ہم میں سے اکثر مسلمانوں کے عظیم الشان ماضی کے بارے میں پڑھتے اور سنتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں۔ مذہبی رہنما اور مذہبی جماعتیں اکثر مسلمانوں کے عظیم ماضی کا ذکر کرتے ہیں تا کہ نوجوانوں کو کسی مطلوبہ عمل کے لئے اکسایا جا سکے۔ سیاستدان اس دور کو واپس لانے کے وعدے کرتے ہیں اور مصنف حضرات کبھی کبھار موجودہ دور کے برائیاں اجاگر کرنے کے لئے اس ترکیب کا استعمال کرتے ہیں۔ مگر ہم نے کبھی سوچا ہے کہ اس عظیم ماضی کی حقیقت کیا ہے۔
تاریخ کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہم کس ماضی کی بات کرتے ہیں۔ وہ ماضی جو کہ کتابوں میں موجود ہے یا پھر وہ ماضی جو کہ صرف ہمارے تصورات میں موجود ہے۔ کیونکہ وہ ماضی جو کہ کتابوں میں موجود ہے وہ تو ہرگز اتنا عظیم الشان نہیں جتنا کہ ہم سمجھتے ہیں۔ اور میں ان کتابوں کا ذکر کر رہا ہوں جو کہ مسلمانوں کی لکھی ہوئی ہیں نہ کہ متعصب اور مخالف غیرمسلموں کی تصانیف۔
آئیں دیکھتے ہیں کہ ہمارا ماضی کتنا عظیم ہے۔ سارے ماضی کا جائزہ تو میرے بس کی بات نہیں لہذا میں نے فیصلہ کیا کہ توجہ صرف دوسری صدی ہجری پر رکھی جائے۔ حالات تو پہلی صدی میں بھی کچھ بہتر نہ تھے مگر بھائی میں ذرا ڈرپوک آدمی ہوں۔ اور دوسری صدی (یعنی سال ۱۰۱ہجری سے ۲۰۰ ہجری تک )کا انتخاب اس لئے بھی کیا کہ پہلی صدی کے بعد قرون اولیٰ سے قریب ترین دور یہ ہی ہے۔ ویسے آپ کوئی بھی صدی اٹھا کر دیکھ لیں حالات ایک جیسے ہی ہیں۔
جب دوسری صدی ہجری کا آغاز ہوا تو مسلم دنیا پر حضرت عمر بن عبدالعزیز حکمران تھے جو کہ بلا شک و شبہ ایک انتہائی نیک اور باصلاحیت حکمران تھے جن کی پوری کوشش تھی کہ ان کی سلطنت میں کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی، زیادتی یا ظلم نہ ہونے پائے۔ مگر ان کا دور حکومت انتہائی مختصر یعنی صرف دو سال پر مشتمل تھا۔ تمام تاریخ دان اس بات پر متفق ہیں کہ ان کو خود ان کے اپنے خاندان بنو امیہ کے لوگوں نے زہر دے کر شہید کیا کیونکہ وہ ان کی اصلاحات اور طرز حکومت سے خوش نہ تھے۔
ان کی وفات کے بعد اگلے خلیفہ یزید بن عبدالمالک نے چالیس دن کے اندر اندر ان کی تمام اصلاحات منسوخ کردیں اور دوبارہ سے وہی ظلم، استحصال،اور اقربا ء پروری کانظام پوری قوت سے واپس آگیا جس کو ختم کرنے کی وہ کوشش کر رہے تھے۔ ان کے دور کے بعد سوائے ہشام بن عبدالمالک کے مختصر دور کے بنو امیہ کا تما م دور بد نطمی، بد انتظامی، ظلم و بربریت، بغاوتوں اور انارکی سے عبارت ہے۔ یہ تمام واقعات معروف مسلمان تاریخ دانوں ابن خلدون اور ابن سعد کی کتابوں میں تفصیل سے درج ہیں۔
بنو امیہ خاندان کی حکومت کے آخری چند سال بنو عباس سے شدید جنگوں میں گزرے ۔ یہ دور پورے عالم اسلام میں افراتفری اور انارکی کا دور تھا جس میں دونوں اطراف سے ہزاروں یا شاید لاکھوں افراد ہلاک ہوئے۔ اگر اس دور میں یہودیوں اور عیسائیوں نے افراتفری سے فائدہ اٹھا کر عالم اسلام پر حملہ نہیں کیا تو اس کی وجہ کسی مسلمان حکومت کا خوف نہیں تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت رومن سلطنت خود شدید زوال کا شکار تھی اور یہودی خود اس قدر بکھرے ہوئے تھے کہ وہ اس قسم کی حرکت کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
سنہ ۱۳۱ ہجری میں پہلے عباسی خلیفہ عبداللہ بن عباس نے اقتدار سنبھالا جسے اس کی بربریت اور درندگی کی وجہ سے سفاح کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اس کے اقتدار سنبھالتے ہی ہر طرف بغاوتیں شروع ہو گئیں اوراس کا پورا دور ان کی سرکوبی میں گزرا۔ ان بغاوتوں کو دبانے کے لئے ظالمانہ اور بے رحمانہ ہتھکنڈوں کا کھلے عام استعمال کیا گیا۔ ایک بار موصل شہر میں عباسی سپاہیوں نے جن کی قیادت اسمعیل ابن علی کر رہا تھا سینکڑوں عورتوں کے ساتھ زنا بالجبر کیا۔ تقریباٗتما م عباسی دور میں یہی صورت حال رہی۔
سنہ ۲۰۰ ہجری میں مسلم دنیا پر جعفر المامون حکمرانی کر رہا تھا جو کہ اپنے بھائی امین کو کئی سال کی جنگوں کی بعد ہلاک کر کے حکومت پر قابض ہوا تھا۔ ابن خلدون کے مطابق عبداللہ سفاح سے لے کر مامون کے دور کے درمیان مختلف مسلم قبائل اور قائدین کی طرف کم از کم ۵۲ بڑی بغاوتیں ہوئیں جبکہ چھوٹی شورشوں کا تو کوئی حساب ہی نہیں تھا۔ سنہ ۲۰۰ ہجری میں ایک باغی سردار حسین بن افطس نے مکہ پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا اس کے سپاہی خانہ کعبہ کے اندر گھس گئے اور سب کچھ لوٹ لیا۔ مسجد حرام کے ستونوں پر لگے ہوئے سونے کے ورق تک اتار لئے گئے۔ خوبصورت خواتین کا تو ذکر ہی کیا مکہ شہر میں کم عمر لڑکوں تک لئے اپنی عزت بچانا مشکل ہو گیا۔ آخر کئی سالوں بعد اسحاق بن موسیٰ نے حسین بن افطس کو شکست دے کے ہلاک کیا اور مکہ شہر میں امن بحال کیا۔
ایسے واقعات کی ایک طویل فہرست ہے جس میں سے میں نے صرف چند ایک کا ذکر کیا ہے۔ ان واقعات کا ذکر کرنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے ادوار میں کوئی اچھا کام نہیں ہوا۔ یہاں ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ان ادوار میں بھی ایک عام مسلمان کی زندگی اتنی ہی پریشان کن اور مسائل سے بھری ہوئی تھی جتنی کہ آجکل کے مسلمان کی ہے۔ ان کا اسی طرح سے استحصال ہو رہا تھا اور ان پر اسی طرح سے ظلم ہو رہے تھے جس طرح سے آج ہو رہے ہیں۔ اس وقت کی نوکرشاہی بھی آج کی نوکرشاہی کی طرح بدعنوان اور بدکردار تھی اور چند ایک حکمرانوں کے استثناء کے ساتھ اس وقت کےزیادہ ترحکمران آج کے حکمرانوں کے طرح ظالم عیاش اور اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوتے تھے۔
عوام اکثر اقتدار کی خاطر ہونے والی جنگوں میں دونوں طرف سے پستے تھے اور سپاہیوں کی طرف سے مفتوح یا متحارب علاقوں میں رہنے والی خواتین کے ساتھ اجتماعی زنا بالجبر کے واقعات بھی ہوتے رہتے تھے۔ اور یہ ذکر مسلمان سپاہیوں کا ہے غیر مسلم سپاہیوں کا نہیں اور یہ سب جنگیں بھی مسلمانوں کی آپس کی جنگیں ہوتی تھیں۔
اس دور کی تمام عظمت چند شہروں اور ان میں رہنے والے ایک مخصوص طبقے تک محدود تھی۔ اور ہماری موجودہ تواریخ میں اسی مخصوص طبقے کی کامیابیوں اور عظمتوں کا ذکر ہوتا ہے۔ عام لوگوں اور عام مسلمانوں کا اور ان کے مسائل کا اور ان کے ساتھ ہونے والے مظالم کا ذکر ان تواریخ سے بالکل غائب ہے۔ اس دانشورانہ بد دیانتی کا مقصد صرف یہ ہے کہ عوام بالخصوص نوجوانوں کو بے وقوف بنایا جا سکے تاکہ وہ ان سیاستدانوں اور نام نہاد مذہبی رہنماوں کے مفادات کی آگ کا ایندھن بنتے رہیں۔ حقیقت تو یہ کہ آ ج اگر کسی طرح وہ سنہرا دور واپس بھی آجائے تو عوام کی حالت میں ٹکے بھر بھی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اقتدار اور اس کے فوائد اسی طرح چند ہاتھوں میں مرکوز رہیں گے کیونکہ اس وقت بھی ایسا ہی تھا۔
وقت آگیا ہے کہ ہم ماضی کی طرف دیکھنا چھوڑیں اور مستقبل کی طرف اپنی توجہ مرکوز کریں۔ ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاھئے کہ دنیا کی تمام اقوام کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کا ماضی بڑا عظیم تھا۔ ہندو آج بھی چندگپت موریہ اور اشوک کے دور کو یاد کرتے ہیں، عیسائی بازنطینی سلطنت کے گن گاتے ہیں اور یہودی حضرت سیلمان کے دور کو واپس لانے کے لئے کوشاں ہیں مگر اس کے ساتھ یہ بھی کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ان کے عظیم الشان ماضی میں بھی عوام کی حالت دگرگوں ہی تھی۔
آج کے دور میں کسی بھی قوم یا ملک کے عظیم ہونے کا پیمانہ ایک ہی ہے اور یہ کہ وہاں عوام کو کس قدر سہولتیں حاصل ہیں اور وہ کس قدر خوش ہیں نہ کہ یہ کہ اس کا ماضی کیسا تھا اور ہر قوم اور ہر ملک کو صرف یہی عظمت حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے اور جو کوئی بھی اس کے برعکس کوشش کرے گا وہ چاھے کوئی بھی ہو عوام کا دشمن ہے۔