تبلیغی جماعت پر پابندی لگاو .ٹویٹر اور سوشل ویب سائٹس پر یہ ٹرینڈ چل گیا ہے . یہ سب کچھ چلتا رہے گا اگر آپ آواز بلند نہیں کرتے .تاریخ کے صفحات ٹھگوں کے غیر معمولی کارناموں سے بھرے پڑے ہیں .ان داستانوں میں امیر علی ٹھگ جیسے ہزار ٹھگوں کے قصّے ملتے ہیں جو کمال مہارت سے لوٹ پاٹ کو انجام دیتے تھے .عام طور پر یہ ٹھگ دریا کنارے پڑاو ¿ لگاتے تھے .ان کے ساتھ گورکن بھی ہوتا تھا .انیسویں صدی کی پہلی تین دہایاں ان ٹھگوں کے کارناموں سے متاثر رہی .لیکن ایسا نہیں کہ ہندوستان سے ٹھگ چلے گئے .ٹھگ غضب کے اداکار ہوتے تھے .ٹولیوں میں شکار کرتے تھے .پورے پورے قافلے کو قتل کر دیتے تھے .اور عام لوگوں کی طرح ذمہ دار شہری بن کر ہمارے سماج اور معاشرے کا حصّہ تھے .بہرام ٹھگ ،امیر علی ٹھگ جیسے انکے ہزاروں نام تھے .اسی طرح راجستھانی ہندو ٹھگوں کے بھی کچھ قصّے مشہور ہیں .کچھ اپنی عظمت کا احساس دلانے کے لئے نشانیاں بھی چھوڑ جاتے تھے۔جیسے مقتول کو لوٹنے کے بعد ایک نیلا رومال نشانی کے لئے چھوڑ دیا .ٹھگ کالی مایی کے پجاری ہوتے تھے .بلی چڑھاتے تھے .عھد جاہلیت کے یہ ٹھگ نا خواندہ اور علمی روشنی سے قطعی بے بہرا تھے .اپنی اصلی شناخت کو پوشیدہ رکھتے ہوئے ٹھگ اپنے کام کو عبادت سمجھ کر انجام دیتے تھے .اس لئے امیر علی جیسے ٹھگ جہاں نماز روزہ کو ضروری سمجھتے تھے وہیں ہندو ٹھگ بھوانی ماتا اور کالی ماتا کو خوش رکھنے کی تدبیر کرتے تھے .
ٹھگ ہندوستان سے غایب نہیں ہوئے وہ بھیس بدل کر اب سیاست میں آ گئے ہیں. میڈیا میں آ گئے ہیں . اور نفرت کا کھیل عبادت کے نام پر انجام رہے ہیں .ہم ایک بار پھر عہد جاہلیت میں اچھال دیے گئے ہیں .
صرف منظرنامہ بدلا ہے .کھیل وہی بلکہ ٹھگی کا یہ کھیل وقت کے ساتھ خوفناک صورت اختیار کر چکا ہے .
ٹھگی وہی ہے .ایجینڈا بدل گیا ہے .جھوٹ اور جملے بازی نے عوام سے آزادی اور جمہوریت کے خوبصورت احساس تک کو چھین لیا ہے .کچھ خوفناک چہرے ہیں اور نفرت کی نفسیات، جسکا استعمال ایک خاص مذھب والوں کو مہرہ بنا کر کیا جا .رہا ہے ..چارلس ڈکینس کے ایک ناول کی یاد آتی ہے …جو اندھا ہے ،وہ اندھا ..نہیں ہے لنگڑا ، لنگڑا نہیں ہے .. جو یوگی ہے وہ یوگی نہیں .جو بھوگی ہے وہی سیاست دان ہے .– غنڈے شھدے ،موالیوں کی تعریفیں بدل گیں –قاتلوں کے لئے بہتر روزگار کے دروازے کھول دیے گئے – ہندوستانی وراثت کو ختم کرنے والے اب تاریخ پڑھا رہے ہیں .نصاب کی کتابوں میں جھوٹ بھر دیا گیا
نفرت بھرے بیانات مسلسل مسلمانوں کو نقصان پہچا رہے ہیں .تھالی بجانے اور دیا جلانے کے سنجیدہ کھیل سے در اصل مودی اپنے فولّور کی تعداد جاننا چاہتے ہیں . . اس طرح کے بیانات بلکہ اس سے بھی زیادہ فحش بیانات مسلمانوں کے خلاف سوشل ویب سائٹ پرچھاہے ہوئے ہیں . یہ بات صاف تھی کہ کورونا کے دنوں میں بھی سوشل میڈیا ، گوڈی میڈیا کو ایک بڑی چونکانے والی مسلم مخالف خبر کی ضرورت تھی .اور وہ انھیں آسانی سے نظام الدین کے حوالہ سے مل گیی . بغیر سوچے سمجھے مسلمانوں نے بھی سیکولرزم کے دروازے کو کھول دیا اور تبلیغی جماعت والوں پر برس پڑے . کیا تبلیغی جماعت میں جاہل لوگ آتے ہیں ؟ یہ نہ بھولے کہ ان میں ڈاکٹر ، انجینئیر اور وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو شاہانہ منصب پر ہیں . کیا ہندوستان بھر کے مندروں میں کورونا سے دہشت زدہ لوگوں نے پناہ نہیں لی ہے ؟ کیجریوال اور مودی سروے کریں تو حقیقت آشکارا ہو جائے گی . لیکن کیوں کراہیں گے سروے ؟ کیوں لیں گے جائزہ ؟
جب پہلی بار یہ خبر مجھے ملی ، اس وقت بھی میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ تبلیغی جماعت کے لوگوں سے اتنی بڑی غلطی نہیں ہو سکتی .اب کچھ باتوں کو دیکھئے . حکومت نے اچانک لاک داؤن کا اعلان کیا . تقسیم کے بعد سب سے بڑی ہجرت مزدوروں کی شکل میں سامنے آیی . کیی مزدور راستے میں دم توڑ گئے . یہ ہجرت ابھی بھی جاری ہے . مودی نے معافی مانگ لیا جو سب سے آسان کام تھا . جو مر گئے ؟ جو کورونا کے وائرس اپنے ساتھ لئے جا رہے ہیں ، انکا کیا ہوگا ؟ گاؤں کے دروازے بھی ایسے مزدوروں کے لئے بند کر دے گئے ہیں . اپنے ہی ملک میں یہ پہلی ہجرت ہے اور تاریخ اس ہجرت کے لئے حکمران طبقے کو کبھی معاف نہیں کریگی . لیکن ہجرت کرنے والے مزدوروں سے میڈیا کا کویی زیادہ تعلق نہ تھا .ویسے بھی حکومت سے ملنے والی امداد نے میڈیا والوں کے اندر سے سکھ دکھ کو سمجھنے ، ہمدردی کے احساس ، دردمندانہ جذبات کو ختم کر دیا ہے . اب بھارتی میڈیا کو گرم تندوری خبر کی ضرورت تھی . کیا نظام الدین ، تبلیغی جماعت والوں نے حقیقت میں غلطی کی تھی ؟ میں یہی سوچ رہا تھا . پھر مجھے خیال آیا کہ جب لاک داؤن کا فرمان جاری ہوا تو تبلیغی جماعت کے مرکز نے پولیس تھانے ، ایس پی ڈی ایم کو خبر کرنے کی ضرورت کیوں نہیں محسوس کی ؟. حالات نازک ہیں .یہ غلطی کیسے ہوئی ؟ پھر سارا معاملہ سامنے آیا .نظام الدین دہلی سے تعلق رکھنے والے تبلیغی مرکز کے مولانا یوسف صاحب نے 25 مارچ 2020 کو انتظامیہ کو ایک خط لکھا تھا ، جس میں کہا گیا تھا کہ مرکز سے 1500 افراد باہر بھیج دیے گئے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے قریب 1000 افراد اب بھی وہاں موجود ہیں اور ان کے لئے گاڑی پاس جاری کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی گاڑیوں کی فہرست بھی رکھی گئی تھی لیکن انتظامیہ نے گاڑیوں کے پاس جاری نہیں کیے۔ اس طرح یہ غلط الزام لگایا جارہا ہے کہ مرکز کمیٹی نے حکومت کے احکامات پر عمل نہیں کیا .
اب دوسرے سوال پر آئے اورسمجھئے . میڈیا اور حکومت آپ کا ساتھ کیوں دے گی ؟ ہم جس منطق اور دلائل کے ساتھ خود کو صحیح اور سیکولر اور جمہوریت نواز سمجھ رہے ہیں ، ان ہی دلیلوں کی روشنی میں میڈیا اور آر ایس ایس اور حکومت خود کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے ہندو راشٹر کی بنیاد پر آگے بڑھ رہی ہے .
اب ایک بات اور .آر ایس ایس سپریمو نے کہا تھا ، نیشنلزم کے معنی بدل چکے ہہیں . چھ برس میں لبرلزم ، سیکولرزم کے معنی بھی بدل چکے ہیں .ہم جس سیکولر ہندوستان اور جمہوریت کو آیینی حقوق میں تلاش کرتے ہیں ، انکے پاس یہ آیین منو اسمرتی کی شکل میں ہے . وہ ہندو راشٹر کے لئے سیکولرزم کے بنیادی ڈھانچے کو توڑ کر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں . یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وقت کے ساتھ سیاسی پارٹیوں کے منی فیسٹو سے بھی جمہوریت اور سیکولرزم کے الفاظ غایب ہو چکے ہیں . تازہ مثال کجریول کی ہے . اننا ہزارے کے مشن سے سیاست کی بنیاد رکھنے والے کجریول اب وہیں پہنچ گئے جہاں امیت شاہ ہیں . کیجریوال نے بغیر تاخیر اور وجہ جانے بغیر پولیس کو اپنی منظوری دے دی .
مسلمانوں نے بھی سوشل ویب سائٹ پر زہر اگلنا شروع کر دیا . میں ذہنی طور پر تبلیغی جماعت والوں سے مطابقت نہیں رکھتا مگر اس وقت ضروری ہے کہ ہم ان کا ساتھ دیں . سنگھ کی ہزاروں شاخیں ہیں . ہندو مت میں ہزاروں دیوی دیوتا ہیں .انکے مندر بھی پورے ہندوستان میں نظر آییں گے . اچانک لاک داؤن کے بعد بڑے بڑے منادر میں ہزاروں لوگ تو مل ہی جائیں گے . لیکن یہ پھنسے ہوئے لوگ ہیں .تبلیغ والے مسلمان ہیں اس لئے چھپے ہوئے وائرس زدہ دہشت گرد ہیں . اور آخر میں ادب — ہمارے ادیب ان چکروں میں نہیں آتے . وہ وبا کے سنگین دنوں میں وبا پر کہانیاں ، شاعری یا ناولوں کی تلاش میں رہتے ہیں . گول گول گھومتے فلسفوں کے جال انہیں متاثر کرتے ہیں . وہ اس بڑی دنیا سے کنارے رہنا چاہتے ہیں ، جہاں ایڈز ہے ، کینسر ہے ، کورونا ہے اور دنیا کی دوسری حقیقتیں . ان حقیقتوں سے الگ وہ اب بھی ادب کی تعریف و تشریح میں الجھے ہیں اور انہیں نہیں معلوم کہ ان کی سادگی ، ان کی معصومیت پر کتنا بڑا خطرہ منڈرا رہا ہے .
تبلیغی جماعت ہو ، ڈاکٹر کفیل یا ایسے بہت سارے ، افسوس کہ ہم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں . ایک بڑے بی مشن کو ( جس کی وضاحت میں نے مرگ انبوہ میں کی ہے ) بے حس ، بے ضرر ، معصوم مسلمانوں کی ضرورت ہے جو انکے آلۂ کار ثابت ہو سکیں .