مرکزی کردار ۔۔۔۔۔ پڑھا لکھا شوہر اور دانشور بیوی ۔۔۔۔۔۔
لوکیشن ۔۔۔۔۔ ایک ریسٹورنٹ ۔۔۔ جہاں دن میں بھی نیم اندھیرا رہتا ۔۔۔ وہاں "سیلف سروس" تھی ۔۔۔ ایک کپ کافی اور ایک جمبو سائز برگر لے کر آدھا آدھا کھا سکتے اور گھنٹوں کا حساب کیے جب تک دل چاہے بیٹھے رہیں کوئی بھی اٹھنے کو نہیں کہتا تھا ۔۔۔۔۔
پہلا سین ،
مدھم بلب کی روشنی میں دانشور بیوی دکھائی دیتی ہے ۔۔ خوب صورت و پر کشش چہرہ ۔۔ جدید فیشن کا سوٹ زیب تن کیے اور نفاست سے میک اپ کیے صوفہ نما کرسی پر بظاہر آرام سے بیٹھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
"میں مرنا چاہتی ہوں ۔۔۔ یا پھر جینا چاہتی ہوں ۔۔ اور یہ دونوں کام مجھے تم کرنے نہیں دیتے ۔۔ "
" پڑھا لکھا شوہر " ۔۔۔ جو مردانہ وجاہت کا بہترین شاہ کار تھا ، اس کی نظروں میں خاص کشش تھی اور چہرے پر خوش حالی کی آسودگی جھلک رہی تھی ۔ اس وقت وہ قدرے غصہ آمیز الجھن کے انداز میں سامنے بیٹھے کردار کو گھور رہا تھا ۔۔۔۔۔
"میں نے تم پر کب پابندی لگائی ہے ؟ تم اپنی مرضی کی مالک ہو ۔۔ جیسے چاہتی ہو ویسے کرتی ہو ۔۔ میں تمھیں سمجھاتا بھی ہوں کہ دنیا میں اور بھی موضوعات ہیں ان پر لکھو، پر تم صرف جنسی نفسیات اور معاشرتی کوڑھ پر لکھتی ہو ۔ ۔ کیوں لکھتی ہو اتنا کڑوا سچ ـ ۔۔۔ ؟ پھر خود ہی اس کی کڑواہٹ سے بلبلانے لگتی ہو،،، کیوں گھریلو عورت نہیں بن جاتی…"
"کیوں اتنا سچ لکھتی ہوں ۔۔۔ کیونکہ ہماری چوڑیاں تمھارے جیسے قلم کاروں کے قلم نے پہن لی ہیں… اور وہ قلم بھڑکیلا میک اپ کر کے کھسروں کی طرح اپنے خریداروں کے آگے مجرا پیش کرنے لگا ہے …، اس لیے لکھتی ہوں میں کہ کم از کم عورت نہ سہی اس کا حوصلہ تو تم "مردوں" کے لیے مثال بنا رہے.. اور میں وہ ہی لکھتی ہوں جو دیکھتی ہوں تم اندھے ہو، وہی لکھتے ہو جو تمھارے کان سنتے ہیں، تمھیں اپنا قلم توڑ دینا چاہئیے.. ۔۔۔۔ تم کو نہیں معلوم گھروں میں کیا ہوتا ہے، مسلسل تین دن دال پھر تین دن سبزی اور ساتویں دن چاول پکانے کے چکر میں کتنے لوگ کتنا مرتے ہیں..، تم بھرے پیٹ قیامت کی باتیں اور اللہ کے بھیجے عذاب لکھو۔۔۔ تم امریکہ ، داعش ، شام ، ایران سعودیہ کے بین القوامی تعلقات جو رانڈ بازاری لگاؤ سے زیادہ نہیں کو عالمی اشد ضرورت لکھو۔ اور برتے ہوئے، بھرے ، لتھڑے کونڈم سے بھی غلیظ پاکستانی سیاست پر اپنے قلم سے کیچ اپ لگاؤ اور اپنے کالموں میں اسے روزانہ چباؤ…. تمھاری دنیا تو صرف اپنے بنگلے ، اپنےشاندار دفاتر اور پر تعئیش کلبز ہیں….
۔۔۔ تم گھروں میں پامال ہوتی بابرکت عزتیں نہ دیکھو ، کتنی بھابیوں کے بھایئوں نے ان کی جوان نندوں پر ہاتھ صاف کیے ، کتنی سالیوں کی کنواری جوانیاں ،اپنے بہنویئوں کی پینٹوں کے بیچ میں کچلی گیئں ۔ تم نہ دیکھو ، بھوک سے بے حال لوگوں کی غیرتیں پامال کیسے ہوتی ہیں ۔۔۔ اور مفلسی کیسے کردار بیچ کر جسموں کے کھیل کھیلنے پر مجبور کر دیتی ہے.. یہ تمھارے سوچنے کی باتیں تھیں "اے مرد" اے پدری نظام کے محور…. تمھارے سوچنے کی تھیں.. مذہب ہو یا سیاست ، ادب ہو یا بزنس ،ہر جگہ تم نے عورت کو ننگا کر کے ہی تو بیچا ہے ۔۔ کیا یہ سب تمھیں اور دوسرے "مردوں" کو نظر نہیں آتا ۔۔۔ شاید نہیں… اسی لئیے میں ، یعنی عورت سب دیکھتی ہوں اور سچ لکھتی ہوں ۔۔۔ تم جھوٹ لکھ لکھ کر اپنی کتابیں کالی کرو ۔۔۔ اور واہ واہ سمیٹو ۔۔ "
" تم ان ہی جذباتی باتوں میں گم رہتی ہو اور اسی لیے معاشرے میں کوئی مقام نہیں بنا سکی ہو ۔ سب تم کو میری بیوی کی حیثیت سے جانتے ہیں ۔۔ ۔۔مجھے دیکھو روز ایک فرمائشی کالم لکھتا ہوں ۔۔ اور ہزاروں کماتا ہوں ۔۔۔ جب کہ تمھارے ناول کا مسودہ اب تک کسی بڑے ناشر نے سلیکٹ ہی نہیں کیا ۔۔۔ پتا نہیں معاشرے کو سدھارنے کی کیا فکر ہے تم کو ۔۔۔ خود کو تو دیکھو پہلے ۔۔۔۔ "
"تمھاری سوچ کتنی محدود ہے ۔… زبان سے معدہ تک سوچتی ہے بس …. پڑھے لکھے ہو , کیا نہیں جانتے کہ سارا گند ہمارے ہاں معاشرہ کی بنیاد میں ہی ڈھونس دیا گیا ہے…..سچ بکتا نہیں یہاں اور جھوٹ تم جیسوں کو روز بروز مالدار بنا رہا ہے….ترقی یافتہ ملکوں میں تو فلسفہ سوچنے والا بھوکا نہیں سوتا…. ۔ سچے اور کھرے ذہین دماغوں کو کہا جاتا ہے کہ ملکی بہتری کے لیے سوچیں… قابل عمل باتوں پر غور و فکر کریں ۔ نت نئے خیالات اور باتیں سامنے لائیں ۔ اور ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے ۔…. تم سے چھپا ہوا تو نہیں کچھ، بس تم اندھے ہو گئے ہو۔۔۔۔۔ تم جانتے ہو ہمارا معاشرہ اور اس کے مردوں کی سوچ کیا ہے ؟ ۔ اگر عورت سامنے ہے تو ان کی سوچ اس کی چھاتیوں کے سائز میں اٹک جاتی ہے ۔ اور اگر وہ بولنا جانتی ہے اور سچ بول رہی ہے تو فتوا جاری کر دیا جاتا ہے کہ عورت بدکردار ہے ، چونکہ اس کو ہر اس بات کا علم ہے جسے جاننے کا اسے پیدائشی حق تھا سو اس کو مار دو کہ کہیں دوسری عورتوں کو بھی سکھلا نہ دے۔۔۔ تم اور تمھارے جیسے تو دوغلے ہیں…. ایک طرف کہتے ہو.. عورت عزت ہے، عورت کا جسم حرمت ،عورت کا کردار آفرین… اور دوسری طرف اسی عورت کا استحصال … اسی کے ساتھ بد کرداری ۔۔۔۔ تم اور تمھارے جیسے لوگ کیا سوچیں گے ۔ ۔۔۔ کیا فلسفہ ۔ کیا نیا پن ۔ کیاخیالات ۔۔۔ کیا فکشن ۔۔۔ کیا بدلے گا ؟ ۔۔ تم سب اب تک اسی دور میں جی رہے ہو جہاں عورت کو پیدا ہوتے ہی دفن کر دیا جاتا تھا ۔۔۔ آج بھی دیکھ لو لڑکی پیدا ہوتی ہے تو کتنے لوگ خوشی مناتے ہیں ۔۔۔ اسلام کے نام پر کھیل کھیلنے والے بھی سارا قرآن اور ساری سنتیں بھول کر بیٹی پیدا ہونے پر سوگ مناتے ہیں ۔ رحمت پیدا ہونے کا ۔۔۔۔ کیوں؟؟؟؟ ۔۔ کیوں کہ ان کو اس لڑکی میں اپنے کرتوت نظر آجاتے ییں ۔۔ کیونکہ زنا قرض ہوتا ہے، جسے نسل چکاتی ہے ۔۔۔۔ ہر گھر میں نہ جانے کتنی لڑکیاں دفن ہیں ۔ ۔ شادی سے پہلے تو مصیبت، عزت بچاتے رہو لٹیروں سے ۔ ۔۔ اپنی جوانی چھپاؤ اور جتنا چھپاؤ ، اتنا برہنہ کرتے ہیں۔ … یہ جنسی گھٹن نفسیاتی عارضہ تمھیں کیوں نظر نہیں آتا کہ تم جیسے مرد عبایا میں بھی عورت کو ننگا د یکھتے ہیں ۔۔۔ افف ….کیا کیا نہیں ہوتا ہے ۔ اور فلسفے اور نئی باتیں ۔ ۔۔ کیا جدیدیت ۔۔ کیا مابعد جدید ۔۔۔۔ انسانی اعلی رویے ۔ کچھ تخلیق ہو گا ….؟ ۔۔ وہ بھی اس گھٹن ذدہ معاشرے میں ۔۔۔ جس میں تم جیسے دوغلے اسٹیٹس مین اور نام نہاد مذھبی بستے ہیں… ادب کے نام پر ۔۔۔ بڑے بڑے مزاکرات کروائے جاتے ہیں ۔ ۔ مشاعروں میں شاعرات کے چہرے سے اور جسم سے آگے سوچ جاتی نہیں کسی مرد کی ۔۔۔ ہمارے ادیب کیا سوچیں گے؟؟؟؟ ۔ صرف لفظوں سے کھیلتے ہیں ۔ اور پاک کمائی سے راتوں میں رنڈیاں بغلوں میں لے کے سوتے ہیں ۔ صبح فجر کی اذان پر مسجدوں میں سجدے کرتے ہیں ۔ ایسے دوغلے منافق لوگ کیا بدلیں گے معاشرہ ۔ جو آج تک خود کو نہیں بدل پائے ۔۔"
"مجھے تمھاری بے کار تقریریں سننے کا شوق نہیں ۔۔۔۔ ان باتوں سے آخر میرے گھر کا کیا تعلق ۔۔۔ میرے گھر کو کیوں برباد کر رہی ہو ۔۔۔ تم اگر یہ باتیں سوچتی ہو تو کوئ بڑا کام نہیں ہے ۔۔ پتا نہیں اپنے منہ میاں مٹھو بننے کا کیوں شوق ہو گیا ہے تم کو ۔۔۔ اپنے بچوں کی اسلامی طریقوں سے تربیت ہی نہیں کرتی ہو ۔۔ پورا گھر ماسیوں کے حوالے کردیتی ہو ۔۔ عورت کا کام ہے گھر سنبھالنا ۔ تم کچھ کرتی ھی نہیں ۔۔ ۔سوائے پیپ زدہ لکھنے کے… "
" اوہ ۔۔۔ میں تو بھول گئی تھی کہ تم میرے شوہر ہو ، اور ہر مشرقی عورت کا شوہر اپنی بیوی کے لیے بے حس ، سنگ دل اور حاکم ہو تا ہے ۔۔۔ "
" وہی فضول شکوے اور شکایات ، ناشکرے پن کی بھی انتہا ہے ، اسی لیے عورتیں دوذخ میں جایئں گی ۔۔ "
" عورتیں بے شک دوذخ میں جایئں گی ، پر ابھی سے کیوں ان کی زندگی عذاب کرتے ہو اور میں آج شروع نہیں ،ختم ہو رہی ہوں ۔۔۔۔ میں بھی روز روز کے عذاب نہیں جھیل سکتی ہوں ، ہر وقت مجھے ڈی گریٹ کرتے ہو ۔۔ میری صلاحیتیں ۔ میری خوب صورتی اور سچائی ۔ میرا خلوص اور کردار ۔ تمھارے نزدیک ۔۔ ان کی کوئ حیثیت نہیں ۔ میرے سوچنے سے ۔ میری ذات سے ، میری تحریروں سے تم کو کوئی لگاؤ نہیں ۔ تم نے تو میرے ناول کا مسودہ بھی نہیں پڑھا ۔۔۔تم میری شخصیت کو دبا کر ، مجھ پر ہر وقت تنقید کر کے مجھے نفسیاتی مریضہ بنانا چاہتے ہو ۔۔ اسی لیے تم سے کہا ہے کہ یا تو مجھے جینے دو یا مجھے مرنے دو ۔۔ اور تمھارے ساتھ رہ کر میں یہ دونوں کام نہیں کر پا رہی ہوں ۔۔ میں روز انہ تم کو نہیں بتا سکتی کہ بچوں کے کیا کیا کام کرتی ہوں ، اور کیسے گھر سنبھالتی ہوں ۔۔ مجھے جتانا نہیں آتا ۔۔ "عورت کی مٹی میں گندھنا ہے، اڑنا نہیں , میں , میرا وجود تم کو دکھائی نہیں دیتا ۔۔۔ میں آخر کروں کیا ۔۔۔ ؟ اور کتنی شکایتیں ہیں مجھ سے ، بتا دو آج ۔۔ ـ"
"تم کو میری قربت سے ذرا رغبت نہیں ۔۔۔ جب بھی تم کو چھوتا ہوں ۔۔ تم کو برا لگتا ہے ۔۔ میں شوہر ہوں ۔ تمھارا مجازی خدا ۔ تمھارے جسم پر میرا پورا حق ہے ۔ مگر میں جانور نہیں بن سکتا ۔۔ تم مجھے جھڑک دیتی ہو ۔کبھی ترس کھا بھی لیتی ہو تو ۔۔۔ ۔ بعد میں بولتی ہو کہ تشفی نہیں ہوئی۔۔۔ مرغ اپنی جان سے جاتا ہے اورکھانے والے کو مزا بھی نہیں آتا۔۔۔۔ـ"
" تم اتنے سالوں سے ایک ہی عورت کے جسم کو رگڑ رہے ہو ۔۔۔ دل نہیں بھرتا ۔۔۔۔۔ تمھارا ۔۔۔ کبھی تو مجھے تم پرترس آجاتا ہے ۔۔"
" کاش تم ترس نہ کھاؤ ، سچی محبت میں میرے پاس آؤ ۔۔۔ مگر تم کو تو اپنے فضول کاموں سے ہی نجات نہیں ملتی ۔۔ سماج سوچ سدھارنے کا جنون سوار ہے تم پر ۔۔۔ ساری دنیا کے مسائل نظر آتے ہیں ۔ اپنے شوہر کی خواہشات کا ، اس کی پسند کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے ۔۔ کب تک چلے گا یہ ۔۔ ـ"
" آج تم کو کہہ دیا ہے ، چھوڑ دو مجھے ۔۔ اور ختم کرو اس مصنوعی رشتے کو ۔۔ کیوں نہیں چھوڑتے ہو ؟ تم جیسا خود غرض کوئی دوسرا نہیں ہو گا ، صرف اپنی خواہشات نظر آتی ہیں ، اور کتنا احترام کروں تمھاری خواہشات کا ۔۔۔ مجھے بتاؤ ۔۔۔ مگر اب وہ سب باتیں دہرانے کا وقت نہیں ، مجھے آزاد کرو اور خود کوئی نیا جسم ڈھونڈ لو ۔۔ بچوں کو اپنے پاس رکھنا چاہو تو رکھ سکتے ہو ۔۔۔ میرے حوالے کرنا ہیں تو بھی مجھے اعتراض نہیں ۔۔ "
" یہ تمھارا آخری فیصلہ ہے ؟ میں دوسری شادی کر لوں ، اور تم کو آزاد کر دوں ؟ "
"ہاں ۔۔۔ ہاں ۔۔۔ میرا آخری فیصلہ ہے ۔۔۔ "
اچانک بیوی کا کردار اٹھا اور اپنا ہینڈ بیگ اپنے کاندھے پر لٹکا لیا ۔۔ نیم اندھیرے میں ریسٹورنٹ کا ماحول مزید سوگوار ہو گیا ۔۔
دوسرا سین ،
دونوں کردار ، ہارے ہوئے جواریوں کی طرح ریسٹورنٹ سے باہر کھلی ہوا میں آگئے ۔۔۔اور ایک دوسرے کی سمت دیکھے بغیر ، ایک ہی راستے پر واپس جانے لگے … ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1717511155182251/
“