سیاست گندے ریش کا میدان بن چکی ہے اور اس میدان میں دوڑنے والے اشخاص گٹر سے نکل کر آ کھڑے ہوئے ہیں۔۔وہ دوڑ رہے ہیں۔۔ملک بھر میں جہاں جاکر کھڑے ہوتے ہیں ان کے جسم سے اٹھنے والی بدبو اور سڑاندھ گاؤں شہر صوبے اور ملک کو تعفن سے بھر رہا ہے اب۔۔۔
کون کہتا ہے کہ سیاست سمجھی اور سمجھائی نہیں جا سکتی ۔۔۔جبکہ مردہ ذہنوں سے۔۔بھرے قبرستان قدرت کا بہترین نمونہ ہے اور میرے مرشد جناب مشرف عالم ذوقی کی کتاب "مرگ انبوہ"اور" مردہ خانہ میں عورت" لفظوں میں پوشیدہ ایک دابستان۔۔۔۔۔
تو پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم جہاں پیدا ہوتے ہیں وہی پر مر جاتے ہیں۔۔۔پر جی نہیں پاتے ہیں۔۔۔ہم جو پڑھتے ہیں جع مطالعہ کرتے ہیں اسے ہضم نہیں کر پاتے ہیں قے کر دیتے ہیں ۔۔۔قاری نے تو بس پڑھنا سیکھا ہے جسکو ہم جیسے لوگ نے ان لفظوں میں جینا بھی سیکھا ہے۔۔۔لفظوں کو تو ہم نے کبھی پڑھا ہی نہیں ۔۔۔اور زندگی کو کبھی ہم نے جیا بھی نہیں۔۔۔اور جب سمے ہمارےپاس ختم ہو جاتا ہے تو پھر ماضی کے دریچے میں جھانکتے ہوئے سوچتے ہیں کہ ہم نے جو عمر اور وقت کے کتابچے میں جو لکھا ہے وہ اب کون سے پیمانے سے ناپا جا سکتا ہے۔۔۔؟؟
کیا زندگی کا کوئی ایسا فارمولا بھی ہے جو بتا سکے ۔۔زندگی فقط نفع ہی دیتی ہے۔۔۔ہم سب جب بے لفظ تھے تو بہت آرام میں تھے ۔۔۔پھر ان لفظوں کے ہاتھوں اپنے وجود کو تبدیل کر کے اس متضاد دنیا میں اتر آئے۔۔۔یعنی آزمائش میں خود کو ڈال آئے۔۔اور تب آزمائش میں نہ تو فائدے کی امید ہوتی ہے اور نا ہی نقصان پر حیرت۔۔؟ تب بھی ہم سب اپنے اپنے خسارے کی فہرست مرتب کرتے رہتے ہیں۔۔/
زندگی کو تو جیسے گزرنا ہے ویسے گزر ہی جائے گی۔۔پر مشرف عالم ذوقی۔۔یعنی مرشد کے لفظوں کے بےغیر نہیں۔۔مجھ جیسے مرید کے لیے ۔۔۔کم ازکم وقت رخصت یہ خلش تو نہیں رہتی ۔۔کہ میں نے جو نقصان کا کھاتہ بند کر دیا ہوتا۔۔۔تو شاید اس مطالعے کا بوجھ کچھ سہل ہو جاتا۔۔۔۔مگر میں اسے سمجھتا ہی نہیں اور وقت ہے کہ تیزی سے خرچ ہوتا جا رہا ہے۔۔کبھی زندگی کا۔۔۔اور کبھی خوابوں کا۔۔۔ہمیشہ سے یہی کھیل ہوتا رہا ہے ۔۔ہم آتے ہیں زندگی جیتے ہیں پڑھتے ہیں اسے سمجھنے کی سعی کرتے ہیں۔۔۔پر ہم جیسے لوگ خود ہی سیدھے راہوں کو پیچیدہ بناتے چلے جاتے ہیں۔۔۔پر میرے مرشد کی رہنمائی راستے آسان بنا دیتے ہیں۔۔۔//
مرشد ! جناب مشرف عالم ذوقی ۔۔۔جنہوں نے میرے قلب کو زندہ کیا ۔۔۔اور نفس کو مردہ بنانا سکھایا۔۔مرشد ایک سنگ پارس کی مثل ہوتا ہے اورپھر جس وجود کو یہ سنگ پارس چھو لے تو اسے زر خالص بنا دیتا ہے ۔۔۔مرشد! کی نظر کسوٹی کی مانند یعنی طالب حق اور طالب باطل کو پرکھ لیتی ہے ۔۔میرے مرشد آفتاب کی طرح سب کو فیض پہنچاتے ہیں ۔۔مرشد وہ ہے جو طالب کی بری عادات کو نیک عادات میں بدل دیتا ہے۔۔وہ رنگریز کی طرح طالب کو اپنے رنگ میں رنگ دیتا ہے مرشد ہدایت بخشنے والا اور گوہر بخش ہوتا ہے۔۔
مرنے سے پہلے مر جاؤ کے متلاشی ہوتے ہیں ۔ہم جیسے طالب۔۔۔اور مرشد طالب کا مردہ دل زندہ کر دیتا ہے ورنہ طالب تو اپنی راہ پر چلنے والا بن جاتا ہے۔۔مرشد ! تو وہ مٹی کوٹنے والا کمہار کی مثل ہوتا ہے جو کمہار مٹی کے حق میں کرتا ہے۔۔ع۔
مٹی کی کیا مجال کہ وہ کمہار سے کہے
تو مجھ کو کس لیے کرتا ہے مار پیٹ
مرشد رفیق راہ کو بھی کہتے ہیں ۔۔میں نے سب سے پہلے رفیق راہ ۔۔یعنی مرشد کی تلاش کی پھر میں نے سلوک اختیار کیا۔۔۔دودھ کو آپ دیکھیں اس دودھ میں ہی دہی چھاچھ مکھن اور گھی سب کچھ پوشیدہ ہے ۔۔اس طرح ہر شخص کے وجود میں نفس ۔۔قلب ۔۔روح ۔۔اور دماغ کا ایک ہی خانہ مقام ہے۔۔۔اور اس لفظوں کی دنیا اور کتابوں کی دنیا نے مجھ جیسے طالب کو مطلوب مقصود تک پہنچا ہی آیا۔۔۔ہے
میرے مرشد نے مجھ جیسے طالب کے وجود میں مقام نفس مقام قلب مقام روح مقام سرا اور مقام قلم کو جدا جدا کر کے دیکھا دیا ہے
مرشد! گر چاہے ایک ہی نظر سے طالب کو جملہعلوم بھلا دے۔۔۔اگر مرشد چاہے تو اسے ہر دو جہان سے آشنا کردے ۔۔تو میرے مرشد نے بھی مجھکو ایک ہی نظر سے کلی علم سے آگاہ کر دیا ہے ۔جو کچھ میں نہیں جانتا تھا۔۔ع۔
گر تجھ کو علم حاصل ہے یا دانش عظیم
بے وسیلہ جائے گا راہ جیم
( باھو)
مرشد۔۔میرے جناب مشرف عالم ذوقی۔۔
حرف میم سے مروت
حرف ر سے ریاضت کش
حرف ش سے اہل شوق
حرف د سے صاحب درد
مندرجہ بالا تمام خوبیاں میرے مرشد میں موجود ہیں
مرشدی اخص خاص الخاص کا مقام ہے ۔۔جب میرا مرشد اخص ہے تو میری ارادات ہی کافی ہے۔۔
مولانا رومی نے کیا خوب کہا ہے کہ۔۔۔"محبت کی تلاش ہمیں تبدیل کر کے رکھ دیتی ہے۔۔راہ عشق میں ایسا کوئی مسافر نہیں گذرا جسے اس راہ نے کچھ نہ کچھ پختگی نہ عطا کی ہو جس لمحے تم محبت کی تلاش کا سفر شروع کرتے ہو۔۔ظاہر اور باطن تبدیلی کی عمل سے گزرنا شروع ہو جاتا ہے۔۔آپ دیکھیں میرے لفظوں میں محسوس کریں کہ میرا ظاہر اور باطن تبدیل ہو چکا ہے۔۔"
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...