مشتری کا دمدار ستارے شومیکر لیوی 9 سے 1994 میں تصادم ہوا۔ یہ ہمارا نظامِ شمسی میں فلکیاتی اجسام کے تصادم کا پہلا مشاہدہ تھا۔ اس آوارہ کامٹ کو اس سے بیس سے تیس سال پہلے مشتری کی کشش نے گرفتار کیا تھا اور یہ چکر لگاتے ہوئے مشتری کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس کی 1993 میں دریافت کے بعد اس تصادم کی پیشگوئی کی گئی۔ 16 جولائی 1994 کو یہ مشتری سے ٹکرا گیا۔ پہلے اس کے اکیس ٹکڑے ہوئے، پھر دو ہزار میل اونچے شعلے، اس کے بعد مشتری کی سطح پر لگے زخم جو مشتری کی بڑی سرخ آنکھ سے زیادہ نمایاں تھے، چودہ ماہ تک نظر آتے رہے۔ یہ اپنے وقت کی بڑی خبر تھی اور تمام دنیا کی توجہ اس وقت اس طرف رہی۔ اس سے مشتری کے تجزئے اور اس کی کیمسٹری جاننے میں مدد ملی۔ مشتری کو فلکیاتی ویکیوم کلینر ملا جس کے بڑی حجم کی وجہ سے ایسے آوارہ اجسام اندورنی پتھریلے سیاروں کا رخ کم ہی کرتے ہیں۔
پھر اس کے تین سال بعد مشتری نے ایک اور دمدار ستارے کو زمین کی طرف موڑ دیا۔ یہ زمین پر انتالیس لوگوں کے لئے موت کا پیغام تھا۔ کیوں؟ لیکن پہلے مشتری سے ایک تعارف۔
مشتری نظامِ شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے۔ اگر یہ دس گنا بڑا ہوتا تو بھورا بونا ستارہ بن جاتا یعنی اس کے اندر ایٹم ایک دوسرے سے مل کر نیوکلئیر ری ایکشن کرتے اور اس بھٹی کی وجہ سے یہ کم مقدار میں بھوری روشنی خارج کرتا۔ ایک وقت میں خیال تھا کہ دوسرے ستاروں کی طرح یہ ہائیڈروجن اور ہیلئم سے بنا ہو گا لیکن ایسا نہیں۔ اس کے اندرونی حصے میں انتہائی زیادہ پریشر ہے۔ یہاں پر ہائیڈروجن کے ایٹم اس قدر زور سے جکڑے ہوئے ہیں کہ وہ تیل کی طرح مائع شک اختیار کر لیتے ہیں۔ (اس ہائیڈروجن کو زمین پر چند نینوسیکنڈ کیلئے بنایا جا سکتا ہے)۔ مریخ پر اس سیاہ دھاتی ہائیڈروجن کا ستائیس ہزار میل کی موٹائی کی تہہ ہے۔ اس کے موسم کی ماڈلنگ کی جاتی ہے۔ اس کا موسم نیون اور ہیلئم کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جاتا ہے۔ ستارے میں نیوکلئیائی ری ایکشن کے وجہ سے ایسے عناصر سطح پر رہتے ہیں لیکن یہاں پر یہ اندر کی طرف چکر لگاتے رہتے ہیں۔ ہیلئم اور نیون کی روشنیاں ہم اشتہاری بورڈز میں دیکھتے ہیں۔ اگر ہم مشتری کو اندر سے دیکھ سکتے اور اس کے آسمان کو دیکھ پاتے تو یہ روشنیوں کا انتہائی شاندار شو ہوتا۔ اس کے آسمان پر نارنجی روشنی کی کھربوں لڑیاں گر رہی ہوتیں۔ اس کو سائنسدان نیون کی بارش کہتے ہیں۔
آسمان ہمیشہ سے انسان کو مسحور کرتا رہا ہے۔ ہم اس پر کہانیاں اور فلمیں بناتے رہے ہیں۔ دنیا میں ان لوگوں کی تعداد کم نہیں جن کا خیال ہے کہ ہم اڑن کھٹولوں پر بیٹھ کر زمین پر اترے ہیں۔ خلائی مخلوق زمین پر آتی رہی ہے۔ اہرامِ مصر کسی خلائی مخلوق کی کارستانی ہے، اڑن طشتریاں آتی رہی ہیں لیکن ان کو چھپایا جاتا ہے، چاند اصل میں کسی خلائی مخلوق کی بیس ہے وغیرہ۔ یہ UFO Cults تاریخ میں درجنوں رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ (ممکن ہے کسی نے ایک UFOlogist کے قلمی نام ڈاکٹر ایلس سلور کی اسی ٹاپک پر لکھی کتاب کی مشہور ہونے والی جھلکیاں پڑھی ہوں)۔ مشتری نے 1997 میں جس کامٹ کو زمین کی طرف موڑا، وہ ہیلے بوپ تھا۔ زمین تو اس سے بچ گئی۔ لیکن ایک کلٹ کا خیال تھا کہ یہ بے سبب نہیں۔ یہ مشتری نے کسی وجہ سے کیا ہے۔ اس دمدار ستارے کی دم میں اڑن طشتری ہے جو ہمیں آسمان پر لے جانے کے لئے لینے آئی ہے۔ جب یہ زمین کے قریب پہنچے گا، اس وقت مرنے والے اس پر بیٹھ کر انسانیت کا اعلیٰ ترین مقام حاصل کر لیں گے اور اس زمینی جسم سے نجات پا لیں گے۔ نائیکے کے جوتے پہن کر اور پونے چھ ڈالر جیب میں رکھ کر (جو ان کے خیال میں اس پر بیٹھنے کا کرایہ تھا)، ان انتالیس لوگوں نے کیلی فورنیا کے شہر سان ڈیاگو میں اجتماعی خود کشی کی)۔ “جنت کا دروازہ” نامی اس گروپ کی یہ افسوسناک حرکت ہمارے لئے ایک یاددہانی تھی کہ ہم لوگ کسی بھی عجیب چیز پر کسی بھی حد تک یقین کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور اس کیلئے کوئی بھی قیمت ادا کر سکتے ہیں۔ (نہ اس کامٹ میں اڑن طشتری تھی، نہ ہی سواری کیلئے پونے چھ ڈالر کا ٹکٹ)
ہیلے بوپ زمین کے اس قدر قریب سے گزرا کہ اٹھارہ ماہ تک ننگی آنکھ سے دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ اب اڑھائی ہزار سال بعد واپس آئے گا۔
فلکیاتی تصادم کے بارے میں
خودکشی کی کہانی
اڑن طشتری والے گروہوں پر
دھاتی ہائیڈروجن پر