[اگر آپ شاعر یا نثر نگار ہیں تو یہ پوسٹ مکمل پڑھیں، یہ تحریر آپ کو سوچنے اور سمجھنے کے نئے زاویے فراہم کرے گی ، ان شاء اللہ۔]
===========
مشاہدہ اور وجدان سے کیا مراد ہے؟
مشاہدہ، وجدان، ادراک اور احساس یہ سب عربی زبان کے جامع المعانی الفاظ ہیں، مشاہدے کا مطلب ہے دیکھنا، وجدان دریافت کرنے اور پانے کو کہتے ہیں، ادراک سمجھ بوجھ کی عربی ہے، جبکہ احساس کا اردو ترجمہ ہے محسوس کرنا۔
عربی زبان کی مستند کتاب ”التعریفات“ کی ایک عبارت میں یہ چاروں الفاظ موجود ہیں جس سے بات کو سمجھنا مزید آسان ہوجائے گا، ملاحظہ فرمائیے:
”الإحساس: إدراك الشيء بإحدى الحواس، فإن كان الإحساس للحس الظاهر فهو المشاهدات، وإن كان للحس الباطن فهو الوجدانيات.“
(التعریفات للجرجانی، جلد 1، صفحہ 3)
ترجمہ: احساس یہ ہے کہ کسی چیز کو حواس میں سے کسی ایک کے ذریعے معلوم کیا جائے، اگر کسی ظاہر حس سے کوئی چیز معلوم کی جائے تو یہ مشاہدہ ہے اور اگر کسی باطنی حس کے ذریعے کوئی چیز معلوم کی جائے تو اس کا تعلق وجدانیات سے ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ”حواس“ کیا ہے اور کتنے ہیں؟
حواسِ ظاہرہ و باطنہ:
حواس عربی میں حاسّہ کی جمع ہے، جیسے خاصّہ کی جمع خواص اور عامّہ کی جمع عوام۔ بدحواس اور حواس باختہ اسی سے ہیں۔
حواس کی دو قسمیں ہیں، 1ظاہری حواس 2باطنی حواس۔
ظاہری حواس کل پانچ ہیں:
(1) باصرہ (دیکھنے کی حس)، (اس کا ذریعہ آنکھ ہے۔)
(2) سامعہ (سننے کی حس)، (اس کا ذریعہ کان ہے۔)
(3) شامّہ (سونگھنے کی حس)، (اس کا ذریعہ ناک ہے۔)
(4) ذائقہ (چکھنے کی حس)، (اس کا ذریعہ زبان ہے۔)
(5) لامِسہ (چھونے کی حس)، (اس کا ذریعہ پورا جسم اور خصوصا ہاتھ ہے۔)
حواسِ ظاہرہ کے ذریعے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں انھیں محسوسات اور مشاہدات کہا جاتا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جبکہ باطنی حواس بھی پانچ ہیں:
(1) حِس مشترک(2) خیال(3) واہمہ(4) حافظہ(5) متصرفہ
حواسِ باطنہ کے ذریعے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں انھیں ”وجدانیات“ کہا جاتا ہے۔ان کی تفصیل و تشریح کچھ یوں ہے:
انسان کو اللہ نے یہ صلاحیت عطا کی ہے کہ وہ حواس ظاہرہ کے ذریعے حاصل ہونے والی محسوسات کے ساتھ پانچ قسم کا سلوک کرتا ہے:
(1) سب سے پہلے وہ محسوسات کی تصویروں اور شکلوں کا سامنا کرتا ہے، یہ کام وہ ”حسِ مشترک“ کے ذریعے کرتا ہے، بالفاظ دیگر ظاہری حواسِ خمسہ گویا حس مشترک کے پانچ جاسوس ہیں جو حاصل ہونے والی تمام اطلاعات حس مشترک تک پہنچا دیتے ہیں۔
(2) پھر وہ ان تصویروں اور شکلوں کو اچھی طرح محفوظ کرلیتا ہے، اس کی اس صلاحیت کو ”خیال“ کہتے ہیں۔
(3) پھر وہ محسوسات کے معانی اور مفاہیم کا سامنا کرتا ہے، اس کی اس صلاحیت کو ”واہمہ“ کہتے ہیں۔
(4) پھر وہ ان معانی و مفاہیم کو اچھی طرح محفوظ کرلیتا ہے، اس کی اس صلاحیت کو ”حافظہ“ کہتے ہیں۔
(5) پھر وہ ان ظاہری شکلوں اور ان کے معانی و مفاہیم کو آپس میں ملا دیتا ہے جس سے وہ الفاظ کو سن یا دیکھ کر ان کا مفہوم سمجھنے اور مختلف الفاظ کے درمیان فرق کرنے پر قادر ہوجاتا ہے، اس کی اس صلاحیت کا نام ”متصرِّفہ“ ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ان سب کو مثالوں سے سمجھنے کے لیے لہلہاتے درخت کا تصور کیجیے، میری اس بات پر آپ اسی صورت میں عمل کرسکتے ہیں کہ آپ نے درج ذیل دو کام کرلیے ہوں:
(الف) آپ نے کسی سے سنا ہو یا آپ نے کہیں پڑھا ہو کہ ہوا سے ہلتے ہوئے درخت کو ”لہلہاتا درخت“ کہتے ہیں۔
(ب) آپ نے تیز ہوا کے نتیجے میں کسی درخت کو ہلتے ہوئے دیکھا ہو، اس کی آواز سنی ہو، اس کی مہک سونگھی ہو، اسے چھوکر محسوس کیا ہو۔
درج بالا دونوں صورتیں آپ کو ظاہری حواس خمسہ ہی سے معلوم ہوئی ہوں گی، پہلی صورت لہلہاتے درخت کی ظاہری شکل پر مشتمل ہے اور کسی سے سن کر یا کہیں پڑھ کر آپ نے ان دونوں الفاظ ”لہلہاتا درخت“ کی ظاہری شکل و صورت کو حس مشترک کے ذریعے جمع کرکے قوتِ ”خیال“ کے ذریعے اس معلومات کو اچھی طرح یاد اور محفوظ کرلیا، پھر دوسری صورت میں آپ نے ظاہری حواس کا استعمال کرکے لہلہاتے درخت کو دیکھ، سن، سونگھ اور چھو کر ان معنوی محسوسات کو قوتِ واہمہ کے ذریعے یکجا کرکے بعد ازاں انھیں قوتِ حافظہ کی مدد سے اچھی طرح ذہن نشین کرلیا، اب آپ اس بات پر قادر ہیں کہ لہلہاتے ہوئے درخت کو دیکھ کر یہ کہہ سکیں کہ یہ ”لہلہاتا درخت“ ہے، اسی طرح کسی کتاب میں ”لہلہاتا درخت“ پڑھ کر یا کسی سے سن کر یہ سمجھ سکیں کہ یہ کیا ہوتا ہے اور کیسا ہوتا ہے، اس چیز پر جو صلاحیت آپ کو قادر کر رہی ہے وہ آپ کی قوت متصرفہ ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اب آتے ہیں مقصودی بات کی طرف:
ایک قلم کار کا مشاہدہ اور وجدان عام لوگوں کے مشاہدے اور وجدان سے بہتر ہونا چاہیے۔
درخت کو ہر شخص دیکھتا ہے، مگر ایک صاحبِ قلم کی نظر جب درخت پر پڑتی ہے تو اس کے تنے سے جڑی موٹی شاخوں اور پھر ہر موٹی شاخ سے نکلتی چھوٹی چھوٹی ٹہنیوں اور ہر ٹہنی پر لگے کانٹوں ، پکے پھلوں اور کھلے پھولوں کو بالکل الگ نظر سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے، پھر وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ جس درخت پر جتنے زیادہ پھل لگے ہوئے ہیں وہ اتنا زیادہ جھکا ہوا ہے، وہ یہ دیکھ کر بھی بہت کچھ محسوس کرتا ہے کہ پھلوں سے لدے درخت کو جتنے زیادہ پتھر مارے جائیں یہ اتنے زیادہ پھل دیتا ہے، اسے یہ چیز بھی بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ درخت ہر اجنبی و شناسا کو سایہ دینے کے لیے سورج کے سامنے سینہ تانے کھڑا رہتا ہے، وہ محبت کرنے والوں کو درختوں کے زیرِ سایہ اپنی میٹھی یادیں محفوظ کرتے دیکھتا ہے تو اسے درخت کی مشفقانہ چھاوں مزید متاثر کرتی ہے، وہ مزید سوچتا ہے تو دیکھتا ہے کہ درخت کو ایک ہی جگہ استقامت سے کھڑے رہنے کے نتیجے میں مرجع خلائق کا درجہ دیا جاچکا ہے کہ پرندے بھی یہیں گھونسلے بناتے ہیں، شہد کی مکھی بھی اپنے چھتے کے لیے درخت کا انتخاب کرلیتی ہے، طرح طرح کے حشرات الارض بھی درخت میں اپنے بل بناتے ہیں اور درخت ہے کہ کسی قسم کے بل کا مطالبہ نہیں کرتا، قلمکار درخت کی زندگی کی طرح اس کی موت کو بھی نظر انداز نہیں کرتا، چنانچہ سوکھے ہوئے درخت کی لکڑیوں کو کون کون کس کس مصرف میں لارہا ہے وہ بس دیکھتا، سوچتا اور محسوس کرتا چلا جاتا ہے۔
اندازہ لگائیے جب ایک درخت کے ساتھ مشاہدے اور وجدان کی یہ صورتِ حال ہے تو کائنات کی ان گنت اشیاء کو دیکھنے، سوچنے اور محسوس کرنے والوں پر کیسے کیسے رازوں سے پردہ اٹھتا ہوگا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
علم حاصل کرنے کا اولین ذریعہ ظاہری حواس خمسہ ہیں، اگر یہی بند ہوجائیں تو باطنی حواس بھی معطل ہی رہتے ہیں، اس لیے ہمیں اپنے ان حواس خمسہ کو خوب تقویت دینے کی ضرورت ہے، جس کی درج ذیل صورتیں ہیں:
(الف) ہمیں اپنی آنکھ، کان، ناک، زبان اور پورے جسم کو تمام ضرر رساں چیزوں سے دور رکھنا ہوگا، مگر اس کے برعکس آج ٹی وی، کمپیوٹر اور موبائل کی اسکرین مسلسل دیکھنے کے نتیجے میں ہم آنکھوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں، کانوں میں مسلسل ہینڈ فری ڈال کر انھیں بھی کمزور کر رہے ہیں، سیگریٹ اور گاڑی کے دھوئیں نے پوری قوم کو دمے کا مریض بنا رکھا ہے، اور چکھنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچانے کے لیے ہم کیا کچھ نہیں کھا رہے، اب رہ جاتی ہے قوتِ لامسہ یعنی چھونے کی صلاحیت تو اس کے خسارے بھی آج ہم سب کے مشاہدے میں ہیں۔ دوستو! ہمیں اپنے ان آلاتِ علم کی قدر کرنی چاہیے اور جو چیزیں ان کے لیے نقصان دہ ہیں ان سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔
(ب) حواس خمسہ کے لیے جو چیزیں فائدہ مند ہیں انھیں اختیار کریں، جیسے آنکھوں میں پابندی سے معیاری سرمہ لگائیں، کانوں کی صفائی کا خاص خیال رکھیں، معیاری خوشبوؤں کا استعمال کریں، زبان کو عمدہ اور مفید لذتوں سے آشنا کریں اور اگر شادی کی عمر ہوگئی ہے اور اللہ نے وسائل بھی دے رکھیں تو جلد سے جلد نکاح والی زندگی اختیار کرلیں۔
(ج) یہ کائنات ساری اللہ کی بنائی ہوئی ہے اور اللہ نور ہے، لہٰذا انسان جو کہ اشرف المخلوقات ہے وہ اگر اپنے حواس خمسہ کو نورانی بھی رکھے گا تو دیگر لوگوں کی بنسبت اس کے احساسات بھی نورانی اور طاقت ور ہوں گے، آنکھ میں نور ہے اس لیے وہ دیکھتی ہے، آنکھ ہر ایک کے پاس ہے، لیکن جو اپنی آنکھ کو مزید نورانی کردے تو اس کا دیکھنا نورٌ علی نور ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایمان والے کی فراست سے بچو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے، اسی طرح بخاری شریف کی ایک طویل حدیث کا درمیانی ٹکڑا کچھ اس طرح ہے: ”میرا بندہ نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔“
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
چند مزید مثالیں:
٭ ستاروں، چاند اور سورج کو سبھی دیکھتے تھے، مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام ان چیزوں کے ڈوبنے اور چھپنے میں غور کرکے اپنے بنانے والے کی جانب متوجہ ہوگئے۔
٭ دھوبی گھاٹ یا لوہاروں کے پاس سے بہت سے لوگ گزرے، مگر امام النحو والعروض خلیل بن احمد نے ان دو میں سے کسی ایک جگہ سے (روایات میں اختلاف ہے) گزرتے ہوئے آواز کے اتار چڑھاو کے ذریعہ پورا علم عروض مرتب کرڈالا۔
٭ امام خلیل ہی کا ایک واقعہ ہے کہ کسی طبیب کے انتقال کرجانے کے بعد اس کی کسی خاص دوائی کا فارمولا دریافت کرنے کے لیے اس کے استعمال کردہ پیالے کو صرف سونگھ سونگھ کر ان تمام ادویات کا نام بتا ڈالا جو اس پیالے میں ڈالی جاتی تھیں۔
٭ بازار میں بھی خرید و فروخت کرنے میں وہ شخص زیادہ فائدے میں رہتا ہے جو اپنے حواس کو اچھی طرح استعمال کرتا ہو، چنانچہ قصائی جانور کو دیکھتے ہی پہچان لیتا ہے کہ اس میں کتنا دم ہے، جامہ فروش کپڑے کو ہاتھ لگا کر اس کی تفصیلات بتانے لگتا ہے، عطر فروش سونگھتے ہی بتا دیتا ہے کہ مقابل نے ایک ہی عطر استعمال کیا ہے یا ایک سے زیادہ اور پھر ایک سے زیادہ کے بھی الگ الگ نام بتادیتا ہے، اچھا باورچی وہی ہوتا ہے جو چکھ کر اندازہ کرنے لگ جائے کہ اب اچھا پکنے میں کس چیز کی کمی رہ گئی ہے۔
===========
(ماخوذ از "آؤ تحریر سیکھیں" مصنفُہ محمد اسامہ سَرسَری ، مکتبہ اردو زار ، زیرِ طبع)