مثبت جذبے جگائیے
چند سال قبل ایک ایسے یہودی کی لکھی ہوئی کتاب پڑھی تھی جو جرمن نازیوں کی قید میں کئی سال گزار چکا تھا۔ اس نے پوری تفصیل سے لکھا ہے کہ اس کیمپ میں قیدیوں کی کیا حالت تھی اوران کے ساتھ بے رحم محافظ کیسا سلوک کیا کرتے تھے۔
وہ بتاتا ہے کہ اس نے نازی فوجیوں کے ہاتھوں ان قیدیوں کو مرتے دیکھا جن کے ساتھ وہ اپنے شب و روز گزارتا تھا اور جو اس کے گہرے دوست بن گئے تھے۔ انہیں روزانہ پتھر توڑنے کے لئے برفیلی زمین پر کئی کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا تھا۔ اکثراوقات ایسا ہوتا کہ اس کے ساتھی کم خوراکی کی وجہ سے لاغر ہو کر برف پر گر پڑتے اور محافظ انہیں مرنے کے لئے چھوڑ کر آگے روانہ ہو جاتے۔ اپنے قریبی دوستوں کو اپنی نگاہوں کے سامنے برف پر گرتے دیکھنا اور ان کے لئے کچھ کئے بغیر خاموشی سے آگے بڑھ جانا ایک اذیت ناک تجربہ تھا جس سے انہیں اکثروبیشتر گزرنا پڑتا تھا۔ کئی لوگ بیماریوں کی لپیٹ میں آ گئے اور چونکہ ان کی دیکھ بھال نہیں کی گئی اس لئے وہ سسک سسک کر مر گئے۔ اس کے بہت سے ساتھیوں کو نازی محافظوں نے صرف لطف لینے کے لئے نت نئے طریقوں سے قتل کیا۔ اس طرح جرمن فوجی ان کی آنکھوں کے سامنے بے شمار قیدیوں کو اپنے ساتھ لے گئے اور پھر ان کی کوئی خبر نہ ملی۔
کئی برس ان اذیت ناک تجربات سے گزرنے کی وجہ سے اس کے اندر ایک مستقل غیر یقینی اور تشکیک نے جنم لیا اور پھریہ منفی جذبے دھیرے دھیرے اس کی ذات کے ایک ایک ریشے میں سرایت کر گئے۔ جو لوگ اس کیمپ میں مقید تھے، انہیں کچھ پتا نہیں تھا کہ اگلے لمحے زندگی ان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔ آیا کہ وہ زندہ رہ پاتے ہیں یا انہیں کسی اذیت پسند محافظ کے ہاتھوں تڑپ تڑپ کر مرنا پڑے گا؟ انہیں کچھ علم نہیں تھا کہ کونسا ساتھی کچھ دنوں بعد ان کے درمیان باقی نہیں ہو گا۔ کبھی اگر ان کے محافظ اچھے موڈ میں ہوتے تو وہ اسے بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
وہ قیدی بتاتا ہے کہ جب نازیوں کو شکست ہوئی اور امریکی فوجیوں نے ان افراد کو قید سے باہر نکالا تو اسے یقین نہیں آیا کہ اذیتوں کے دن ختم ہو چکے ہیں اور وہ ایک آزاد انسان کی طرح اپنی مرضی سے زندگی بسر کر سکتا ہے۔ نہ جانے کتنا عرصہ اسے شک رہا کہ یہ نازیوں کی کوئی نئی چال ہے۔ شاید وہ اسے پوری طرح آزادی کا یقین دلا کر قتل کرنا چاہتے ہیں۔ یا پھر کچھ عرصے بعد وہ قہقہے لگاتے آئیں گے اور اس کا مذاق اڑا کر واپس قید میں ڈال دیں گے۔ اسے یہ یقین پھر سے حاصل کرنے میں کئی سال لگ گئے کہ اب وہ حقیقی آزادی سے ہمکنار ہو چکا ہے۔
یہ ایک فرد کی مثال تھی جسے مسلسل اذیتوں، دھوکے، بھوک، بیماری اور ظلم کی حالت میں رکھا گیا جس کے نتیجے میں امید، خوشی اور یقین کی مثبت جبلتیں اس سے روٹھ گئیں۔ اگر تجزیہ کیا جائے تو پاکستانی معاشرہ بھی ایسی ہی منفی نفسیات کا شکار ہو چکا ہے۔ ہماری اشرافیہ نے پاکستان بننے کے بعد سے اب تک عام انسان کے ساتھ دھوکہ ہی کیا ہے، اس سے مسلسل جھوٹ بولے گئے، اسے بھوک میں رکھا گیا، پولیس کے ذریعے اسے خوف میں رکھا گیا جس کے نتیجے میں اس کے اندر مثبت جذبے دھیرے دھیرے مرتے گئے۔
یہی وجہ ہے کہ کسی لمحے اگر ہمارے معاشرے کو خوشی اور مسرت کی خبر ملے تو فوراً اس میں سازش کے تانے بانے تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کے دوست ممالک اس گرداب سے نکالنا چاہتے ہیں جس میں وہ پھنس چکا ہے لیکن مدد کو بڑھا ہوا ان کا ہاتھ وہ بری طرح چھٹک دیتا ہے کیونکہ اس مدد کے پیچھے اسے گھمبیر سازشوں کے مبہم ہیولے رقص کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ امید کی کرنیں جب بھی اس کی زندگی میں داخل ہونے لگتی ہیں وہ اپنے اوپر مایوسیوں کی ردا اوڑھ لیتا ہے اور اس بات کو یقینی بنا لیتا ہے کہ کوئی بھولی بھٹکی کرن اس کی ذات کو مس نہ کر سکے۔
ملالہ یوسف زئی کو نوبل انعام ملنے پر ہم نے بطور قوم جو ردعمل دیا ہے وہ اس مریضانہ نفسیات کی کلاسیکل مثال ہے۔ دنیا کا کوئی بھی نارمل معاشرہ قومی سطح پر ملنے والی اتنی بڑی خوشخبری پر بہت عظیم جشن مناتا لیکن ہم نے منہ بسور کر اس چھوٹی سی بچی کو وہ طعنے دے ڈالے کہ اب وہ پاکستان واپس آتے ہوئے بھی ہچکچا رہی ہے۔ کئی سال گزر چکے لیکن ہم اسے اپنانے کو آج بھی تیار نہیں ہیں اور مسلسل سازشیں تلاش کر رہے ہیں۔
دنیا ہمیں بار بار کہہ رہی ہے کہ اپنی سرزمین سے دہشت گردی کرنے والے گروہوں کو ختم کرو لیکن ہم ہیں کہ اس بات کو ایک خندہ استہزا کے ساتھ ٹھکرا دیتے ہیں۔ ہمیں اس کے پیچھے بھی سازشوں کے ابنار مل جاتے ہیں۔ ہم یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ ایسے گروہوں کی اب دنیا کے کسی بھی حصے میں پذیرائی موجود نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا بوجھ ہے جسے اپنے شانوں سے اتارے بغیر ہم دور جدید میں داخل نہیں ہو سکتے۔
اس وقت پاکستان کا شاید سب سے بڑا مسئلہ ان مثبت جذبوں کو پھر سے جگانا اور منفی نفسیات سے چھٹکارا پانا ہے۔ یہ کام کیسے ممکن ہے، اس کا جواب تلاش کرنا اشد ضروری ہے تاکہ ہم بھی خوشی، اطمینان اور امید کی ٹھنڈی میٹھی پھوار میں رقص کر سکیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“