{تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی }
*مشرف عالم ذوقی بھی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ یا اللہ ایسا لگتا ہے اردو ادب کے گاوں میں موت کا بھیڑیا گھس آیا ہے۔ اور ادبا اور شعرا دینا سے رخصت ہورہے ہیں۔ اللہ پاک ذوقی بھائی کو رحمتوں اور محبتوں کے سائے میں غرق جنت ہوں۔ اوراعلیٰ مقام سے نوازے۔ ۔آمین۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ،
یہ ناقابل برداشت دکھ صدمہ ہے وہ کرونا وائرس سے متاثر تھے
مشرف عالم ذوقی ایسے زود نویس تھے جن کا قلم بامقصد اور تعمیری سوچ کے ساتھ متحرک رہا۔مگر اس میں احتجاج اور مزاحمت بھی تھی۔ ان کے 14 ناول اور افسانوں کے 8 مجموعے شائع ہوچکے ہوئے۔ بھارت کے معاشرت اور سیاسی حالات پر خصوصا چند برسوں کے دوران بھارت میں افراتفری، عدم برداشت اور انتشار کو انھوں نے اپنی بعض کہانیوں کا موضوع بنایا اور ادبی حلقوں کے ساتھ ساتھ سنجیدہ و باشعور قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
ہندوستان کے سیاسی پس منظر میں لکھے گئے ان کے ناول ’مرگِ انبوہ‘ اور ’مردہ خانے میں عورت‘ کو پاک و ہند میں بھی پڑھا اور سراہا گیا۔ انھوں نے ہم عصر ادیبوں کے خاکے بھی تحریر کیے جب کہ دیگر اصنافِ ادب میں بھی طبع آزمائی کی اور متعدد کتابیں لکھیں۔
مشرف عالم ذوقی 24 نومبر 1963 کو بہار کے ضلع آرہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور اس دوران ہی لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ 1992 میں ان کا پہلا ناول ’نیلام گھر‘ شائع ہوا تھا۔ ان کے دیگر مقبول ناولوں میں ’شہر چپ ہے‘، ‘مسلمان’، ‘بیان’، ‘لے سانس بھی آہستہ’، ‘ آتشِ رفتہ کا سراغ’ شامل ہیں۔ مشرف عالم ذوقی ستر {70} کے اواخر میں کچھ دن ورجینا/ مرے لینڈ امریکہ میں بھی قیام پذیر رہے ہیں۔
مشرف عالم ذوقی کا شمار ایسے فکشن نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے متنوع موضوعات کے سبب اردو ادب میں الگ پہچان بنائی ہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں اقلیتوں کے مسائل سے لے کر ہر طبقے کی بھرپور ترجمانی کی۔ ان کا قلم سماجی گھٹن، سیاسی بنیاد پر ظلم اور ناانصافی کے خلاف متحرک رہا۔
چند دنوں سے مشرف عالم ذوقی علالت کے سبب دلی میں ایک اسپتال میں زیرِ علاج تھے جہاں 19 اپریل کو ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔
ذوقی بھائی 1985میں،میں دہلی آئے تھے۔ — 1987سےان کی وابستگی دوردرشن سے ہوگئی تھی— اس زمانے میںوہ دوردرشن میں سیریلس کے علاوہ ڈوکومینٹری فلم، ڈوکو ڈرامہ اور اس طرح کے پروگرام بنائے جاتے تھے۔ جن میں صحافت کو کہیں نہ کہیں دخل ہوتا تھاشاید ہی کوئی ایسا موضوع ہو جس پر انھون نے نے دستاویزی فلم نہ بنائی ہواور ایک ڈوکومینٹری فلم کے لیے اسکرپٹ لکھنا، تحقیق کا جو کام ہے اس کی ذمہ داری بھی کم وبیش وہی سنبھالتے تھے۔ ۔انھون نے ہندی اور اردو کے باون {52} بڑے لوگوں پر جن میں قرۃ العین حیدر ،نامور سنگھ ،راجندر یادو،جوگندر پال، ڈاکٹر محمد حسن شامل ہیں۔ ان کی شخصیات اور ان کے ادبی کارناموں ہر دستاویزی فلمیں خلق کی ہیں۔
ذوقی بھائی کی موت پر ان کے دوست مشتاق احمد نوری کا کہنا ہے"مشرف عالم ذوقی بھی ساتھ چھوڑ گیا یہ سوچ کر ہی کلیجہ منھ کو آتا ہے برسوں کی پہچان ایک پل میں ختم۔کتنا پیارا انسان تھا جو دیکھتا لکھتا اتنا نڈر اور بےباک قلم کار پھر پیدا نہیں ہونا۔ صحت کے مقابلے میں لاپرواہ اس کا سینہ بلغم زدہ تھا گزشتہ دنوں میں پٹنہ سے ایک آیورویدک دوا لیکر گیا اسے بتایا تو گہار لگا دی
” نہیں نوری بھاٸ آپ نہ آٸیں دہلی میں کووڈ کا راج ہے آپ خود بیمار ہیں “
لیکن میں نہیں مانا خود لیکر گیا خیریت دریافت کی اور چلا آیا ۔دو دن بعد تبسم نے خبر کی کہ اب بہتر ہیں مزے سے سانس لے رہے ہیں۔جس دن تبسم اسے ہوسپٹل لیکر جارہی تھی مجھ سے بات کرکے رونے لگی میں نے ہمت بندھاٸ رات پھر بات ہوٸ اس نے بتایا کووڈ تو نیگیٹو آیا ہے لیکن بلغم سے سینہ جکڑا ہے بار بار کہ رہے ہیں تبسم میں اب نہیں بچونگا۔
اپنی تحریر سے جادو جگانے والا ہند و پاک میں بے حد مقبول فکشن نگار زندگی کی بازی ہار گیا ۔میرا بھاٸ تھا دل کے قریب تھا میری ڈانٹ بھی سن کر گردن جھکا لیتا تھا بیوی کا آٸیڈیل شوہر اور بیٹے کا دوست جیسا باپ کہاں چلا گیا۔میرا دل کانپ رہا ہے آنکھیں آنسوٶں سے لبریز ہیں ہاٸے میرا اپنا چلاگیا ۔
ذوقی تم اکیلے نہیں گٸے فکشن کا ایک سنہرا باب تمہارے ساتھ چلا گیا۔
ان سے جب بھی ملاقات ہوتی ادب بالخصوص جدید ناول، فلم اور ٹی وی سریلز پر خوب باتیں ہوتی تھی۔ وہ دن کو سوتے تھے اور رات کو لکھا کرتے تھے۔ میں ان سے ہمشہ یہ سوال کرتا تھا کہ " ذوقی بھائی آپ اتنی موٹی موٹی ناولز اتنے کم وقت کیسے لکھ لیتے ہیں ؟ تو مسکراکر کہتے تھے " یار بس اندرکا کرب اور معاشرتی اور سیاسی بحران اور میرا ہمزاد یہ سب لکھوادیتا ہے"۔ ذوقی بھائی بہت خوش پوش انسان تھے۔
زندگی اک سوال ہے جس کا جواب موت ہے
موت بھی اک سوال ہے جس کا جواب کچھ نہیں
{امن لکھنوی}