(Last Updated On: )
ادیب معاشرے کا حساس فرد ہوتا ہے اور ان سماجی پہلوؤں کو بغور دیکھتا ہے جس پر عام آدمی کی نظر نہیں پڑتی۔ ادب تہذیبوں ،مذاہب ،تاریخ ،سیاست اور سماجی اقدار وروایات کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمارے ادیبوں نے اپنی تخلیقات سے اصلاح قوم کاکام لیا ہے۔محکوم اقوام کو غلامی سے نجات دلانے ،جبروتشدد اور انسانیت کا استحصال کرنے والی قوتوں کے خلاف مزاحمتی ردِ عمل اختیار کیا۔ اُردو شاعری کا آغاز سے اب تک جائزہ لیں تو اس انسانی زندگی سے جڑے تمام پہلوؤں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ نوآبادیاتی عہد میں تخلیق پانے والی شاعری میں مشرقی تہذیب ومعاشرت کی عکاسی ایک تحریک کی صورت میں نظر آتی ہے۔ عہد غلامی میں انگریزوں کے خلاف نفرت آمیز شاعری نے نوجوانانِ ہند کو آزادی کے لیے اکسایا۔اس دور کی شاعری میں زیادہ تر وطن پرستی، قوم پرستی اور مظاہر فطرت کو موضوع بنایا گیا۔ آزادؔ ،حالیؔ،نظیرؔ ،اکبرؔ اور فرنگی دور کے دیگر شعرا کی طرح اقبالؔ کی ابتدائی شاعری میں وطنیت اور فطرت کے مناظر جیسے موضوعات ملتے ہیں۔
نوآبادیاتی عہد کے شعرا میں اقبال اس لیے ممتاز ہیں کہ انھوں نے شاعری میں مسلم تہذیب ومعاشرت کی عکاسی کی ہے۔ اقبالؔ نے اپنی نظموں اور غزلوں میں مسلم نوجوانانِ ہند کو جوش وولولہ دلایا اور ان کو ذہنی طور پر تیارکیا۔اس مخصوص عہد میں اقبالؔ کی انقلابی اور مقصدی شاعری نے نوجوانوں کی کردار اور شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر چہ اس پورے دور کی شاعری میں مسلمانوں کو بیدار اور ان میں جذبۂ حریت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن اقبالؔ کے دوسرے دور کے فکروفلسفہ نے شاعری کا مزاج یکسر تبدیل کر دیا۔ انھوں نے مسلم امہ اور مذہب وتہذیب کو اس قدر اپنی شاعری کا محور کیا کہ ان پر مسلمانوں کے اختصاصی شاعر کی چھاپ لگ گئی۔
اقبالؔ کا شعری فلسفہ خاص طور پر مسلمان نوجوانوں کے لیے ایک پیغام کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ان کے اشعار اور نظموں نے نوجوانوں کی فکر پر اس درجہ اثرات مرتب کیے کہ انھوں نے وطن کی آزادی کے لیے انتہائی جوش وجذبے سے جدوجہد کی جس کے نتیجہ میں پاکستان ایک اسلامی مملکت کے طور پر معرضِ وجود میں آیا۔اقبال نے مسلمان نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے زور دیا ہے ۔وہ تعلیم کو شخصیت اور کردار سازی کا ایک اہم ذریعہ سمجھتے ہیں اس لیے وہ خداوندان مکتب سٍےسے نالاں ہیں۔ اقبال ؔ کایہ شعر دیکھیے:
شکایت ہے مجھے یارب خداوندان مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا ؎۱
اقبال کے مطابق علم کی دولت سے قوم کے جوانوں کا اعتبار ووقار بنتا ہے۔ علم ہی قوموں کی تنظیم کرتا ہے۔ اقبال مادیت پرست تعلیم کے خلاف ہیں جو جوانوں میں محض غلامانہ سوچ پیدا کرتی ہے۔ اقبال ایسی تعلیم کو بےکار سمجھتے ہیں جو نوجوانوں کے دلوں سے مذہب ،قوم اور وطن کی محبت کا جذبہ چھین لے یہ اشعار دیکھیے:
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ ؎۲
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الہٰ الا اللہ ؎۳
اقبال نوجوانوں کی ترقی اور شخصیت سازی کے لیے تعلیم کے فروغ کے حامی ہیں وہ کہتے ہیں کہ ایسے اصول ِتعلیم بروئے کار لانے چاہیں جن سے جوانوں کی کردار سازی ہو اور ان میں جذبۂ حریت پیدا ہو سکے۔ اس بارے میں ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر رقم طراز ہیں:
’’یہ محض شاعرانہ باتیں نہیں ۔آج کے ماہرین تعلیم جو فلسفہ تعلیم سے آشنا ہیں ،وہ اقبال ہی کی طرح سوچنے لگے ہیں۔ برطانیہ ،امریکہ اور روس کی حکومتوں نے انھی متوازن اصولوں کے ماتحت اپنے نظام تعلیم بدلنے شروع کیے ہیں۔ شخصیت اور خودی کی تربیت ہر جدید طرز تعلیم کا اصل اصول ہے۔ شخصیت کے استحکام کے لیے عقلی علوم کے ساتھ ساتھ تربیت کردار کا انتظام بھی کیا جاتا ہے اور عقل کو عمل کی صورت میں لانے کے لیے ایک مخصوص نظام فکروعمل اور جذبات افروزی کا ماحول بھی مہیا کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی معاشی نظام کے مطابق نئے علوم کا درس بھی دیا جاتا ہے۔ طلبہ کی انفرادیت کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے اور علوم کی ترقی پر بھی زور دیا جاتا ہے۔ خاک بازی نہیں ، شاہ بازی کے اصول سکھائے جاتے ہیں۔ مگر ان ممالک میں اپنی اپنی طرح کے مخصوص تعلیمی نقائص بھی ہیں۔ اقبال ہمیں ان سب سے آگاہ کرتے ہیں۔‘‘؎۴
اقبال کے افکار کی فلسفیانہ ہم آہنگی نے نوآبادیاتی عہد میں نوجوانانِ برصغیر کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کیا ۔ اقبال کی شاعری خالصتاً اسلامی شاعری ہے جو مشرق سے گونجتی ہوئی مغرب تک پہنچی ہے۔ ان کی شاعری ہندوستانی مسلمان نوجوانوں کے دلوں پر ایک سیل ہمہ گیر کی طرح قبضہ پا گئی۔ اقبال نے نوجوانوں کے لیے بڑی سبق آموز شاعری کی ہے۔وہ مسلمان نوجوان میں شاہین جیسی خوبیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ نوجوان کو مسلسل حرکت و عمل میں دیکھنے کے تمنائی نظر آتے ہیں۔ نظم ’’شاہیں ‘‘ کا یہ شعر دیکھیے:
جھپٹنا پلٹنا ،پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ ؎۵
اقبال دعائیہ انداز میں مخاطب ہیں کہ اے خدایاان جوانوں کے لیے مرا فلسفہ عام کر دے ۔وہ ’’بال جبریل‘‘ میں ہندوستانی مسلمان بچوں اور جوانوں کے لیے دعا مانگتے ہیں۔ اقبال کی یہ دعائیہ شاعری نوجوانوں کے لیے بڑی معنی خیز ہے اس سے آج کا نوجوان بھی فیض یاب ہو رہا ہے۔
جوانوں کو مری آہِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال وپر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرانورِ بصیرت عام کر دے ؎۶
اقبال برصغیر کے مسلمان نوجوانوں کے لیےبے حد فکر مند تھے ،وہ انھیں بہت عزیز جانتے تھے ۔اسی لیے انھوں نے پہلے بچوں کے لیے نظمیں لکھیں اور پھر نوجوانوں کو مخاطب کیا۔ اس حوالے سے اقبال کی نظمیں ’’طلبۂ علی گڑھ کےنام‘‘ ،’’ عبدالقادر کے نام‘‘ ،’’نصیحت‘‘،’’ خطاب بہ نوجوانانِ اسلام‘‘ ،’’ بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘‘ ،’’طالب علم‘‘ اور ’’مدرسہ‘‘ زیادہ اہم ہیں۔ اقبال کو مسلمان نوجوانوں سے بہت توقعات تھیں اس بارے میں سید عابد علی عابد لکھتے ہیں:
’’اقبال کو نوجوانوں سے توقعات نسبتاً زیادہ تھیں۔ اس کی وجہ ظاہر ہے ،عمر کی پختگی بے شک تدبر اور فراست سے کام لیتی ہے لیکن سودوزیاں کا شعورِ پختگی فکر اتنا گہرا ہوتا ہے کہ اکثر ذوقِ عمل اس پریشانی میں مردہ ہو جاتا ہے کہ اس کا م کا انجام کیا ہوگا۔ بڑھاپا بہت سوچتاہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اتنا سوچتا ہے کہ کچھ کر نہیں پاتا ۔ا س کے بر خلاف جوانی اگرچہ تجربے اور تدبر سے کم وبیش عاری ہوتی ہے لیکن ذوقِ عمل کی بے پناہ قوتیں اپنے اندر مخفی رکھتی ہے۔ ‘‘؎۷
اقبال کی نوجوانوں کے لیے لکھی ہوئی نظم ’’سلطان ٹیپو کی وصیّت‘‘ ملاحظہ کیجیے:
تُو رہ نوردِ شوق ہے ، منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تُند وتیز
ساحل تجھے عطا ہو ساحل نہ کر قبول
کھویا نہ جاصنم کدۂ کائنات میں
محفل گداز گرمیِ محفل نہ کر قبول
صبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جبریل نے
جو عقل کاغلام ہو ، وہ دل نہ کر قبول
باطل دوئی پسند ہے ، حق لا شریک ہے
شرکت میانۂ حق وباطل نہ کر قبول ؎۸
فلسفۂ اقبال بر صغیر کےمسلمان نوجوانوں کے لیے بڑا کار گر ثابت ہوا جو ایک عرصہ سے ہندوستان میں اپنی الگ آزاد مملکت بنانے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ ان کا خواب ابھی غیر واضح تھا کہ اقبال کے فلسفہ نے اسے ایک واضح صورت دے دی۔ اقبال کی فلسفیانہ شاعری کا نوجوانوں نے بڑا پرجوش خیر مقدم کیا۔انھوں نے نوجوانانِ برصغیرکی شخصیت سازی کے لیے ایک نصب العین دیا۔ اس کے حصول کے لیے مسلمان نوجوانوں نے ایک جدوجہد اور تحریک شروع کی۔ یہ تحریک صرف انگریزوں سے آزادی کے حصول تک ہی محدود نہ رہی بل کہ مسلمانوں کے لیے ایک آزاد مملکت کا قیام بھی عمل میں آیا۔ اقبال نے دنیائے اسلام کے لیے شاعری کی ،انھوں نے نوجوانوں کے جذبات کو ابھارا بقول ڈاکٹر معین الدین عقیل:
’’اقبال نے جب شاعری شروع کی تو اس وقت ہندوستان میں یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ یہاں مسلمان دوبارہ اپنی حکومت قائم نہیں کر سکتے۔ پھر بیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان کے مسلمانوں کو یقین ہو گیا تھا کہ برطانیہ کی حکمتِ عمل دنیائے اسلام کی آزادی کے خلاف ہے۔ انہیں اس بات کا بھی یقین ہو گیا تھا کہ یہ حکمت عمل دراصل ہندوستان پر برطانیہ کے تسلط کو تقویت پہنچانے کے لیے اختیار کی جا رہی ہے۔۔۔۔اس لیے اس دوران اتحادِ اسلامی کے جذبات اور انگریزوں کو ختم کر دینے کی خواہش مسلمانوں میں بہت شدت اختیار کر گئی۔ اس قسم کے جذبات اور خواہشات کا اظہار اقبال کی شاعری سے بہت نمایاں ہوا ہے۔ ‘‘ ؎۹
اقبال کے کلام میں جا بجا حیرت انگیز انقلاب دکھائی دیتا ہے۔ وہ حاضر کی تیرہ بختی سے نا امید نہیں ہوتے ان کی یاس انگیز نظموں میں بھی آخری وقت پر امید یاس پر غالب نظر آتی ہے۔ اقبال کی شاعری امید وبیم کا نام ہے۔ انھوں نے خستہ وخفتہ ملت میں نئی روح پھونک دی ہے ۔ان کی نوا نے نوجوانوں کو خواب غفلت سے جگا کر انقلاب کی راہ پر گامزن کر دیا ہے۔ اقبال کا پیام ،پیام امید ہے۔
اقبال کا ترانہ بانگِ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا ؎۱۰
مسلم نوجوانوں کے لیے کہی گئی بال جبریل کی ایک نظم ’’جاوید کے نام ‘‘ دیکھیے:
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ ، نئے صبح شام پیدا کر
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ وگل سے کلام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفالِ ہند سے مینا وجام پیدا کر
میں شاخِ تاک ہوں ، میری غزل ہے میرا ثمر
مرے ثمر سے مے لالہ فام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں ، فقیری ہے
خودی نہ بیچ ،غریبی میں نام پیدا کر ؎۱۱
اقبالؔ کی شاعری میں کثرت سے فلسفیانہ اشعار موجود ہیں۔ تصور اورتفکر ان کی طبیعت اور مزاج میں ہے ۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے نوجوانانِ اسلام کے دلوں میں اسلام،ملت اور وطنیت کا جذبہ بھر دیا۔اقبال کی نظموں اور غزلوں نے خصوصاً نوجوانوں کے لیے پیام رسانی کا کا م کیا۔ بلاشبہ اقبال کی ساری شاعری فلسفۂ حیات ہے۔
حوالہ جات
1۔ محمد اقبال،بال جبریل (کلیات اقبال)،لاہور،اقبال اکادمی پاکستان،مارچ2015ء،ص368
2۔محمد اقبال،بانگ درا (کلیات اقبال)،لاہور،اقبال اکادمی پاکستان،مارچ2015ء،ص238
3۔ محمد اقبال،بال جبریل (کلیات اقبال)،لاہور،اقبال اکادمی پاکستان،مارچ2015ء،ص377
4۔ایم ،ڈی ،تاثیر،ڈاکٹر، اقبال کا فکر وفن، لاہور: بزم اقبال1994ء،ص133
5۔محمد اقبال،بال جبریل (کلیات اقبال)،لاہور،اقبال اکادمی پاکستان،مارچ2015ء،ص495
6۔محمد اقبال ،بال جبریل(کلیات اقبال)، لاہور، الحمد پبلی کیشنز1999ء،ص64
7۔سید عابد علی عابد، شعرِ اقبال، لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز 2011ء،ص216
8۔ محمد اقبال ،ضربِ کلیم(کلیات اقبال)، لاہور، الحمد پبلی کیشنز1999ء،ص63
9۔معین الدین عقیل ،ڈاکٹر، نوآبادیاتی عہد میں مسلمانانِ جنوبی ایشیا کے سیاسی افکار کی جدید تشکیل ،کراچی : اسلامک ریسرچ اکیڈمی 2014ء،ص20
10۔ محمد اقبال،بانگ درا (کلیات اقبال)،لاہور،اقبال اکادمی پاکستان،مارچ2015ء،ص186
11۔محمد اقبال ،بال جبریل(کلیات اقبال)، لاہور، الحمد پبلی کیشنز1999ء،ص117۔116