اُردوادب میں مزاح نگاری کی روایت کا باقاعدہ آغاز داستانوں سے ہوتاہے۔ اس ضمن میں داستانِ امیر حمزہ سے فسانہ عجائب تک مزاح کے گہرے نقوش دیکھے جاسکتے ہیں ۔البتہ یہ بات بھی بڑی حد تک درست ہے کہ ان داستانوں کے مزاح میں سوقیانہ پن،تمسخر،ابتذال اور پھکڑ پن کی آمیزش بہت زیادہ تھی۔اس کے بعد غالب اوراودھ پنچ کادور آتا ہے جس میں مزاح نگاری کا انداز قدرِبہتر ہو جاتا ہے، خاص پر طورغالب کے ہا ںتو واقعی معیاری مزاح ملتا ہے۔جدیددور میں مزاح نگاروں کی خاصی طویل فہرست نظر آتی ہے جس میں شوکت تھانوی، امتیاز علی تاج،فرحت اللہ بیگ،پطرس بخاری ،رشید صدیقی، ابنِ انشاءاور کرنل محمد خان کے نام قابلِ ذکر ہیں۔جدید دور کے مزاح نگاروں کی اسی فہرست میں اگر مشتاق یوسفی کا نام شامل نہ کیا جائے تو یہ فہرست نامکمل رہے گی۔یوسفی کے ہاں مزاح کے تمام اسالیب مع جملہ محاسن اُن کی تصانیف میں مشاہدہ کیے جاسکتے ہیں۔ ان میںبذلہ سنجی، ذکاوت،ندرتِ خیال،شگفتگی، برجستگی،شیفتگی،بات سے بات نکالنا، قولِ محال، صنعتوں کا استعمال،صورتِ واقعہ، مزاحیہ کردار،لفظی بازی گری غرض یوسفی کی جس سمت کو بھی ٹٹولا جائے بہترین مزاحیہ اسالیب سامنے آ جاتے ہیں۔
اچھے اور تعمیری مزاح کے درجہ بالا محاسن کے ساتھ ساتھ یوسفی کی تحریروں میں ایک اضافی حسن قصہ گوئی کا بھی ہے۔ وہ اپنی تحریر کو ایک مشاق قصہ گو کے انداز میں آگے بڑھاتے ہیں،” چراغ تلے“ اور” خاکم بدہن “جو کہ خالص مزاحیہ مضامین پر مشتمل کتابیں ہیں ان میں بھی جابجا کہانی پن کا سا انداز ابھرکر سامنے آتا ہے۔ چراغ تلے کے ابتدا ئیے ”پہلا پتھر“ میں اپنی پسندیدہ ا ورناپسندیدہ اشیا کا ذکر ہویا ”پڑئے گر بیمار“ میں ایک علیل آدمی کے بیمار پرسی کرنے والوں کا احوال، ”یادش بخیر یا“ میں یاد ماضی اور یاد تمنائی کے واقعات ہوں یا ”چارپائی اور کلچر “ اور” اور آنا گھر میں مرغیوں کا“ میں چارپائی کی خصوصیات اور تہذیب ومعاشرے میں اس کی اہمیت، یا پھر مرغیاں پالنے کے طرےقوں کا ذکر وغیرہ،ان تمام واقعات کو بیان کرنے کا انداز خالصتاً داستان گوئی والا ہے۔ اسی طرح ”خاکم بدہن “میں ”صبغے اینڈ سنز“ کی کتابوں کا حشر ہو یا ”سیزر ماتا ہر ی اور مرزا“ ان تینوں کے دلچسپ واقعات کا ایک دلکش انداز میں ذکر ”بارے آلو کا کچھ بیاں ہوجائے“ میں تو یوسفی نے آلو کو بالکل ایک نئے انداز میں پیش کرکے اس کی پیدائش سے لے کر اس سے بننے والے کھانوں کی ترکیب تک کو ایک خوبصورت کہانی کے رنگ میں پیش کیا ہے۔ اس طرح ”پروفیسر“ کے مضمون میں ان کے کرتوت، خیالات اور ”ہل سٹیشن“ پر پہاڑ میں گزرے لمحات اور پکنک کے واقعات کو یوسفی چسکیاں لے لے کر بیان کرتے ہیں اور ایک پختہ کار داستان گو کے طور پر سامنے آتے ہیں۔
اس کے علاوہ اگر ان کی باقی دو کتابوں ”زرگشت“ اور ”آب گم“ پر نظر دوڑائی جائے تو وہاں پر کہانی پن کے عناصر پہلی دونوں کتابوں ”چراغ تلے“ اور ”خاکم بدہن“ سے زیادہ پراثر اور سحر انگیز ہیں۔ ”زرگزشت“ تو نام ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسی زندگی کی کہانی ہے جس میں ہندوستان سے ہجرت کرکے کراچی میں قیام کے واقعات، بنک میں تقرر، مسٹراینڈ رسن کے ساتھ گزرے ہوئے اوقات، خان سیف الملوک خان سے دوستی، ان سے تمباکو کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے طریقے اور خان صاحب کی طبیعت کا احوال اور ان کے زندگی کے نمائندہ واقعات پر مشتمل ہے۔ اس طرح کاک ٹیل پارٹیوں کا ذکر غرض ”زرگزشت“ بے شک ایک مزاح پر مشتمل کتاب ہے مگراس میں یوسفی کا انداز تحریر بالکل ایک کہانی کار اور ایک داستان گوجیسا ہے۔
یوسفی کی ایک اور کتاب ”آب گم“ کو تو باقاعدہ طور پر ناقدین ناول کے ذیل میں رکھتے ہیں۔ امجد طفیل اپنے مضمون ”یوسفی: مزاح سے فکشن نگاری تک“ میں لکھتے ہیں :
”آب گم ایک مجموعہ مضامین سے زیادہ فکشن کی کتاب ہے یا آپ مجھے اجازت دیں تو عرض کروں کہ یہ ایک ناول ہے جس کا موضوع کہولت، زوال، شکستگی اور ماضی کی یادوں سے شدید وابستگی ہے۔ یوسفی نے اپنے کرداروں کو ماضی پرست ماضی زدہ اور مردم گزیدہ قرار دیا ہے۔ میرے خیال میں تو اس ناول کا مرکزی کردار ”ماضی“ ہے جس سے بہت سی پرچھائیاں دست وگریباں ہیں۔ انہوں نے ماضی کو ایشائی ڈرامے کا اصل ولن قراردیا ہے۔ ”آب گم“ میں انہوں نے اس ولن سے ڈیول لڑنے کی کوشش کی ہے“۔(۱)
ڈاکٹر محمد طاہر، امجد طفیل سے متفق نہیں وہ لکھتے ہیں :
ہم اسے ناول نہیں کہہ سکتے، کیونکہ اس میں بیان ہونے والی کہانی اور واقعات میں باطنی ربط اور منطقی تربیت نہیں ہے جس کی وجہ سے پلاٹ کافقدان نظر آتا ہے۔ مثلاً بشارت فاروقی کی شخصیت جو” آب گم“ کا مرکزی کردار ہے ہر باب میں موجود ہے لیکن کسی باب میں ادھیڑ عمر کے کاروباری شخص کے روپ میں کہیں بوڑھے کی شکل میں تو کہیں نوجوان کی صورت میں۔ اسی ترتیب سے اس کے حالات واقعات اور نفسیات کا بھی بیان ہوا ہے واقعات کے انتشار پلاٹ کے فقدان اور ایسی ہی دوسری وجوہات ”آب گم“ کو قطعیت کے ساتھ ناول تسلیم کرنے میں حارج ہوتی ہیں“۔(۲)
خود مشتاق احمد یوسفی کا خیال یہ ہے کہ ممکن ہے بعض طبائع پر جزئیات کی کثرت اور ”پلاٹ“ کافقدان گراں گزرے۔ میں نے پہلے کسی اور ضمن میں عرض کیا ہے کہ پلاٹ تو فلموں، ڈراموں، ناولوں اور سازشوں میں ہوتا ہے۔ ہمیں تو زندگی میں دور دور تک اس کا نشان نہیں ملا۔ رہی جزئیات نگاری اور باریک بینی تو اس میں فی نفسہ کوئی عیب نہیں اور نہ خوبی۔ جزئیات اگر محض خوردہ گیری پر مبنی نہیں اور سچی اور جاندار ہیں تو اپنی کہانی اپنی زبانی کہتی چلی جاتی ہیں۔ انہیں توڑ مروڑ کر افسانوی سانچے میں ڈھالنے یا کسی آدرشی شکنجے میں کسنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد مشتاق احمد یوسفی آگے کچھ مغربی ادیبوں کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں:
”چیخوف اور کلاڈسیمون زندگی کی چھوٹی چھوٹی جزئیات اپنے کینوس پر بظاہر بڑی لاپروائی سے بکھیرتے چلے جاتے ہیں۔ پروست نے ایک پورا ناول ایک ڈنرپارٹی کی تفصیل بیان کرنے میں لکھ دیا جو یادوں کے Total recall(مکمل باز آفرینی) کی بہترین مثال ہے۔ انگریزی کے عظیم ترین (بغیر پلاٹ کے ناول Ulyssesکی کہانی ۱۶جون ۱۹۱۶ءکو صبح آٹھ بجے شروع ہوکر اسی دن ختم ہوجاتی ہے۔ یوجین اونیل کے ڈرامے (Long Day's Journey into Night) کی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے۔ ان شاہکاروں کا حوالہ دینے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اگر میری کچھ بات نہیں بنی تو یہ تکنیک کا قصور نہیں، سراسر میری کم سوادی اور بے ہنری ہے کہ پیڑ گنتا رہ گیا، جنگل کا سماں نہ دکھلاسکا۔ آبشار نیا گرا کی ہیبت اور بلندی کا اندازہ لگانے کے لیے اس کے نیچے کھڑے ہوکر اورپر دیکھنا ضروری ہے۔ میں جتنی بار اورپر د یکھتاہوں، کُلاہِ پندار قدموں پر آن پڑتی ہے“۔(۳)
محمد خالداختر لکھتے ہیں :
”آب گم، کو صرف مزاح کی کتاب نہیں کہہ سکتے۔ مزاح کی کتاب تو یہ ہے ہی مگر یہ فکشن اور سچی واردات کا دلآویز مرقع ہے۔ میرے خیال میں آپ اسے ایک بے حد اوریجنل طرز کا ناول کہہ سکتے ہیں۔ اس قسم کا ناول جیسا مغربی ادیبوں میں جولین بار نثر لکھتا ہے۔ بہت کچھ اور کئی اصناف اپنے اندر سموئے ہوئے“۔(۴)
جبکہ یہی خیال ڈاکٹر اشفاق احمد ورک یوں بیان کرتے ہیں:
”آب گم“ کی ایک بڑی انفرادیت یہ بھی ہے کہ اردو ادب کی بندھی ٹکی اصناف میں سے کوئی بھی صنف اس کا مکمل طور پر اخاطہ کرنے پر قادر نہیں ہے۔ ویسے تو ہم اس پربڑی آسانی کے ساتھ مضمون، داستان، افسانہ، ناول، خاکہ، آپ بیتی، جگ بیتی یا یاداشت کا لبیل چسپاں کرسکتے ہیں، لیکن ان تمام اصناف کی تعریف اور مزاج پہ فرداً فرداً کماحقہ ، پورا اترنے کے باوجود ہم کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ ان سب سے کچھ آگے کی چیز ہے“۔ (۵)
مشتاق احمد یوسفی ”آب گم“ کے دیباچے” غنودیم غنودیم “میں اس کتاب میں موجودکرداروں کے مابین کہانی کا یوں اجمالی جائزہ پیش کرتے ہیں۔
”حویلی“ کی کہانی ایک متروکہ ڈھنڈار حویلی اور اس کے مغلوب الغضب مالک کے گرد گھومتی ہے۔ ”اسکول ماسٹر کا خواب“ ایک دُکھی گھوڑے، حجام اور منشی سے متعلق ہے۔ ”شہر دو قصہ“ ایک چھوٹے سے کمرے اور اس میں پچھتر سال گزاردینے والے سنکی آدمی کی کہانی ہے ”دھیرج گنج کا پہلا یاد گارمشاعرہ“ میں ایک قدیم قصباتی اسکول اور اس کے ایک ٹیچر اور بانی کے کیری کیچر پیش کیے گئے ہیں۔ اور ”کار کابلی والا اور الہ دین بے چراغ“ ایک کھٹارا کار، ناخواندہ پٹھان آڑھتی او شیخی خورے اور لپاڑی ڈرائیور کا حکایتی طرز میں ایک طویل خاکہ ہے“۔(۶)
”آب گم“ کے بارے میں جتنی بھی آراءسامنے آئیں اور وقت کا ناقد اس کو اردو اصناف کے جس بھی خانے میں رکھے اس کے اندر موجود کہانی پن اور یوسفی کی قصہ گوئی سے انکار ممکن نہ ہوسکے گا۔
یوسفی کے ہاں قصہ گوئی کے انداز کے چند نمونے ملاحظہ ہوں۔
چراغ تلے:
٭ ایک بزرگوار ہیں جن سے صرف دوران علالت ملاقات ہوتی ہے۔
٭ آئے ایک اور مہربان سے آپ کو ملاﺅں۔
٭ پچھلے جاڑوں کا ذکر ہے۔
٭ پچھلے سنیچر کی بات ہے۔
٭ اب کچھ جگ بیتی بھی سن لیجئے۔
٭ آپ کو یقین آئے یا نہ آئے مگر واقعہ یہ ہے
٭ اتنا کہہ کر انہوں نے چٹکی بجاکر اپنے نجات دہندہ کی راکھ جھاڑی اور قدر تفصیل سے بتانے لگے۔
٭ بات سے بات نکل آئی ورنہ کہنا یہ چاہتا تھا کہ
٭ مارچ ۱۹۴۲ء کا ذکرہے
٭ لہٰذا ہم تفصیلات سے احتراز کریں گے (مراد تفصیل بیان ہے)
٭ اب سنئے مجھ پر کیا گزری
٭ تمہید قدرے طویل اور سخن گسترانہ سہی
٭ اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں اور آنکھوںدیکھا حال سناتے ہیں۔
٭ اسی بھیگی بھیگی شام کا ذکر ہے۔
”خاکم بدہن“
٭ پروفیسر نے ہمارا تعارف کرایا کہ آپ سے ملئے۔
٭ ہاں! تو یہ مقام تھا اور شروع برسات کی رات۔
٭ بات ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ پر جاپہونچی۔
٭ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ۔
٭ ہم تو اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ۔۔۔۔
٭ ایک دن ہم سے پوچھا۔۔۔۔
٭ پچھلے سال اُترتی برسات کی بات ہے۔
٭ داستان کا آغازیوں ہوتا ہے۔
٭ تو یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب۔
٭ ان تکلفات کے بعد جلسے کی کاروائی شروع ہوئی۔
٭ اس کا مفصل حال ہم آپ کو سناچکے ہیں۔
٭ پروفیسر کا اپنا بیان تھا کہ
٭ قصہ حاتم طائی میں ایک طلمساتی پہاڑ کا ذکر آتا ہے۔
٭ ہم نے مرزا کو یاد دلایا کہ لڑکپن ہی سے
٭ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ۔
٭ ۴اگست ۶۶- دوپہر کا وقت۔ دن پہلے پیار کی مانند گرم۔
٭ اُنہی کے ایک برادر نسبتی سے روایت ہے کہ
٭ مہینہ یاد نہیں رہا۔ غالباً دسمبر تھا۔ دن البتہ یاد ہے، اس لیے کہ اتوار تھا۔
٭ یہ اس پُرامید زمانے کا ذکر ہے، جب
٭ یاد ش بخیر! اس ڈراپ سین سے کوئی بیس سال اُدھر جب آتش جواں تھا۔
٭ تمہیں تو کیا یاد ہوگا۔ میں دسمبر ۱۹۵۱ء میں منٹگمری گیا تھا۔ پہلی دفعہ۔
زرگشت :
٭ ایک دن بکراہت استفسار فرمایا۔
٭ اتنا طویل تعارف اس لئے اور ناگزیر ہوگیا کہ۔
٭ ۳یا ۴جنوری ۰۵۹۱ءکا ذکر ہے۔
٭ ایک سہانی سلونی صبح کا ذکر ہے۔
٭ پھر ایک زمانہ ایسا آیا کہ۔
٭ عشق جب آداب خود آگاہی سکھاتا ہے تو۔
٭ ایک چشم دیدواقعہ آپ کو سناتا ہوں۔
٭ یہ جنوری ۱۹۵۰ء کی ایک ایسی ہی صبح کا ذکر ہے۔
٭ کسی نے ایک دن فرانس کے شہرۂ آفاق ادیب پروست سے پوچھا۔
٭ کمرشل بینکوں کا کیا ذکر، خود۔
٭ اس زمانے میں خراب مال پہنچنے
٭ ہم نے ایک دن شکایت کی کہ
٭ ایک دفعہ جمعہ کی اذان کے وقت
٭ رات کے دس بجا چاہتے تھے
٭ پاکستان تازہ تازہ نقشہ پر اُبھراتھا اور خط تقسیم کی روشنائی ابھی اچھی طرح خشک نہیں ہوئی تھی۔
٭ آج سے تقریباً بیس برس اُدھر کی بات ہے لیکن ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ
٭ دن مہینہ اور سنہ یاد نہیں رہے۔ صرف اتنا یاد ہے کہ ۶۲تاریخ تھی۔
٭ وہ قصہ نہیں سنا دھوبی والا
٭ آپ کو یہ یاد نہیں رہا کہ
٭ ذکر نوشہرہ کے ٹھیکدار اور چاہ شیریں کا ہورہا تھا، بات کسی اور میٹھے دھارے میںبہہ نکلی۔
آب گم :
٭ بالآخر ایک سہانی صبح بشارت انٹرویو کے لیے اندر داخل ہوئے تو
٭ ہم واقعہ بیان کرچکے تھے کہ
٭ معاف کیجئے بیچ میں یہ صفحہ ہائے معترضہ آن پڑے
٭ اسی طرح کے ایک خواہ نے۔
٭ یہ جنوری ۷۸۹۱ءکا ذکر ہے۔
٭ وہ زمانے اور تھے۔
٭ وہ اس زمانے میں نئے نئے
٭ اسی زمانے میں ایک سائیس خبر لایا کہ۔
٭ اس قصے سے ہم نے انہیں عبرت دلائی۔
٭ وہ بھی کیسے ارمان بھرے دن تھے، جب۔
٭ معاف کیجئے بیچ میں یہ صفحہ ہائے معترضہ آن پڑے۔
٭ اب اس کہانی کو خود اس کے ہیروبشارت کی زبانی سنے۔
٭ تمہیں یاد ہو ۳اگست ۱۹۴۷ء کو جب
٭ معاف کیجئے، یہ قصہ شاید میں پہلے بھی سنا چکا ہوں۔
٭ خوب یاد آیا۔ ہمارے ایک جاننے والے تھے۔
٭ خواب نیم روز ختم ہوا۔ اب بقیہ کہانی بشارت کی زبانی انہی کے داستان درداستان انداز میں سینے۔ طول دینا ہی مزہ ہے قصہ کوتاہ کا۔
٭ دیکھے، کہاں آنکلا۔ بات بلوں سے شروع ہوئی تھی۔
٭ ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا۔
مشتاق یوسفی کے یہاں اس طرح کی بے شما ر مثالیں اور بھی ڈھونڈی جاسکتی ہیں۔ ان کی تحریر کا خمیر قصہ گوئی سے پُر ہے۔ وہ قاری کی اس عادت اور جبلت سے اچھی طرح باخبر ہیں کہ انسان جتنی بھی ترقی کے منازل طے کرے کہانی سے محبت اور قصہ گوئی کی لطف اندوزی سے وہ خود کو الگ نہیںرکھ سکتا۔ یوسفی کی تحریروں میںداستان سرائی کی اس بحث کو طارق سعید کے اس اقتباس پر ختم کرتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:
”یہ فن ٹاسی صرف صورتحال کے بطن سے پیدا ہونے والی واقعہ نگاری نہیں ہے بلکہ باقاعدہ قصہ گوئی ہے۔ یہاں ریب وتذبذب اور کشمکش ہے، تناﺅ اور نقطہ عروج ہے، منظر، پس منظر اور پیش منظر ہے۔ مکالمے، کردار اور تحریر آفرین فضا ہے۔ ڈرامائیت روداد اور انسانی معاشرے کی تصویریں ہیں اور سب سے بڑھ کر قصہ ہے۔ ایک نہ سہی، زمان، مکان، عمل کی وحدتیں نہ سہی، موسیقی نہ سہی، اسٹیج نہ سہی، ارسطو کی شرطین، وقار عظیم کی شرطیں نہ سہی لیکن یہاں قصہ ہے۔ زبردست قصہ۔ تجسس اور ہر آن کچھ نیا دریافت ہونے کی جستجو۔ بالکل ایک جناتی دنیا۔ سب الٹا پلٹا مگر کی مجال کہ داستان بن جائے۔ وہ قصہ ایسی دنیا کا ہے جس کو بیان کرنے اور جس کو آگے بڑھانے کا جو طریقہ یوسفی نے استعمال کیا، ان کی اسلوبیات کا صرف ایک جزو ہے“۔(۷)
حوالہ جات
۱۔ سہ ماہی شبیہ، یوسفی۔ ص ۲۵۸
۲۔ مشتاق احمد یوسفی کے ادبی خدمات،تحقیقی مقالہ ،شعبۂ اردو،علی گڑھ یونی ورسٹی ،ص ۱۵۳-۱۵۴
۳۔ آب گم،مکتبہ دانیال،کراچی،۲۰۰۴ءص ۲۳-۲۴
۴۔ سہ ماہی شبیہ ، مشتاق احمد یوسفی نمبر۔ ص ۱۹۵
۵۔ اردو نثر میں طنزومزاح ،کتاب سرائے،لاہور،۲۰۰۴ءص ۱۸۶
۶۔ آب گم،مکتبہ دانیال،کراچی،۲۰۰۴ءص۲۳
۷۔ اردو طنزیات ومضحکات کے نمائندہ اسالیب۔ ص ۳۱۶
“