوں جب تک عمران خان کا موجودہ بیانیہ چل رہا ہے سیاسی قوتیں کمپرومائزڈ رہیں گی اور کمزور وکٹ پر کھیلیں گی
وکٹ سے یاد آیا کہ کپتان کی وکٹیں آئے روز گررہی ہیں اگر یہی صورت حال رہی تو لگتا یہی ہے کہ کپتان کو اپنی ٹیم کے گیارہ کھلاڑی پورے کرنے مشکل ہوجائیں گے مگر اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ کپتان ابھی میچ کھیلنے کے موڈ میں نہیں ہے اور ریسٹ کرنے کے موڈ میں ہیں کیونکہ شنید ہے کہ کہیں نا کہیں کپتان کے باہر جانے کی بات چل رہی ہے ۔اس ضمن میں ایک اہم دورہ بھی یہاں پر ہوا ہے بات یوکے اور امریکہ کی ہے مگر بھیجنے والے شائد قطر یا عمان بھیجنا چاہتے ہیں دیکھیں کس کو شرف میزبانی ملتا ہے
موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں کچھ باتیں طے ہوگئی ہیں ایک تو تحریک انصاف فی الوقت اقتدار میں نہیں آتی دوسری بات کہ کپتان یا تو جیل میں رہے گا یا کسی دوسرے ملک کے پرسکون محل میں خاموش وقت گذارے گا۔ایسے میں فی الحال تحریک انصاف کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور مزید بکھرے گا ۔قابل توجہ پنجاب اور کے پی کے کی تنظیم ہے اور اس وقت جہانگیر ترین ،چوہدری شجاعت اور آصف علی زرداری اس بکھری ہوئی ٹیم کو سمیٹ رہے ہیں ۔جہانگیر ترین شائد کنگز پارٹی بنا جائیں جبکہ جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی اپنے پاوں جما رہی ہے ایسے میں ن لیگ کا فوکس شائد نوازشریف کی واپسی ہے جس کی وجہ سے وہ حلقہ جاتی سیاست پر زیادہ توجہ نہیں دے رہے ۔شائد ان کو لگتا ہے کہ نوازشریف کی واپسی سے سیاسی حالات یکسر ان کی حمایت میں چلے جائیں گے اس کے لیئے ن لیگ مختلف اشیا کی قیمتوں میں کمی کرکے عوامی پذیرائی حاصل کرنا چاہتی ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ مستقبل کا سیاسی منظر نامہ کیا ہوگا ۔کیا پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی مل کر الیکشن لڑیں گی تو اس کا جواب یہ ہے کہ تحریک انصاف کے زوال کے بعد اب ہرجماعت الگ الیکشن لڑےگی اور زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی کوشش کرئے گی۔دوسرا سوال کہ نئی بننے والی حکومت کیسی ہوگی تو سادہ سا جواب ہے کہ مخلوط حکومت ہوگی اور کسی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوگی لہذا ایکدوسرے کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا مطلب نا چاہتے ہوے بھی اس اتحاد کو قائم رکھنا پڑے گا
آخری بات کہ نئی حکومت کا ایجنڈا کیا ہوگا تو صاحبو معاشی زبوں حالی کے بعد نئی حکومت شدید مالی مشکلات کا شکار ہوگی عوام کو ریلیف دینے کے لیئے اس کے پاس زیادہ مارجن نہیں ہوگا بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو جو ادائیگیاں کرنی ہیں ان کے لیئے مشکل معاشی فیصلے کرنے ہوں گے مطلب یہ کہ اس بار سارے برہمن مل کرکہیں گے یہ سال اچھا نہیں ہے ۔گوکہ وقتی فائدہ نا ہو مگر یہ اطمینان ضرور رہے گا کہ معیشت ٹھیک سمت میں چل پڑی ہے اور شائد کسی دن عوام کے معاشی حالات بہتر ہوہی جائیں ۔لہذا کسی شک وشبہ کے بغیر نئی حکومت کا ایجنڈا نمبرون معیشت ہوگی اور دوسرا پوائنٹ عوام ان معاشی حالات میں عوام کو ریلیف دینا ہے ۔دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے بہرحال دعا ہے کہ جو بھی ہو اچھا ہو۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...