تخلیق کائنات سے ہی "مثبت اور منفی سوچ" کا آغاز ہوگیا تھا۔
جب خالق کائنات نے "آدم علیہ السلام" کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا ۔صرف ابلیس کے ذہن میں منفی خیال آیا کہ میں تو مٹی کے انسان سے زیادہ معتبر ہوں، میں سجدہ نہیں کر سکتا۔
اس منفی سوچ اور غرور سے وہ فرشتے سے شیطان بنا۔ تب سے ہی خیر و شر کا سلسلہ شروع ہوا۔
انسان فطرتاً معصوم ہوتا ہے۔ حالات و اقعات،سچ ،جھوٹ ، ظلم و زیادتی، برے تجربات ،گھریلو لڑائی جھگڑے اور اردگرد کا ماحول انسان کو غلط سوچوں پر لگا دیتے ہیں ۔
مثبت سوچ والے انسانوں میں نیکی ،خیر ،بھلائی،اخلاق ،ہمدردی اور ہر وہ اچھی خصوصیات پائیں جاتیں ہیں جس سے وہ دنیا اور آخرت سنوار سکتا ہے۔
مثبت سوچ نہ صرف آ گے بڑھ کر کامیابی کا جزبہ دیتی ہے بلکہ سکون زندگی سے بھی ملتا ہے۔ کیونکہ جب انسان دوسروں کی خوشی میں خوش ہوتا ہے تو اس کے جسم میں ایسے مادے پیدا ہوتے ہیں۔ جو اسے تندرست و توانا رکھنے کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون بھی دیتے ہیں۔ جب ایک انسان مثبت سوچ رکھتا ہے تو اردگرد بھی مثبت تبدیلیاں لانے کا باعث بنتا ہے ۔
"بل فیٹس" کا قول ہے
"ان لوگوں کے لیے کامیاب ہو جو تمہیں ناکام دیکھنا چاہتے ہیں ۔"
پر ہم اکثر لوگوں کو گلے شکوے کرتے ہی پاتے ہیں۔ میرے نصیب میں دکھ کیوں ،میرے ساتھ ہی یہ کیوں ہوا وغیرہ، تو حقیقت میں یہ سب بہانے اور منفی خیالات کا اظہار ہیں۔ کامیاب لوگ اپنی صلاحیت اور اوقات دیکھتے ہیں نہ کہ دوسروں پر باتیں کرتے ہیں ۔
دوسری طرف مثبت ہونے سے ایک تو لوگوں کی نظر میں انسان کی قدر ہوتی ہے۔ دوسرا اللّہ کی طرف سے خوشنودی بھی ملتی ہے۔
منفی سوچ کا مالک انسان شر پسند اور بغض رکھنے والا ہوتا ہے۔ ایسا انسان نہ تو خود خوش رہتا ہے نہ ہی دوسروں کی خوشی ہضم کر سکتا ہے۔ دوسروں کی خوشی کی خبر سنتے ہی ان کے چہرے کے تاثرات حسد سے بدل سے جاتے ہیں۔
سائنس ایسے لوگوں کے بارے میں کہتی ہے کہ ایسے لوگوں میں انتہائی نقصان دہ مادے پیدا ہوتے ہیں۔ جو انسان کو بہت جلد بوڑھا ،بد صورت اور بے شمار بیماریوں میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
اس کو ایک مثال سے واضح کرتی ہوں ۔
اگر ہم ایک خوبصورت دیوار کو ہاتھوں سے مُکے مار کر گرانا چاہیں تو کیا گرا پائیں گے؟ ہر گز نہیں کیونکہ اس سے دیوار تو گرے یا نہ ، پر ہم اپنے ہاتھوں کو ضرور زخمی کر لیں گے۔ جس سے دیوار کا تو کچھ نہیں بگڑے گا پر ہمارا ضرور نقصان ہوگا ۔
مثبت سوچ سے انسان دوسروں کی خوشی سے خوش ہوتا ہے تو اس کا چہرہ بھی کھلکھلا جاتا ہے اس لیے عورتوں کے لیے بے حد ضروری ہے کہ وہ مثبت سوچ اپنا کر خوش رہیں اس سے جھریوں اور دوسرے چہرے کے مسائل سے پچ کر صرف مسکراتے ہوۓ ہی چہرے کو شاداب بنا لیں گیں ۔
کسی کو اچھا مشورہ دینا بھی ایک مثبت عمل ہے ۔جس سے اگلے کی بھلائی ہوتی ہے۔ انسان کو صدقہ جاریہ کا ثواب بھی ملتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے پیار، اتحاد اور اچھی سوچ اپنائی ترقی کرتی گئیں۔ لیکن جیسے ہی بغض ،لالچ اور خود غرضی کو اپنایا، ذلیل و رسوا ہوۓ۔
ایک بزرگ سے کسی نے کہا کہ فلاں شخص آ پ کو برا بھلا کہہ رہا ہے ۔تو بزرگ نے مسکراتے ہوۓ کہا اس کی یہی سزا ہے کہ وہ برائی مجھے نہ سناؤ کیونکہ اس نے برائی میری کی خون اس کا جلا۔
بغض مجھ سے رکھا نقصان اپنی روح کو دیا ۔اور اپنے خلاف خود ہی اپنے جسم میں اس نے زہر بھر دیا۔ جس کا اثر دیر تک رہ جاۓ گا۔
زندگی صرف ایک بار ملی ہے اسے اپنے لیے جینا ہے دوسروں کے لیے نہیں۔ مطلب جب دوسروں کی زندگی سے کیڑے نکالنے بیٹھ گئے تو اس کا مطلب اپنا قیمتی وقت دوسروں پر لگا دیا اور اپنے لیے بہترین فیصلے کا وقت ہاتھ سے نکال دیا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...