پاکستانیوں کو شاید کرپشن,دہشت گردی,بیروز گاری سب سے اہم مسائل معلوم نہیں ہوتے بلکہ ان کے نزدیک سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ ہر ذی روح مسلکی بنیاد پہ دوسروں کو کافر اور ملکی بنیاد پہ لوگوں کو غداری کا سرٹیفیکیٹ جاری کرے ہم سب نے جس مسلم گھرانے میں آنکھ کھولی فقط وہی سچا ہے باقی سب کافر ہیں۔اگر معاملہ یہیں تک ہوتا تو پھر بھی حل طلب تھا پر ہماری مظلوم نسل میں سے کوئ شحص اگر اپنے مسلک سے باہر کسی کا مطالعہ کرنے کی کوشش کرے تو اول تو اسکو گھر اور مسجد میں ہی اس گناہ عظیم سے روکنے کی بھرپور کوشش شروع ہوجاتی ہے اور اگر وہ یہ گناہ کر ہی بیٹھے تو…تو بھی کون سا معاملات سلجھ جاتے ہیں ہمارے علماء تو ایک دوسرے کو کافر قرارد چکے ہیں تو پھر پڑھا کس کو جاے. مولانا احمد رضا خان صاحب کی کتب پڑھیں تو مولانا صاحب کے دیوبند علماء پر بے بہا کفر کے بھی فتوی نظر آے. دیوبند علماء کو پڑھا تو وہ بریلوی علماء پر فتوی دیتے ملے. اہل حدیث بھائیوں کے نزدیک تو سبھی بدعتی ہی. اور یہ سب ویسے تو متحد نہیں ہوتے لیکن یہ اہل تشیع بھائیوں خلاف متحد ہیں. اب سوچا کے چلیں کوئی مثالی شحصیت تلاش کرتے ہیں جس پر سبھی متفق ہوں علامہ اقبال کی لب پہ آتی تو بچپن میں ہی ذہن نشین کرادی گی تھی تو ابتدا بھی یہیں سے کی .ہم تو سمجھتے تو علامہ کے خلاف تو کوئی فتوی نہیں لیکن پہلے تو مسجد وزیر خان کے مولانا امداد علی کا فتوی ملا اور پھر مولانا اقتدار خان نعیمی کا کتابچہ. غامدی صاحب کو ٹی وی پر سنا تو ہمیں مولانا کوکب نورانی والی چاشنی انکے لہجے میں بھی ملی بازار سے ان کی کتابیں لینے گے تو کتب فروش نے کہا ہم "غامدی مذہب کی کتابیں نہیں فروخت کرتے". طاہر القادری صاحب بھلے آدمی لگے تو پتا چلا کہ انکے تو اپنے مکتبہ فکر کہ علماء انکے خلاف ہیں اور فتوے بھی ہیں. پیر نصیر کا انداز اچھوتا لگا تو اقتدار خان صاحب کے انکے خلاف کتابچے نے پریشان کردیا. ڈاکٹر اسرار صاحب کو دیکھا تو لوگوں نے بتایا جناب "بریکٹس " کا خیال نہیں رکھتے. ڈاکٹر ذاکر نائیک کے علم سے متاثر ہوے تو لوگوں نے بتایا کہ یہ تو حامی یزید ہیں. مولانا وحیدالدین جن کی رازحیات اور اللہ اکبر کو ہم سلیبس لگانے کا نعرہ لگانے ہی والے تھے کہ کان میں آواز میں پڑی کہ یہ حامی یزید بھی واجب القتل ہے. بہت سے پڑھے لکھے دوستوں نے مولانا مودودی کو پڑھنے کا مشورہ دیا پر…پر دارالعلوم دیوبند نے شیعہ اور بریلوی مکتب فکر کو تقریباً کافر قرار دینے کے بعد خبردار کیا کہ مولانا مودودی، جاوید غامدی اور مولانا وحید الدین گمراہ ہیں اور جماعت اسلامی میں نکاح سے متلق حکم دیا کہ "اگر نکاح کے بعد شوہر اور بیوی نے یا بہن بیٹی نے ہاں میں ہاں ملا کر باطل کو اختیار کیا اور حق کو ترک کر دیا تو دینی لحاظ سے بڑا نقصان ہوگا، دنیا وآخرت میں سخت خسارہ کا اندیشہ ہے ، نکاح کرنے سے احتراز چاہیے۔" علامہ غلامہ احمد پرویز صآحب کی" قرآن کی تفسیر قرآن سے " دیکھی تو سننے کو ملا مت پڑھ اسکو یہ تو منکر حدیث ہے یہی لوگوں نے ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے متعلق بتایا حالانکہ جناب تو اپنی کتب میں اسکی اعلانیہ معافی بھی مانگ چکے ہیں پر لوگ….لوگ تو نہیں نہ مانتے جی. لوگوں کو تو مولانا طارق جمیل و علامہ الیاس قادری کا نرم لہجہ بھی اچھا نہیں لگا..لوگ تو علامہ خادم حسین رضوی کی زبان کے شائق ہیں ….لوگ تو پروفیسر احمد رفیق اختر کے بھی خلاف بولتے ہیں ..پھر اسی راہ میں ملاقات ہوئی مولانا توصیف الرحمان اور انجینیر محمد علی مرزا صاحب سے جو ڈیجٹل طریقے سے لوگوں کا کفر بیان فرما رہے ہیں. ڈاکٹر علی شریعتی اور ڈاکٹر طہ حسین کی تحریر اچھی لگی تو معلوم پڑا انکو تو اپنے انہی افکار کی وجہ سے جامع الازہر سے ہی نکال دیا گیا تھا اور ہم تو اپنی ناسمجھی میں بھارت میں رہ جانے والوں کو مسلمان ہی جانتے تھے مگر شکر ہے کہ فلسفی دوراں حضرت اوریا مقبول جان نے اپنی مدلل تحریروں سے ہماری یہ غلط فہمی دور کی. سوچا کہ یہ مسلے تو حال میں ہوے ماضی کہ علماء تو قابل اعتبار ہیں پر کہاں جی پہلے لوگوں نے بتایا کہ علامہ طبری بھی متنازعہ ہیں اور سات سو سال پرانے ابن کثیر بھی سوچا ابن خلدون کا تو بڑا نام ہے یہ ٹھیک ہی ہوگا پر مولانا احمد رضا خان کے فتوی نے ہمیں آ پکڑا ……پہلے علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن العربی کی لڑائی نے پریشان کیا تو بعد میں وحدت الوجود اور وحدت الشہود نے نئی الجھن میں مبتلا…. پھر کیا ابن سعد تو کیا ابن اسحاق…پتا چلا یہ دور تو عامر لیاقت و بلال قطب صاحب کا ہے. اور جب لوگوں نے ایدھی صاحب کی ذات پر انگلی اٹھائ تو اس نے تو ہمیں ہلا کے رکھ دیا…..ہم کیوں مسلے حل نہیں کرتے ابن انشاء نے سہی کہا ہے" ایک دائرہ اسلام کا دائرہ کہلاتا ہے، پہلے اس میں لوگوں کو داخل کیا کرتے تھے، آج کل داخلہ منع ہے۔ صرف خارج کرتے ہیں" کوئ کہے میں اسلام لانا چاہتا ہوں تو ہم کہیں گے وہ تو ٹھیک ہے پر تم شیعہ دائرے میں آنا چاہتے ہو یا سنی پھر اہل حدیث دیوبندی یا بریلوی…..اور پھر تقسیم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ…. مجھ سمیت ہم سب مذہبی جنونی بن گے ہیں ۔۔۔ہم ہر جگہ کافر فیکٹری لگا لیتے ہیں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کاحوصلہ نہیں. دوسرے کے عقائد سنتے ہی ہم لوگ مرنے مرانے پر آجاتے ہیں ۔۔کوئی علی کو "مولیٰ" کہتا ہے تو کیوں ایسی کی تیسی کوئ میلاد مناے تو ہم اسکو نہیں چھوڑیں گے اور تبلیغ کرتے ہو ادھر آو تمہیں بتائیں…کسی کی جرآت کیسے ہوئی ہمارے علامہ فلاں ابن فلاں پر انگلی اٹھانے کی۔۔ یہ سن سن کر میں تھک گیا ہوں …کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے سالوں پہلے گزرنے والی شخصیات جن کو ہم معزز سمجھتے ہیں وہ مری نہیں ۔۔۔ بلکہ زندہ ہیں ۔۔ اور ہم سب کو جیتے جی مار کر ہی مریں گی ۔۔۔ ہم سب کا ایک ہی دعوی ہے کہ جی بس میں عقل کُل ہوں میں ہوں حرف آخر بس میں سچا ہوں۔۔ ہر طرف کافر کافر کھیلا جارہا ہے ..یہ آگ ہر جگہ پھیل رہی ہے۔۔ ہر کسی کی ایک ہی تمنا ہے دوسرے کو غلط کیسے ثابت کیا جائے ۔۔ کیسے اسکو نیچا دیکھایا جائے ۔۔۔ اور بقول منیر انکوائری رپورٹ 1953
"تمام علماء کی بیان کردہ تعاریف کا جائزہ لیا جائے تو عدالت یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہے کہ اتنے بنیادی سوال تک پر کسی دو علماء میں اتفاق نہیں، ہر عالم دین کی بیان کردہ تعریف دوسروں سے مختلف ہے۔ اگر ایک عالم دین کی بیان کردہ تعریف کو عدالت تسلیم کرلے تو دوسرے مکتبہ فکر کے تمام مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں، اگر ایک مکتبہ فکر کے عالم کی تعریف کے مطابق ہم مسلمان ہیں تو دوسرے تمام علمائے دین کی تعریف کے مطابق ہم میں سے ہر ایک کافر ہے"
اب تو فقط کافر ہمیں مسلمان کہتے ہیں…خدارا سلجھ جائیں نئ نسل کو دین کی جانب راغب کریں ناکہ متنفر. اور اگر سب مکاتب فکر ایک دوسرے کے خلاف دلائل کے انبار لیے بیٹھے ہیں تو میں ناسمجھ تو سوچتا ہوں کہ تمام مکاتب فکر کے علماء(حقیقتاً علم والوں) کو جمع کرکے کہا جاے دیجیے ایک دوسرے کے خلاف دلائل اور آخر میں کریں حق کو واضح…. خدا نے پردے رکھے ہوئے ہیں، وہ اٹھا دے تو کوئی منہ دکھانے کے قابل نہ رہے. دل کو ٹیڑھے پن سے بچائیں بے بہا کفر کے فتوؤں کی نہیں ہمیں محبت کی زبان درکار ہے. رحمت للعالمین کے امتی ہیں تو ہر ایک کے لیے رحمت بنیں نا کہ باعث زحمت.
**نوٹ: اس تحریر کا مقصد ہر گز کسی کو برا کہنا نہیں. اب ہوسکتا ہے کہ میرا ہی تجربہ ہو غلط مگر مجھے ظاہراً یہی کچھ دیکھنے کو ملا. کسی کی نادانستہ دل آزاری ہوئی ہو تو معذرت اور ہر ذی شعور کو مجھ سے اختلاف کا حق حاصل ہے مگر تہذیب کے دائرے میں رہ کر !