جب سے ہندوستان میں کورانا وائرس کا حملہ ہوا ہے اس وقت سے ہی ہندوستان میں یک طرفہ سیاست بھی تیز ہوگئی ہے فرقہ پرست طاقتیں اس وبا میں بھی اپنا جلوہ بکھیرنے میں ذرہ برابر بھی کوتاہی سے کام نہیں لے رہی ہے موقع ملتے ہی اپنا زہر اگلنے لگتی ہے جس سے پوری فضا مکدر ہو جاتی ہے پھر ہر طرف سے کشت و خون کی بدلی چھانے لگتی ہے اور ایک طبقہ پر اپنا وار دکھاتی ہے ، ابھی چند روز گزرے نہیں ہیں جبکہ مسلمانوں کو سرخیوں میں لایا گیا تھا ، تبلیغی جماعت کے بہانے ہر طرف سے ان پر حملے ہو رہے تھے یہاں کی شیطان میڈیا دن و رات ایک ہی نیوز دکھا رہی تھی جو مسلمانوں کی بدنامی اور اس کی رسوائی پر مشتمل تھی، جماعت تبلیغ کا تو میڈیا نے اس قدر دھجیاں اڑائی کہ ۔ اللہ کی پناہ۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ تبلیغی جماعت کورانا وائرس سے بڑھ کر وبا ہے ، خدا خدا کرکے یہ معاملہ کسی طرح ٹھنڈا ہوا نیوز چینلز پر بھی یہ ہنگامہ ختم ہوا لیکن جو زہر چھڑکا گیا تھا وہ عوام میں اب بھی باقی ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے ان کی دکانیں سل کی جارہی ہیں ان سے خرید وفروخت کو منع کیا جارہاہے اور آگے نہ جانے کیا ہوگا۔ اللہ حفاظت فرمائے۔۔
چونکہ تبلیغی جماعت نے اپنے کردار سے یہ ثابت کردیا کہ وہ امن کے خوگر ہیں ایثار و قربانی ان کا شیوہ ہے دوسروں کی جان کے آگے اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے تو پھر میڈیا میں زہر افشانی کا جو سیلاب آیا تھا وہ تھم گیا لیکن سیاسی غنڈوں کو یہ کب راس آتی ان کا تو کام ہی ہے مسلمانوں کو سرخیوں میں لانا ان کے خلاف زبان درازی کرنا اب انہوں نے ایک گیدڑ کی چال چلی وہ یہ کہ دکانیں کھولنے کی اجازت دے دی، تاکہ مسلمان عید کی خریداری کرسکیں اور اپنا تہوار خوشی خوشی منا سکیں،
مگر افسوس ہے مسلمانوں کی عقل پر وہ اس چال کو سمجھنے میں ناکام ہو گئے اور اگر کسی نے سمجھانا بھی چاہا تو اس کو ٹھکرا دیا اور دکان کھلتے ہی ٹڈیوں کی طرح سڑکوں پر اتر آئے جیسے کبھی دکان داری کی نہ ہو یا کبھی نئے کپڑے خریدے نہ ہوں، نتیجہ یہ سامنے آیا کہ کسی شہر کے دکان میں پردہ نشیں خواتین شاپنگ کرنے گئ پھر یوں ہوا کہ اچانک پولیس آگئی اور اس شاپنگ مول کو بند کروا دیا اندر میں پردہ نشیں خواتین رہ گئ بلاآخر چھت کے کسی گوشے میں ایک کھڑکی تھی جہاں سے وہ کود رہی تھی اور مرد حضرات اس کی کمر پکڑ کر اس کو زمین پر اتار رہے تھے ،، میں یہ منظر ایک ویڈیو میں دیکھ رہا تھا پورا دیکھ بھی نہیں سکا آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہ پڑا دل سے ایک آہ نکلی ۔۔ تصورات کی دنیا میں گم ہوگیا ۔۔ ہاے رے بے عزتی ۔۔ شرارت پسندوں نے اس ویڈیو کو خوب وائرل کیا مسلم خواتین کا خوب مذاق اڑایا اور مزے لے لے کر خوب قہقہے لگائے،
مسلمانوں۔۔
تم کیا کررہے ہو شاید آپ نے بھی اس ویڈیو کو دیکھا ہوگا اور اگر آپ میں غیرت نام کی کوئی چیز ہوگی تو ضرور دل میں کپکپی طاری ہوئی ہوگی اور شرم سے نگاہیں جھکی ہوں گی، آخر چاروں طرف سے ہمارے اکابرین ہمارے پیشوا ہمارے رہنما یہ صدا لگا رہے ہیں کہ ۔ دکان کھولنا ایک سیاست ہے یہ مسلمانوں کی معاشی حالت کو کمزور کرنے کی سازش ہے ۔ مسلمانوں کو پھر سے سرخیوں میں لانے کی طرف ایک قدم ہے ان کے خلاف ہنگامہ مچانے کی کوشش ہے ۔۔
تو پھر مسلمانوں تم سمجھ کیوں نہیں رہے ہو ، کیا تم پھر سے رسوا ہونا چاہتے کیا دشمنوں کو پھر سے موقع دینا چاہتے ہو ،، اب بھی مان جاؤ ۔۔ خدا را مان جاؤ۔۔
عید کی خریداری سے باز آجاؤ ۔۔ آج آپ سب کچھ ختم کر لیں گے کل دن آپ کو بھیک مانگنے پر مجبور ہونا پڑیگا، آخر تمہیں عید کی خوشی کیوں ہے،،
جبکہ تمہاری مسجدوں پر پابندی ہے تمہاری عبادتوں پر پابندی ہے تم جمعہ بھی جمعیت کے ساتھ ادا نہیں کرسکتے تراویح کو بھی جمعیت سے الگ کردیا گیا ہے،
معلوم نہیں عید بھی نصیب ہو یا نہ ہو تو پھر خوشی کس بات کی؟ حکومت نے ایک طرف تو تمہاری عبادتوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور دوسری طرف دکانوں کو کھولنے کی اجازت دے دی ہے آپ اس سازش کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟
خدا را۔۔ اپنے رہنماؤں کی بات مان کر اس پر عمل پیرا رہیں اسی میں عافیت ہے نہیں تو پھر بعد میں شور مچانے سے کوئی فائدہ نہیں،
آپ عید کی خریداری میں لگے ہوئے ہیں ، ذرا ان غریبوں کو دیکھیں لاک ڈاؤن میں جن کی روزی روٹی چھن گئی ہے جو دانے دانے کے محتاج ہیں اگر آپ کو اللہ نے دیا ہے تو انہیں غریبوں کی مدد کریں اور اسی کو اپنی عید سمجھیں،
خدا را مان جائے ۔ مان جائیے۔ مان جائیے،
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...