کھیل پدماوت کا
ووٹ بینک کی سیاست میں کرنی سینا اور بھنسالی دونوں حکومت کی سازش اور فرقہ پرستی کے کھیل میں شامل ہیں
پدماوت کا پہلا منظر ہی بھنسالی اور آر ایس ایس کے نظریہ کو بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہے .اداکار رضا مراد پوچھتے ہیں ..علا الدین کہاں ہے ؟ ایک خدمت گار اندر جاتا ہے تو علا الدین درندگی کے ساتھ ایک لڑکی کی عصمت لوٹتا ہوا نظر آتا ہے .خدمتگار کہتا ہے ..تمہاری شادی ہے ..آج تو یہ کام نہ کرو ..سوال ہے ،بھنسالی نے تاریخ کی کس کتاب سے استفادہ کیا ؟منگولوں کی دہشت گردی سے ہندوستان کا تحفظ ککرنے والے خلجی کا یہ فرضی چہرہ دکھانے کی ضرورت کیوں محسوس کی ؟تاریخ کی کتابیں راجپوت مہاراجاؤں کی کہانیوں سے بھری پڑی ہیں جب وہ مغلوں کی خوشامد میں اپنی لڑکیاں انھیں تحفے میں دیا کرتے تھے .دراصل خلجی کو بدنام کرنے کا منصوبہ نہیں تھا ، مسلمانوں کی بد نامی کے سہارے ، اکثریتی طبقہ میں زہر گھول کر ٢٠١٩ کے انتخاب کو کامیاب بنانا منصوبہ تھا .اور بھنسالی اس کھیل میں شامل تھے . یہاں علا الدین، علا الدین نہیں ہے .ہندوستانی مسلمانوں کا ترجمان ہے .اکثریتی طبقہ اس کردار میں علا الدین کی جگہ عام مسلمانوں کو دیکھنے کی کوشش کریگی .فلم میں تو تو راجپوتوں کے فرضی ان بان اور شان کا قصیدہ پڑھا گیا ہے .یہ کرنی سینا کے لوگ بھی جانتے ہیں .یہ بھی کہ ماحول کو پر تشدد بنانا ضروری ہے . .اس سے ووٹ بینک متاثر ہوگا .یہ بات میڈیا بھی جانتی ہے .
سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود ،ایک فلم کو لے کر اگر پورے ہندوستان میں نفرت کا ماحول تیار کیا جا رہا ہے ، تو یہ غور کرنا ضروری ہے کہ معیشت کو تباہ کرنے والی حکومت کو اگلے لوک سبھا انتخاب کے لئے ایک آسان نسخہ مل گیا ہے .ہندو بیدار ہونگے .بے روزگاری اور غریبی کو بھول جاینگے .مذھب کا پرچم ہاتھ میں لینگے .اور مودی کی قیادت کو ہندوتو کے فروغ کے لئے ضروری قرار دینگے .لیکن جو کچھ اس پردے میں ہو رہا ہے ، یہ پورا منظر خوفناک بھی ہے خطرناک بھی .ان چار برسوں میں اصل حکومت غنڈوں کے ہاتھ رہی ..گاؤ رکشک غنڈے ہوں یا کرنی سینا کے دہشت گرد — یہ سب جانتے ہیں کہ حکومت ان کے ساتھ ہے .اور کویی بھی انکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا . انصاف کی عمارت پر بھگوا پرچم لہرانے والے کو کس کا ساتھ ملا ؟ کرنی سینا کے نوجوان جب ہاتھوں میں شمشیر لئے سیکڑوں کی تعداد میں موٹر سائکل پرچیختے چلاتے سوپرم کورٹ کے حکم کی دھجیاں بکھیر رہے تھے ،انھیں شاباشی دینے والے لوگ کون تھے ؟اتر پردیش میں غنڈوں کی رہایی کا پروانہ لئے یوگی جی جشن منا رہے ہیں ..اور صرف یوگی جی کیوں ، مرکز سے لے کر بی جے پی والی ریاستی حکومتوں نے انصاف اور جمہوریت کی ایسی دھجیاں اڑائ ہیں کہ نظروں کے سامنے کچھ باقی ہے تو ایک لہولہان ملک ..ایک ایسا ملک جو بار بار فسطائی نظریہ رکھنے والوں کے ہاتھوں گینگ ریپ کا شکار ہوتا رہا ہے .. حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کا مذاق اڑانے والے ،آیین قانون اور جمہوریت کا قتل کرنے والوں کو یوم جمہوریہ منانے کا حق نہیں
٢٠١٦ میں ریزرویشن کی تحریک کو لے کر روہتک جل اٹھا .ہریانہ اور پنجاب میں ایسی آگ لگی کہ آگ بجھانا مشکل ہو گیا ..لیکن کسی پیلیٹ کا استعمال نہیں ہوا ..شہر جلاے گئے . پر تشدد حملوں میں، بڑی تعداد میں مبینہ طور پر زخمی اور کچھ شدید زخمی ہوگئے. چالیس سے زاید لوگوں کی ہلاکت کی خبریں موصول ہوئیں -کروڑوں روپے کی جائیداد پھونک دی گئی .
آشرم سے نکلنے والے بلاتکاری جیلوں میں بھی عیش کی زندگی گزارتے رہے .رام پال کو پکڑنے کے لئے پولیس کا دستہ آیا تو ایک بار پھر پورا شہر آگ کی لپٹوں میں نظر آیا .لاکھوں کروڑوں کی جاےداد اس بار بھی پھونک دی گیی — مگر یہ لوگ زہریلے نہیں تھے .انکے جرم آتنکوادیوں جیسے نہیں تھے ..آتنک وادی تو مسلمان ہوتا ہے .جو خاموشی سے گھر میں ہوتا ہے اور اس پر مصلحت کی بندوق تان دی جاتی ہے .
رام رحیم کے غنڈوں نے پنجاب ہریانہ اور پانچ ریاستوں میں آتنک اور دہشت گردی کا جو کاروبار کیا ،– .یہ وہی رام رحیم ہے ،جس کے قدموں کا بوسہ دینے والوں میں ،موجودہ حکومت کے تمام چہروں کو دیکھا جا سکتا ہے .وہی آسا رام بلاتکاری ،جہاں پردھان منٹری تک سر جھکاے آشیرواد مانگتے نظر آتے تھے ..تیسس سے زاید جانیں گین .ملک کو خاک میں ملا دینے والے بیانات جاری ہوئے .مگر کسی کو دہشت گرد نہیں کہا گیا .
بھنسالی اور پدماوت —
راما نند ساگر سیکولر ذہن کے مالک تھے . ترقی پسند تحریک چلی تو انکے ناول اور انسان مر گیا کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا – بھاگ ان بردہ فروشوں سے جیسی خوبصورت کہانیوں میں بھی ، انکے اندر کا ترقی پسند انسان زندہ تھا .یہی راما نند ساگر فلموں میں اہے تو اپنی کمرشیل فلموں کو ادب سے دور رکھا .یہ ضروری بھی تھا .کیونکہ فلمی دنیا میں نہ پریم چند چلے ،نہ منٹو ،کرشن چندر یا بیدی – بیدی صاحب کے بیٹے نے کمرشیل فلموں کا رخ کیا تو تھوڑی بہت کمایی ہو گیی . فلموں میں آنے کے بعد ساگر ادب سے دور ہو گئے …جب ہندوستان میں فرقہ پرستی کا رتھ تیز تیز دوڑتا ہوا ،صدیوں پرانی ہندو مسلم دوستی کو روندنے کی کوشش کر رہا تھا ، ساگر ایک نیا روپ لے کر آ گئے –ممکن ہے ،کچھ لوگ اس بات کی مثال دیں کہ تقسیم کا حادثہ پہلے ہی اس ملت کو زخمی کر چکا تھا ، لیکن یہ حقیقت نہیں ہے ..فسادات ہوتے رہے .یہ سچ ہے .تقسیم کا اثر کافی دنوں تک رہا ،یہ بھی سچ ہے .لیکن ایک سچ اور بھی ہے کہ پرانی تھذیب زندہ تھی – اور فسادات کے باوجود دلوں کا معاملہ مختلف تھا . ہندو اور مسلم بھایی بھایی کی طرح رہتے تھے بلکہ اب بھی رہتے ہیں ..مذموم کوششوں کے باوجود حقیقت یہی ہے .اس سے انکار ممکن نہیں— بھر کیف .ساگر صاحب اسی زمانے میں رامائن ٹی وی سیریل لے کر آ گئے .رامائن کے آنے کی ٹائمنگ غلط تھی .اسکا فائدہ بھاجپا اور آر ایس ایس نے اٹھایا .اسکے بعد ساگر پوری طرح بھگوا رنگ میں نظر اہے – یہ بھی ایک انسان کی موت تھی ..
ساگر صاحب کے بعد اس سلسلے کا دوسرا اہم پڑاو باجی راو پیشوا ثابت ہوا – اب پہلے بھنسالی کی بات کرتے ہیں .بھنسالی ایسے ہدایت کار ہیں جن پر جتنا بھی فخر کیا جائے ،کم ہے . بھنسالی ایک بڑے ویڑن کا نام ہے .بھنسالی جیسے لوگ ہماری فلم انڈسٹری میں کم ہیں .یہ وہ لوگ ہیں جن کے ہوتے ہوئے ہم بار بار یہ سوچتے ہیں کہ ہندوستان پر کبھی برا وقت نہیں آ سکتا ..کیونکہ یہ سلجھے ہوئے ،سیکولر ذھن کے لوگ ہیں جو انسانوں کی بات کرتے ہیں ..جو انسانی رشتوں کو زندہ رکھنے کی بات کرتے ہیں … بھنسالی نے انڈین فلم انڈسٹری کو بلیک جیسی فلم دی ہے ،جس کا مقابلہ ہالی ووڈ کی کسی بھی بڑی فلم سے کیا جا سکتا ہے .بھنسالی نے جب باجی راو پیشوا بنایی اور اس فلم کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تو مجھے راما ساگر کی یاد آیی – پہلا سوال یہی تھا کہ کیا اس فلم کی ٹائمنگ غلط ہے ؟ کیونکہ یہ فلم آر ایس ایس کے مینیفیسٹو کو سپورٹ کرتی ہے .اس فلم کے کیی مناظر ایسے ہیں جہاں ہندوتو کے فلسفے کو اہمیت دی گی .پیشوا پر اب ایک چینل نے سیریل شروع کیا ہے .اس کے پروموشن میں یہ بات کہی گیی ہے کہ کیسے پیشوا نے مغلوں کو مات دی . راجہ مہاراجہ اور بادشاہوں کی کہانیوں میں شکست اور فتح کے سلسلے ہمیشہ چلے کبھی کسی کی فتح کسی کی شکست ..لیکن رامائن نے جہاں ہندو میتھولوجی کے سہارے غلط ٹائمنگ کے ساتھ ہندتو کے جذبے کو بیدار کرنے کا کام کیا ، بھنسالی اسی راستے سے پیشوا کی نازک کہانی لے کر آ گئے اور آر ایس ایس نے آسانی سے اس کہانی کو لپک لیا .اس کے بعد ہی بھنسالی پدماوت کو لے کر آ گئے .صوفی سنتوں اور بزرگوں کا احترام کرنے والے علا الدین خلجی کو عیاش بادشاہ کے طور پر پیش کیا . بالی وڈ نے مسلمانوں کو جب بھی پیش کیا تو دہشت گرد کے طور پر پیش کیا .پدماوات پر ا عتراض تو مسلمانوں کو کرنا چاہیے تھا .لیکن مسلمانوں نے کبھی ،کسی موقع پر احتجاج نہیں کیا .آج کرنی سینا کے نمائندے سر عام قتل عام کی دھمکیاں دے رہے ہیں .
باجی راو پیشوا کے بعد بھنسالی نے رانی پدما وتی پر فلم بنانے کا بیڑا اٹھایا اس وقت بھی جےپور میں شوٹنگ کے دوران کرنی سینا کے نمائندوں نے ان پر حملہ کیا .یہ بھی کہا گیا کہ بھنسالی میں ہممت ہے تو جرمنی جا کر ہٹلر کے خلاف فلم بنا کر دکھایں –اعتراض اس بات پر ہے کہ علا الدین خلجی اور پدما وتی کے درمیان محبت کی باتیں جھوٹی ہیں .پدما وتی راجپوت مہارانی تھی .پدما وتی کا کردار ادا کرنے والی دیپیکا پدوکون نے ٹویٹر پر بیان جاری کیا کہ تاریخ کے ساتھ کہیں کویی کھلواڑ نہیں کیا گیا … پھر سوال ہے کھلواڑ کس کے ساتھ ہوا ؟ فلم دیکھ کر آنے والے بتاتے ہیں کہ یہ فلم راجپوتوں کی شان میں اضافہ کرتی ہے .پھر شکار کون ہیں؟ نشانہ پر کون ہے ؟ مسلمان–؟ جی ہاں .مسلمان .جو یوم جمہوریہ کی تقریبات کے موقع پر اس پورے کھیل کوحیران آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ..تہذیب کا تماشا بنایا جائے ،مسلمان خاموش ..مسلمانوں کے کردار کو داغدار کیا جائے ، مسلمان چپ – مسلمانوں سے انکی عظیم الشان تاریخ اور ماضی کو چھین لیا جائے ، مسلمان کچھ نہیں کہیںگے ..یاد رکھئے ، ووٹ بینک کے مد نظر کانگریس بھی اس معاملے میں خاموش رہی .کیونکہ اسکے سامنے بھی راجستھان کا الیکشن ہے .
اس تماشا پر غور کریں تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جاےگی کہ ووٹ بینک کی سیاست میں کرنی سینا اور بھنسالی دونوں حکومت کی سازش اور فرقہ پرستی کے کھیل میں شامل ہیں ..بھنسالی کے پیچھے مکیش امبانی کھڑے ہیں .بھنسالی نے دو بڑی فلمیں مسلمانوں کے کردار کو داغدار کرنے کے لئے بنایں .یہ فلمیں آنے والے لوک سبھا انتخاب تک بڑا کردار ادا کرینگی ..پھر حکومت کس کے ساتھ ہے ؟ بھنسالی کے ساتھ بھی .کرنی سینا کے ساتھ بھی .گو رکشکوں کے ساتھ بھی .انصاف کی عمارت پر پرچم لہرانے والے کے ساتھ بھی …
اور —- بیوقوف کون بن رہا ہے ؟ کیا اسکا جواب بتانے کی ضرورت ہے …….؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“