Pope Sylvester II کی کتاب Chris Lowney) مندرجہ ذیل مضمون میں امریکی مصنف کرس لونی
“A Vanished World: Muslims, Christians, and Jews in Medieval Spain)
کے ایک باب کا ترجمعہ، تلخیص، اور اس پر مختصر تبصرہ ہے)
آج کل جہاں بھی چند مسلمان مل کر بیٹھتے ہیں تو ان کے درمیان ہونے والی گفتگو میں مسلمانوں کی زبوں حالی کا تزکرہ شامل ہوتا ہے۔خوب گفتگو ہوتی ہے اپنی مخالف قوم، فرقہ، مسلک، زبان بولنے والوں، یا ملک پر سار ملبہ ڈالا جاتا ہے یا غیر مسلموں کی سازش بتائی جاتی ہے اور محفل اس نتیجہ پر پہنچ کر ختم ہوتی ہے کہ کچھ نہیں ہونے والا۔ زیادہ تر باتیں لوگوں کی سنی سنائیں ہوتی ہیں اور بنا کسی تصدیق کے آگے بڑھادی جاتی ہیں۔ اس کا مجموعی اثر یہ نکلتا ہے کہ مایوسی در مایوسی دیکھی جاسکتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دوسری قوموں پر تاریخ میں برا وقت نہیں آیا؟ اگر آیا تو وہ قومیں اپنے تاریک دور سے کیسے نکلیں؟ ویسے تو اگر مسلمان قرانِ کریم کا مطالعہ صرف ثواب کی نیت سے کرنے کے ساتھ ساتھ حکمت اور دانائ حاصل کرنے کی نیت سے بھی کریں تو یہ مسلمانوں کے لئے کافی ہوگا، لیکن حکمت و دانائ اگر حاصل کرنی ہے تو قرانِ کریم کو طوطے کی طرح پڑھنے کی بجائے سوچ سمجھ کر، غور و فکر اور فہم و تدبّر کے ساتھ کرنا ہوگا۔ جب سمجھ میں آنے لگے گا تو عمل کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان قوموں کی تاریخ کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے جو کسی زمانے میں جہالت کی گہرائیوں میں تھیں لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ وہ دنیا کے نقشے پر ایک خوشحال اور طاقتور قوم کی حیثیت سے دیکھی جاسکتی ہیں۔ وہ کیا عوامل تھے جن کی وجہ سے یہ قومیں جہالت کے اندھیروں سے نکلیں۔ وہ کون روشن خیال اور دانا لوگ تھے جنھوں نے قوم کے مرض کی تشخیص کی اور قوم کے علاج کی کوشش کی۔
اس سلسلے میں مسلم اسپین کی تاریخ کے ان گوشوں کا مظالعہ کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا جن میں علو و فنون کو مسلم اسپین سے یورپ منتقل کیا گیا۔ مسلم اسپین کے دور میں اُن عیسائیوں میں سے ایک پوپ سلویسٹر دوئم تھے جنھوں نے علم حاصل کرنے کی اہمیت کو پہنچانا اور مسلمانوں سے ریاضی، اور الجبرا کی اُس وقت کی جدید تعلیم حاصل کرکے اس علم کو یورپ منتقل کیا۔ ان کی زندگی کا اگر آج کے وہ مسلمان جو نارتھ امریکہ، یورپ، اور آسٹریلیا میں مقیم ہیں مطالعہ کریں تو اُن کی اپنے اہلِ وطن کے حوالے سے ایک اہم ذمّہ داری بنتی ہے، اور وہ ہے مغرب میں موجود علوم و فنون کو اپنے لوگوں کو منتقل کرنا۔
اگر مسلمانوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اسپین میں مسلمانوں نے جو عرصہ گزارا ہے وہ بہت دلچسپ ہے۔ خاص طور پر تاریخ کا وہ گوشہ جس میں یورپ میں موجود چند روشن خیال عیسائیوں نے اسپین میں موجود مسلمانوں کی علمی اور سائنسی برتری کو تسلیم کیا اور اُس علم کو حاصل کرنے کی سعی کی۔ یہ کچھ روشن خیال اور تعصب سے پاک لوگ تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ اُس علم کو یورپ میں اپنے لوگوں میں منتقل کیا جائے تاکہ اُن لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی آسکے جو برسوں سے فرسودہ روایات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور اگر اسی طرح سے جکڑے رہے تو اُن کی اور اُن کے آنے والی نسلوں میں سوائے اندھیرے کے کچھ نہیں ہے۔
کچھ ایسی ہی صورتِ حال پاکستان میں بھی ہے کہ پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد علم کی اہمیت سے بے بہرہ ہے اور اگر اُنھوں نے علم حاصل نہیں کیا تو آنے والے وقتوں میں اُن کا کوئ مستقبل نہیں۔ ایسے میں وہ پاکستانی جو ترقّی یافتہ ملکوں میں سکونت اختیار کر گئے ہیں اُن پر اپنے لوگوں کا حق بنتا ہے کہ وہ پاکستانیوں کو دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور ترقی کے بارے میں آگاہ کریں اور اُن کو علم کی اہمیت کے بارے میں بتائیں۔
آئیے مطالعہ کرتے ہیں کہ مسلم اسپین سے پوپ سلویسٹر نے کیسے اس زمانے کے جدید علوم و فنون حاصل کئے اور اپنی قوم کو علم کی روشنی سے روشناس کروایا۔
پوپ سیلوسٹر دوئم فرانس کے وسطی علاقے سینٹ سائمن کے قریب ایک قصبے بیلی ایک (Belliac) میں 946 عیسوی میں پیدا ہوئے۔ اُن کا ابتدائ نام گربرٹ (Gerbert) تھا لیکن بعد میں پوپ سیلوسٹر کے نام سے مشہور ہوئے۔ وہ پوپ کے عہدے پر فائز ہونے والے پہلے فرانسیسی تھے۔ وہ انتہائ ذہین تھے۔ بارسلونا کے کاؤنٹ بوریل نے فرانس کے ایک علاقے آریلیک (Aurillac) میں آپ کو بینیڈکٹنی خانقاہ میں دیکھا اور آپ کی قابلیت سے متاثر ہوئے اور آپ کو مزید تعلیم کے لئے اسپین کے عیسائ کنڑول والے علاقے کی ایک خانقاہ لے گئے جو مسلم اسپین کے ساتھ ہی تھی۔ وہاں کے عیسائ علماء بلا شک و شبہ اندلس کی علمی برتری کو تسلیم کرتے تھے۔ اُن کی کوشش ہوتی تھی کہ اندلس سے نکلنے والے علم کو جمع کرکے اپنی لائبریری کی زینت بنا کر اپنی لائبریری کو عیسائیت کی اعلیٰ ترین لائبریری میں بدل دیں۔
گربرٹ کا اسپین میں قیام ایک انتہائ اچھے موقع پر تھا۔ اسپین کی مرکزی عیسائ خانقاہ میں ایک عیسائ راہب ویجیلا (Vigila) سے منسوب ایک قلمی نسخہ موجود ہے جو 976 عیسوی کا بتایا جاتا ہے جس میں ہندوستانی نسل کے لوگوں کیریاضی (Mathematics) کی قابلیت کی تعریف کی گئ ہے۔
یہ بات اندازے سے کہی جاسکتی ہے کہ اعداد (numbers) کا نیا طریقہ اسپین کی خانقاہوں میں پہنچنے سے کم سے کم دس سال پہلے گربرٹ کے ہاتھوں آ چکا تھا۔ گربرٹ کی دانشورانہ فہم و فراست نے اعداد کے اس نئے نظام کو اپنانے میں دیر نہیں لگائ اور جس نے گربرٹ کے یورپی ہم وطنوں کا صدیوں کا وقت بچایا۔ رومن اعداد قبروں پر کھدے ہوئے تو شائد بہت بھلے دکھائ دیں لیکن ذرا ان کو تقسیمdivisionکے طویل سوالوں کو حل کرنے کے لئے استعمال تو کرکے دیکھیں۔ آج جو دنیا اعداد (numbers) استعمال کرتی ہے جنھیں عربی۔ ہندی اعداد کہا جاتا ہے یہ نہ صرف حساب کتاب کا ایک برتر طریقہ ہے بلکہ جگہ گھیرنے کی نسبت سے بھی رومن اعداد سے بہتر ہے۔ عربی ہندی اعداد کی برتری اس مثال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ کرکٹ کے میچ میں کسی ٹیم نے 334 رنز بنائے ہوں تو رومن اعداد میں اسے "CCCXXXIV" لکھا جائے گا۔ اس ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ٹی وی کی اسکرین پر اعداد و شمار اگر رومن اعداد میں دکھانے شروع کردئے جائیں تو کیا صورتِ حال ہوگی۔ اس کے علاوہ بھی عربی ہندی اعداد کے فوائد ہیں۔ ہر عدد کی جگہ اُس کی ویلیو کو بتاتی ہے، یعنی 334 میں 4 اکائ (unit) کی نمائندگی کر رہا ہوگا، درمیان کا 3 دھائ ((tenth، اور اُلٹے ہاتھ کا 3 سیکڑے (hundred) کی۔ اب جو رومن عدد "CCCXXXIV" ہے اس میں ایسا نہیں ہے اور یہ سمجھنے کے لئے مشکل ہے۔
گربرٹ نے مسلم اسپین میں دوسری علمی دریافتیں بھی کیں۔ وہ صرف ریاضی دان، فلسفی، اور راہب ہی نہیں تھا بلکہ دھاتوں کے بارے میں بھی اُس کو علم تھا۔ پینڈولم کی گھڑی کی ایجاد کو بھی اُن سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اُن کی شاندار ذہانت کو طاقتور حلقوں میں پسند کی نظروں سے دیکھا گیا جس نے ان کی پوپ بننے کی راہ ہموار کی۔ اُن کی خدمات رومن بادشاہ کے شہزادہ کے معلم کی حیثیت سے لی گئیں جو بعد میں Otto II کے نام سے روم کے بادشاہ بنے جس کے بعد اُس کے بیٹے کو بھی گربرٹ نے تعلیم دی جو بعد میں چل کر Otto III کے نام سے رومن بادشاہ بنا اور گربرٹ کے پوپ بننے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
پوپ بننے کے بعد بھی گربرٹ عربی ہندی اعداد کے نظام کو عیسائ دنیا میں متعارف نہیں کرواسکا۔ عیسائ یورپ اعداد کے روایتی رومن سسٹم کو ترک کرنے کو تیار نہیں تھا اور گربرٹ کی کوششیں رائیگاں گئیں۔ یہ یوروپین معاشرے کی اپنی روایات کی آندھی تقلید تھی جس کی پیروی میں وہ عربی ہندی اعداد کے نظام سے آنکھیں چراتے رہے اور ان میں سے کچھ نے تو گربرٹ کو کالا جادوگر بھی سمجھ لیا۔
گربرٹ عربی ہندی اعداد کی مدد سے ریاضی کے کئ (اُس وقت کی) پیچیدہ سوالات ذہن ہی میں حل کرسکتا تھا جس نے اُس کے ہم عصر عالموں کو حیران و ششدر اور خوف زدہ کردیا تھا۔ دیکھا جائے تو دسویں صدی کے پسماندہ یورپ میں یہ زیادہ سے زیادہ بڑے اعداد کی جمع تفریق سے زیادہ نہ تھی لیکن گربرٹ کے ہمعصروں نے پوپ سلویسٹر کی اس مہارت کی منفی تشریحات کیں۔ پوپ سلویسٹر کا انتقال 1003 عیسوی میں ہوا لیکن اُن کے مرنے کے بعد بھی کافی عرصہ تک اُن کی شہرت پر کالا جادوگر ہونے کی تہمت قائم رہی۔
صدیاں بیت گئیں جب یورپ نے عربی ہندی اعداد کو اپنایا۔ سولہویں صدی میں کہیں جا کر ہم دیکھتے ہیں کہ خواہشمند برطانوی والدین اپنے بچّوں کو برِاعظم یورپ میں اطالوی تاجروں کی زیرِ سرپرستی ضرب (multiplication) اور تقسیم (division) کی تعلیم کے لیئے بھیجتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر یوروپین اقوام کو اس برتر اعداد (number) کے نظام کو اپنانے میں اتنا وقت کیوں لگا؟ اس میں اجنبی تصورات کے لئے تعصب نے ظاہر سی بات ہے اپنا کردار ادا کیا۔ یہ بنیادی طور پر انسان کی نہ تبدیل ہونے کی جبلّت ہے کہ وہ تبدیلی کو روکتا ہے۔ اس کی موجودہ زندگی میں مثال امریکی شہریوں کی لی جاسکتی ہے کہ فٹ (feet)، یارڈ (yard)، اور میل(mile) کو وہ میٹرک سسٹم پر ترجیح دیتے ہیں، حالانکہ میٹرک سسٹم زیادہ آسان ہے۔
عربی ہندی اعداد کے یورپ میں فوری طور پر اپنائے نہ جانے کی کچھ منطقی وجوہات بھی تھیں۔ مثال کے طور پر کچھ ذارئع بتاتے ہیں کہ گربرٹ نے اعداد کا یہ نیا طریقہ ایک انتہائی اہم جز 'صفر' کے بغیر سکھا تھا. تاریخ دان اس کی وجہ سمجھنے سے قاصر۔ ایک امکان یہ ھے کہ گربرٹ صفر کے عدد سے واقف تو تھے لیکن شائد اس کی اہمیت ان پر واٖضح نہیں تھی۔ کیونکہ رومن گنتی میں صفر نہیں ہوتا۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ اُن کا واسطہ 'صفر' سے نہیں پڑا ہوگا۔ 976 عیسوی کے نسخے جس کا ابتدائ طور پر تزکرہ کیا گیا ہے اُس میں نو علامتوں کا تزکرہ ہے جو ہندستانی اعداد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ صفر کی اہمیت کا شائد صحیح اندازہ نہیں کیا جا سکا تھا اور اُس کو نکتہ کی صورت میں لکھا جاتا تھا۔ یعنی 304 کو 3.4۔ آیا گربرٹ صفر کو بلکل ہی نہیں جانتا تھا یا وہ اُس کی اہمیت سے آگاہ نہیں تھا یہ بات متنازعہ ہے۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس بنیادی عدد کے بغیر عربی ہندی اعداد کی ریاضی کے مسائل حل کرنے کی خصوصیت سے فائدہ اُٹھانا ممکن نہیں۔
سب سے زیادہ واضح وجہ یورپ کی عربی ہندی اعداد کے نظام کو اپنانے میں سرد مہری کی جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ اس کی اُس وقت اتنی ضرورت ہی نہیں تھی۔ حالانکہ عربی ہندی اعداد کے استعمال سے حساب کتاب انتہائ سادہ ہوگیا تھا لیکن یوروپین اقوام کو اتنی اس سارے حساب کتاب کی ضرورت نہیں تھی۔ اقتصادیات تباہی کے کنارے پر تھی۔ شہری زندگی کا وجود رومن سلطنت میں نہ ہونے کے برابر تھا۔ یورپ پر جاگیردارانہ نظام کا غلبہ تھا جو زراعت کی مدد سے غلبہ قائم کئے ہوئے تھا-چونکہ تجارت ناپید تھی تو نتیجتاً دکاندار، بینکر، اور تاجر طبقہ موجود ہی نہیں تھا جو حساب کتاب کے جدید طور طریقوں کو اپنانے کی سرپرستی کرتا۔
ایک اور مسئلہ فراڈ کا بھی تھا۔ رومن گنتی میں اعداد کا ھیر پھیر کرنا اتنا آسان کام نہ تھا جبکہ عربی ہندی اعداد میں صرف ایک عدد کی تبدیلی ہی بہت بڑا فرق ڈال سکتی تھی، جیسے $123 کا کسی کا قرضہ با آسانی $423 یا $723 میں تبدیل کیا جاسکتا تھا۔ جبکہ اس کے برعکس رومن گنتی میں CCCXXIII کو CLXXIII میں تبدیل کرنا آسان کام نہیں۔ اس کے علاوہ کاغز کی دستیابی بھی ایک مسئلہ تھا۔ اس وقت جانوروں کی کھالوں کو سکھا کر جو کاغذ بنایا جاتا تھا وہ اتنا مہنگا تھا کہ اس کا استعمال کرنا ایک عام دکاندار کے لئے ممکن نہیں تھا۔
اندلس کے پاس اس مسئلے کا اس زمانے کا جدید ترین حل یعنی کاغذ موجود تھا۔ حضورِ اکرم صلی الللہ علیہ وسلم کے بعد جس طرح سے مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا تھا اس کے نتیجے میں مسلمان ہندوستان سے ہوتے ہوئے چین تک جا پہنچے تھے اور وہیں سے کاغذ پہلی دفع مسلمانوں کے استعمال میں آیا اور اسپین تک پہنچا۔ اس کا مختصر سا پسِ منظر کچھ یوں ہے کہ چینیوں نے سب سے پہلے کاغذ بنانے کا ابتدائ طریقہ ایجاد کیا تھا۔ عربوں کی چینیوں سے جب جنگیں ہوئیں جس میں 751 عیسوی کی جنگ قابلِ ذکر ہے جو تالاس (جو موجودہ چینی ترکستان کا اک علاقہ ہے) کے مقام پر ہوئ، جس میں عربوں نے بعض چینیوں کو جنگی قیدی بنایا اور انھی سے کاغذ بنانا سیکھا۔ وہاں سے یہ وسطی ایشیا سے ہوتا ہوا پوری مسلم دنیا میں پھیل گیا۔
یورپ میں کاغذ بنانے کا یہ طریقہ ایک عرصہ تک مسلم اسپین تک محدود رہا یہاں تک کہ تیرھویں صدی عیسوی کے صلیبیوں نے مسلم اسپین کے کچھ علاقے فتح کر لئے۔ جیسے جیسے کاغذ بنانے کا طریقہ یورپ میں پھیلا اس کی منتقلی نے گربرٹ کے متعارف کردہ عربی ہندی اعداد کے استعمال اور کشش میں اصافہ کردیا۔ کاغذ کو بنانا پارچہ بنانے سے سستہ عمل تھا اس لئے تاجروں کے لئے حساب کتاب کی غرض سے کاغذ استعمال کرنے میں زیادہ بچت تھی۔ کاغذ کا ایک اور فائدہ لین دین کا دیرپا ریکارڈ تھا، کیونکہ Abacus کے ذریعے جو قیمتوں کا حساب کتاب ہوتا تھا وہ صرف ایک transaction تک محفوظ رہ سکتا تھا اور ہر نئی transaction کے لئے نئی ترتیب دینی پڑتی تھی جس سے پرانا ریکارڈ ہمیشہ کے لئے ضایع ہوجاتا تھا۔
کاغذ کا استعمال دوسرے مقاصد کے لئے بھی مفید ثابت ہوا۔ اس سے ایک نئی تہزیب کا آغاز ہوا۔ اسپین نے شائد سب سے پہلے حکومتی کاموں کے لئے کاغذ کا استعمال شروع کیا اور اس طرح سے انسانی تاریخ میں پہلی بڑے پیمانے پر سرکاری ریکارڈ کو محفوظ کرنے کا احتمام کیا گیا۔
اگرچہ کاغذ کے روز مرہ کے استعمال کو یورپ میں رائج ہونے میں کچھ صدیاں لگیں لیکن اسپین ہی کے ذریعے ایک اور ٹیکنالوجی نےاپنا یورپ میں اپنا راستہ بنا لیا اور اس میں بھی جزوی طور پر گربرٹ کی کاوشیں تھیں۔ یورپ کے مستقبل کے پوپ نے اعداد (numbers) کا جو طریقہ مسلم اسپین میں سیکھا تھا اس کو Abacus کی مدد سے بھی استعمال کیا جاسکتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ گربرٹ نے Abacus ایجاد کیا تھا کیونکہ Abacus یونان اور روم میں صدیوں سے استعمال ہو رہا تھا لیکن گربرٹ نے Abacus میں کچھ تبدیلیاں لا کر اس کے استعمال کو انتہائ سادہ بنا دیا تھا۔ گربرٹ نے جو تبدیلیاں کیں تھیں وہ یہ کہ بجائیے اس کے کہ 80 کو ظاہر کرنے کے لئے tenth کی جگہ پر آٹھ دانوں کا استعمال کیا جائے، ایک دانے پر “8” لکھ کر اس دانے کو استعمال میں لایا جائے۔ اس سے فائدہ یہ ہوا کہ 8,789 کو ظاہر کرنے کے لئے روایتی Abacus میں بتیس دانوں کا استعمال کرنا پرتا تھا جبکہ نئے Abacus میں اس مقصد کے لئےصرف چار دانے درکار تھے۔
گربرٹ کے Abacus نے حساب کتاب کے اس آلہ کو ایک طرح سے نئی زندگی اور مقبولیت عطا کی تھی۔ اس آلہ کو اپنی تجارت کے لئے استعمال کرنے والوں کے لئے خوشحالی کے نئے دروازے کھلے اور وہ Gerbecists کہلائے لیکن ساتھ ہی ساتھ انھوں نے نئے آنے والوں (یعنی Algorists) کی مزاحمت کی۔
Algorithm اور algebra کے الفاظ اسلامی تہزیب کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ لفظ algorithm محمد ابنِ موسی الخوارزمی کے نام کے حصے “الخوارزمی” کی بگڑی ہوی شکل ہے۔ الخوارزمی اس زمانے میں موجود مسلمان عالموں میں سے ایک تھا جس نے ہندی اعداد کے استعمال کو پہچانا۔ اس وقت جبکہ یورپین اس بارے میں واضح نہیں تھے کہ صفر (0) کیا ہے اور یہ کیوں اہمیت رکھتا ہے عرب عالم quadratic equations اور جیومیٹری کے پیچیدہ سوالات پر کام کر رہے تھے۔ الخوارزمی اپنے وقت کے بہت ذہین عالموں میں سے نہیں تھا لیکن اس نے جو عربی ہندی اعداد کو استعمال کرنے کا ایک منظم طریقہ ایجاد کیا جس کو اس نے “الجبر والمقابلہ” ( یعنی Completion and Balancing) کے نام سے لکھا اور جس کو ہم سب “الجبرا” (algebra) کے نام سے جانتے ہیں۔ یورپ اس بات پر اندلس کا شکر گزار رہے گا کہ اس نے الخوارزمی کو یورپ سے متعارف کروایا۔ برطانیہ کے Adelard of Bath اور Robert of Chester نے بھی بظاہر ریاضی اسپین میں ہی سیکھی۔
اگرچہ عرب عالم 800 عیسوی سے ہی ریاضی کے پیچیدہ مسائل حل کر رہے تھے اور گربرٹ نے بھی نویں صدی کے آخر میں عربی۔ہندی اعداد کے ابتدائ فوائد سے اگاہی حاصل کرلی تھی، لیکن یورپ گیارویں صدی تک بھی Adelard اور Robert کی عربی سے ترجمعہ ہوئ ریاضی کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔ عربی۔ہندی اعداد کو ان کے آسان استعمال کے باوجود یورپ کے اہلِ علم کی اکثریت یت نے قبول نہیں کیا۔ جہالت اور تبدیلی کی مزاحمت کرنے والی قوتوں نے نئ ٹیکنالوجی کا راستہ روک رکھا تھا۔ Abacus کا کام جاننے والے کاریگروں نے کاغذ کے استعمال کو اسی نظر سے دیکھا ہوگا جیسے میوزک کے ریکارڈ بنانے والوں نے کامپیکٹ ڈسک (compact disc (CD)) کا استقبال کیا ہوگا۔ ہر ایک کو یہ افسوس ہوگا کہ نئ آنے والے ٹیکنالوگی نے ان کی صنعت کا خاتمہ کردیا۔ یورپ نے بلآخر تاجروں کے دبائو پر جدید ریاضی کو قبول کیا۔
مندرجہ بالا مثال سے واضح ہے کہ ایسی قوم جو فرسودہ روایات کو ترک کرنے کو تیار نہ ہو اس کی تبدیلی کے عمل میں بہت رکاوٹیں آتیں ہیں۔ آج کا مسلمان بھی بہت سی فرسودہ روایات کو اپنے آپ سے چمٹائے ہوئے ہے اور تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا کے تقاضے سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تعلیم سے آنکھیں موڑنا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...