مشرف ماڈل اور مارکیز
جب سے مشرف صدر کی کرسی سے اترا ہے، "مشرف ماڈل" کا منتر ہماری سماعتوں میں منمنا رہا ہے۔
"وہ آرہا ہے ۔ ۔ ۔ آنے والا ہے ۔ ۔ ۔ اسے لایا جارہا ہے ۔ ۔ ۔ وہ آگیا" یہ چٹکلے ہم تب سے سن رہے ہیں، جب اسمارٹ فونز نہیں آئے تھے، اور سب 3310 کے ساتھ خوش تھے۔
کراچی والے، شاید اردووی ہونے کے باعث، اس سے ایک ہیجان انگیز قسم کی قربت محسوس کیا کرتے تھے، اور اس کا ذکر کرتے ہوئے عقیدت سے لرز اٹھتے، اور جھک جاتے۔
دھیرے دھیرے اس کا سحر ٹوٹا، اسے اپنا محسن گردانتے والی ق لیگ اور ایم کیو ایم اس کے ذکر سے کترانے لگے۔ پھر اس کی پارٹی بنی، اور جلد ہی پھس ہوئی۔
خیرخواہوں کے سمجھانے کے باوجود 2013 کے انتخابات سے قبل وہ لوٹا، اسی شہر میں، جسے اس نے بارہ مئی کا تحفہ دیا تھا، جسے کبھی وہ اپنے مکے سے انگیخت کر دیا کرتا تھا، مگر اس کے ساتھ ہاتھ ہوگیا۔
کچھ عرصے پیشیاں بھگتنے، نظر بند رہنے، مایوس شب و روز گزارنے اور بار بار بیمار پڑنے کے بعد عزت مآب راحیل شریف کے وسیلے وہ ملک سے چلتا بنا۔
جلد وہ بیمار شخص ہمیں دبئی میں ٹھمکتے لگاتا نظر آیا، اور پھر چند انٹرویوز دیتے دکھائی دیا، جن میں نہ تو ترنگ تھی، نہ ہی تنائو۔
22 اگست کے بعد جب ایم کیو ایم سے الطاف حسین مائنس ہوئے، تو اس نے انگڑائی لی، اور اپنی بے بدل خدمات اردووی طبقے کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کرنے کا جذباتی، انقلابی اعلان کیا۔
اس اعلان کا ایم کیو ایم کے "پاکستانی ویژن" نے "کدو" خیرمقدم کی۔ عظیم جرنیل کو مایوسی ہوئی، مگر وہ چھوٹے موٹے ناکام جلسے، ہلکی پھلکی جماعتوں سے اتحاد، بغیر ریٹنگ والے انٹرویوز سے کام چلاتا رہا۔
وقفے وقفے سے خبر اڑتی کہ "وہ آرہا ہے ۔ ۔ ۔ آنے والا ہے ۔ ۔ ۔ اسے لایا جارہا ہے ۔ ۔ ۔ وہ آگیا" مگر جلد غبارے میں سے ہوا نکل جاتی۔
آج پھر ایسی ہی بازگشت ہے، ایسے ہی خیالات، خدشات، خبریں ہیں، مگر فقیر آپ کو یقین دلاتا ہے کہ ان خدشات، خیالات اور خبروں کی پروا نہ کیجیے۔
جس شخص کو اس کی نام نہاد پارٹی کے نام نہاد کارکن سہولت سے ٹھگ رہے ہوں، جو ملکی حالات سے بھی یک سر بے خبر ہو، اور جس کا نام اب کراچی کو بھی انگیخت کرنے سے قاصر ہو، اس پر اسٹیبلشمنٹ کسی قسم کی ذمے داری ڈالنے کا رسک نہیں لے گی۔
یہ وہ جنرل ہے، جو ایک خط کا منتظر ہے، مگر اُسے مارکیز کے کرنل کے مانند، کوئی خط نہیں لکھے گا۔ بے فکر رہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔