“حقیقت اور اپنے یقین میں مفاہمت کروانی ہو تو مجھے تبدیلی اپنے یقین میں کرنی پڑتی ہے۔ اس کا برعکس طریقہ ٹھیک کام نہیں کرتا۔”
۔علی زیر یدکوسکی
مثبت سوچ کی طاقت کی تحریک سے سیلف ہیلپ کے کئی گرو تو اپنی کتابیں، پروگرام، سیمینار اور کانفرنس بیچ کر بہت امیر ہو چکے ہیں۔ اوپرا ونفری نے اس میں طویل کیرئیر بنایا ہے۔ اس تحریک کا بنیادی نکتہ سادہ سا ہے، “مثبت سوچو گے، تو نتائج مثبت نکلیں گے”۔ کیا یہ طریقے کام بھی کرتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنا ہی اچھا ہوتا کہ ہم کسی چیز کا تصور کرتے اور بہت ہی زور و شور سے کرتے تو وہ ہو جاتا؟ اس جادوئی سوچ کی اپیل بہت وسیع پیمانے پر ہے۔ یہ طاقت اور کنٹرول کا سراب دیتی ہے لیکن یہ بس جادوئی سوچ ہے۔
سیلف ہیلپ کے مصنفین اور گرو چاہیں گے کہ آپ یہ سوچ اپنائیں۔ لاء آف ایٹریکشن، میگنیٹزم، ذہن کی طاقت سمیت کئی الفاظ استعمال کر کے ۔۔۔ جن کے پیچھے کوئی شواہد نہیں۔
والیس ویٹلز کی “امیر بننے کی سائنس” سے رونڈا بائرن کی “راز” تک بہت سی مقبول کتابیں اس موضوع پر لکھی گئی ہیں۔ اگر لاء آف اٹریکشن پر سرچ کریں تو ہزاروں کتابیں مل جائیں گی۔ مصنفیں مثبت سوچ کے ذریعے پیسے کمانے، محبت میں کامیابی، کیرئیر میں ترقی اور یہاں تک کہ سوچ سے کینسر کے علاج کے مشورے دیتے ہیں۔
ماہرِنفسیات رچرڈ وائزمین کہتے ہیں کہ اس طرزِ فکر سے منفی اثر تو ہو سکتا ہے، مثبت نہیں۔ ہم صرف اپنی خواہش سے کائنات کو نہیں بدل سکتے۔ تو کیا سوچ سے فرق پڑتا ہے؟ اس پر 1999 میں شیلی ٹیلر اور لین فیم نے سٹڈی کی۔ شرکاء کے الگ گروپس نے امتحان کے لئے دو چیزوں پر سوچ مرکوز کرنی تھی۔ ایک نے نتیجے پر، ایک نے پراسس پر (یعنی امتحان کی تیاری اور طریقہ کار)۔ جن کی سوچ پراسس پر مرکوز تھی، امتحان میں اس گروپ کے گریڈز پر مثبت فرق پڑا۔ جن کی نتیجے پر، ان پر منفی۔ یعنی انہوں نے اس گروپ سے بھی بری کارکردگی دکھائی جو تجربے کا حصہ نہیں تھا۔
اس سے ملنے والا سبق واضح ہے۔ مثبت سوچ خود میں بے کار ہے۔ یہ وقت اور محنت کا ضیاع ہے اور عملی کام سے توجہ ہٹاتی ہے۔ لیکن سوچ اس پر مرکوز کرنا کہ کامیابی کے لئے کیا کرنا پڑے گا؟ یہ مفید ہے کیونکہ یہ عمل پر اکساتی ہے (اس معاملے میں پڑھائی کی طرف توجہ دینے پر) اور اس وجہ سے مثبت نتیجہ برآمد ہوا۔ فرق عمل سے پڑتا ہے، خواہش سے نہیں۔
ہم اپنی سوچ سے دنیا پر براہِ راست فرق نہیں ڈال سکتے۔ لیکن ہم اپنی سوچ سے خود کو بدل سکتے ہیں اور ہمارا عمل دنیا پر فرق ڈال سکتا ہے۔ اپنی توجہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے لیکن ٹھیک جگہ پر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق بتاتی ہے کہ منفی سوچ کے اپنے فائدے ہیں۔ منفی سوچ والے مایوسی کا شکار کم ہوتے ہیں، بہتر شادی شدہ زندگی گزارتے ہیں، لوگوں سے تعلقات بہتر بنا سکتے ہیں، اوسط آمدنی زیادہ ہوتی ہے۔ پریشان ہونا مفید ہے۔ کم از کم اگر اعتدال میں رہے تو۔ ضرورت سے زیادہ پرامید رہنا لاپرواہ کر دیتا ہے، توقعات بڑھا دیتا ہے اور ناکامی کے امکان میں اضافہ کر دیتا ہے۔
بیماری سے مقابلے میں بھی مثبت سوچ کسی حد تک تو فائدہ دے سکتی ہے لیکن اس میں لٹریچر میں مبالغہ آرائی بہت ملے گی اور ضرورت سے زیادہ پرامید رہنا مسئلہ کرتا ہے۔ سائیکولوجسٹ جیمز کوئن نے کینسر کے قریب المرگ مریضوں پر اپنے کیرئیر میں فوکس رکھا۔ “وہ کہتے ہیں کہ جس کلچر میں مثبت سوچ کا جنون ہو، وہاں پر ایسے مریضوں کے لئے نفسیاتی نتائج تباہ کن ہوتے ہیں۔ موت آسان نہیں اور ہر کوئی اس سے اور اس کی غم سے اپنے طریقے سے سمجھوتا کرتا ہے۔ حد سے زیادہ امید فائدہ نہیں دیتی۔ اور ویسے بھی ایک چیز یقینی ہے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ اپنی قوتِ ارادی سے موت کو شکست دے لیں گے تو بالآخر ناکام تو آپ نے ہونا ہی ہے”۔
جیمز کوئین، ہاورڈ ٹینن اور آدیلیٹا کی 2010 کی سٹڈی بتاتی ہے کہ terminal امراض میں مبتلا اشخاص کا نہ صرف مثبت سوچ سے موت کا وقت ٹلتا نہیں بلکہ باقی ماندہ وقت بھی زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ لوگ موت سے کئی طریقے سے مقابلہ کرتے ہیں اور زندگی کی کوالٹی کا بڑا اثر بیرونی پریشرز سے ہوتا ہے۔ اگر کوئی غصے میں ہے یا اداس ہے یا مایوس ہے تو اس کی وجہ ہے۔ اس حالت میں دوستوں، عزیزوں اور حتیٰ کہ میڈیکل پروفیشنلز کی طرف سے ملنے والی رائے کہ “مثبت رہو”، “بہادری دکھاوٗ” ان آخری ایام میں ذہنی کیفیت کو مزید نقصان پہنچاتی ہے۔
ایسے افراد جو مثبت سوچ کی اس تحریک پر یقین رکھتے ہیں، کئی بار علاج میں بھی تاخیر کر دیتے ہیں۔ “میں قوتِ ارادی سے اس انفیکشن کو شکست دے سکتا ہوں”۔ نہیں، اینٹی بائیوٹک زیادہ موثر ہیں۔
مثبت سوچ کی “سائنس” کمزوروں کا شکار کرتی ہے۔ ان ضرورت مندوں کا، جو اچھے حالات میں نہیں۔
امید کی تبلیغ پرکشش لگتی ہے۔ لیکن یہ ناکامی کے لئے میدان ہموار کر دیتی ہے۔ محنت کرنے، تلخ حقیقت کا مقابلہ کرنے، ناکامی برداشت کرنے کے بجائے صرف امید اور خواہش سے محبت مل جائے، دولت مل جائے، شہرت مل جائے؟ ایسا نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں، نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ معقول حد تک پرامید رہنے میں کوئی برائی ہے۔ نہ ہی زندگی کے بارے میں اچھا رویہ ترک کرنا چاہیے۔ زندگی کی نعمت، دنیا کی خوبصورتی اور دوسرے انسان ۔۔۔ ان کی موجودگی میں خوشگوار رہنا مشکل نہیں۔ اس سب کا شکرگزار رہنا اور مثبت موڈ میں رہ کر آپ خود اپنی کی کوالٹی بڑھا سکتے ہیں۔ صرف یہ کہ یہ توقع نہ رکھیں یہ محض اچھی سوچ سے ہی کچھ بدل سکتا ہے۔ یہ دنیا ایسے کام نہیں کرتی۔
امتحان کو پار کرنا ہو، دولت اور شہرت کی تلاش، زندگی کے کسی چیلنج کا مقابلہ یا محبت میں کامیابی ۔۔۔۔ یہ دنیا عمل کی دنیا ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...