مسلمان حکمرانوں کی تاریخ:ایک جھلک
ایک خدا،ایک رسولؐ،ایک قرآن اور ایک کعبہ کی حد تک سارے مسلمانوں کی یکجہتی ایک حقیقت ہے۔اس سے آگے فرقہ پرستی کے نتیجہ میں مذہبی تفریق کا اندوہناک منظر ہے۔یہ جو مسلم امہ اور امتِ مسلمہ کی باتیں کی جاتی ہیں،میں بھی پہلے اسی انداز میں سوچتا تھا،لیکن حسن جعفر زیدی،پروفیسر مہدی حسن، ڈاکٹر مبارک علی اورفرزندِ اقبال جسٹس جاوید اقبال جیسے دانشوروں کو پڑھنے،ٹی وی پر سننے اور سمجھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ ہم لوگ تو اسلامی تاریخ کے نام پر نسیم حجازی کے ناولوں کے نشہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ سیاسی اقتدار کی رسہ کشی میں مسلمان حکمرانوں کی ڈیڑھ ہزار سالہ داستان قتل و غارت،نا انصافی اور خود غرضی کے خوفناک واقعات سے بھری ہوئی ہے۔حقیقتاََ ان حقائق کا بحیثیت مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے،یہ اقتدار کا کھیل ہے اور اس کھیل میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں رہتا،بس کہیں اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے مذہبی اشتعال انگیزی سے کام لیا جا سکتا ہے تو صرف بوقتِ ضرورت ایک حد تک اس سے کام لے لیا جاتا ہے۔آج کے کالم میں اس ڈہڑھ ہزار سالہ تاریخ کی ہلکی سی جھلک پیش کروں گا۔
خلافتِ راشدہ کے چار میں سے تین خلفاء شہید ہوئے اور ان میں سے صرف ایک خلیفہ ایک غیر مسلم کے ہاتھوں شہید کیے گئے لیکن دو خلفاء مسلمانوں ہی کے ہاتھوں شہید ہوئے۔حضرت امام حسین علیہ السلام کے خلاف پہلے یزیدی حاکمیت نے اس وقت کے چیف جسٹس قاضی شریح سے تکفیر اور قتل کا فتویٰ حاصل کیا اور پھر سانحۂ کربلا برپا کیا۔اُس وقت کی آزاد عدلیہ کے چیف جسٹس قاضی شریح نے لکھا کہ حسین ابن علی دینِ محمدؐ سے باغی،دائرۂ اسلام سے خارج اور واجب القتل ہے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔یہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے مسلمان حکمرانوں میں سرکاری طور پر تکفیر کا پہلا المناک سانحہ تھا۔ نوے سالہ امیہ دورِ خلافت میں مکہ اور مدینہ پر دو بار حملہ کیا گیا۔ایک حملہ کی قیادت حجاج بن یوسف نے کی۔دونوں حملوں میں خانہ کعبہ کی عمارت پر منجنیق سے پتھر برسائے گئے اور آگ کے تیر چلائے گئے۔دونوں حملوں میں خانہ کعبہ کی عمارت منہدم کر دی گئی ،بعد میں تعمیرِ نو کی گئی۔مسجد نبوی کی بے حرمتی کی گئی۔مکہ اور مدینہ پر حملہ کے وقت ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔حجاج بن یوسف نے کوفہ میں ایک لاکھ تیس ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔مختار ثقفی نے قاتلین حسین ؑ کو عبرتناک انجام تک پہنچایا،مصعب بن عمیراور مختار کی جنگ میں مختار مارا گیا،حجاج اور مصعب کی جنگ میں مصعب مارا گیا،اندلس میں فتح حاصل کرنے کے بعد فاتح مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہو گئی جس کے نتیجہ میں ہزاروں مسلمان ،مسلمانوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے گئے۔مدینہ پر خارجیوں نے حملہ کیا اور ہزاروں مسلمانوں ہی کا قتل عام ہوا۔خلافت کے دو دعویدارابراہیم بن ولید اور مروان بن محمد کے درمیان خونریز جنگ ہوئی۔یزید ثالث کی لاش کو قبر سے نکال کر سولی پر چڑھایا گیا۔فاتح سندھ محمد بن قاسم،فاتح وسط ایشیا مسلم بن قتبیہ،اور فاتح اندلس موسیٰ بن نصیر کے تمام بیٹوں کو مروا دیا گیا۔اس قسم کے اور بے شمار واقعات ہیں جو مسلمانوں کی عظیم فتوحات کے دور میں رونما ہو رہے تھے۔اور مسلم امہ یا اسلامی بھائی چارے جیسے الفاظ کا مذاق اڑا رہے تھے۔
جب امیہ دور کا زوال آیا اور عباسیوں کو عروج حاصل ہوا تو امیر معاویہ اور عمر بن عبدالعزیز کے سوا باقی تمام اموی حکمرانوں کی لاشیں قبروں میں سے نکال کر جلا دی گئیں۔ اموی اندلس پر حکمران تھے اور عباسی بغداد پر۔فرانس کے بادشاہ شارلمین نے جب اندلس پر حملہ کیا تو خلیفہ ہارون الرشید نے شارلمین کو قیمتی تحائف بھیجے ۔امیہ اور عباسیہ کی جنگوں میں اندلس اور افریقہ کے ہزاروں مسلمان مارے گئے۔عباسی اقتدار کے بانی ابو مسلم خراسانی نے اپنے عرب حریف ابوسلمہ کو قتل کرادیا،ابو جعفر منصور نے ابو مسلم خراسانی کو قتل کرا دیا،ان ساری لڑائیوں میں ستر ہزار سے زیادہ مسلمان موت کے گھاٹ اتر گئے۔قرامطی مکہ پر حملہ آور ہوئے اور حجر اسود کو اکھاڑ کر ساتھ لے گئے۔عباسی دور کے پانچ سو سال میں ۳۷ خلفاء بنے۔ان میں سے پندرہ کو قتل کیا گیا۔چودہ خلفاء اپنے مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں مارے گئے جبکہ آخری عباسی خلیفہ تاتاریوں کے ہاتھوں مارا گیا۔تاتاری یلغار کے وقت مسلمانوں میں فرقہ پرستی اور تکفیر بازی کی لعنت اس حد تک سرایت کر گئی تھی کہ ایک فرقہ کے لوگ تاتاریوں سے ساز باز کرکے یقین دہانی حاصل کرتے کہ شہر کا دروازہ کھول دینے پر تاتاری ان کے مخالف فرقے والوں کاقتلِ عام کریں گے۔جب دروازہ کھلتا تو کسی فرقہ کے امتیاز کے بغیر تاتاریوں نے سب کا قتل ِعام کیا۔ایسا صرف ایک بار نہیں ہوا۔کئی شہروں کے دروازے کھولنے والوں نے ہر بار یہی احمقانہ ساز باز کی اور اپنے انجام کو پہنچے۔خلافتِ عثمانیہ میں محمد ثالث جب خلیفہ بنا تو اس نے اپنے انیس بھائیوں کو قتل کروا دیا۔کسی مذہبی رہنما نے اسے اسلام کے منافی نہ کہا۔ایرانیوں،افغانیوں اور ترکوں کی باہمی جنگوں میں مفتوحین کے سروں کے مینار بنائے جاتے۔داخلی طور پر اپنے بھائیوں،بیٹوں کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا کر اندھا کرا دینا تو معمولی بات تھی۔بھائیوں،بیٹوں کو قتل بھی کروایا جاتا رہا۔
غزنوی سلطنت میں محمود غزنوی نے خوارزم،خراسان،فارس اور ملتان کی مسلمان حکومتوں کا خاتمہ کرکے قبضہ کر لیا۔خلیفہ بغداد کو بغداد پر حملہ کرنے کی دھمکی دی،جسے خلیفہ نے قرآن کا واسطہ دے کر روکا۔غوریوں کو موقعہ ملا تو انہوں نے غزنی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔سات روز تک قتلِ عام ہوتا رہا ، لاکھوں مسلمان مار دئیے گئے۔غزنوی بادشاہوں کی قبریں اکھاڑ کر لاشیں جلا دی گئیں۔کیسی کمال کی بات ہے کہ غزنوی اور غوری دونوں ہی ہمارے ہیرو ہیں۔ہندوستان میں التمش کی اولاد میں تخت نشینی کی جنگ میں رضیہ سلطان کا قتل،جلال الدین خلجی کے ہاتھوں کیقباد کا قتل ،علاؤالدین خلجی کے ہاتھوں جلال الدین خلجی کا قتل،ظہیرالدین بابر اور ابراہیم لودھی کے درمیان پانی پت کی جنگ اور جنگ میں ابراہیم لودھی کا قتل،یہ سب ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔بابر کی اولاد میں تخت نشینی کی جنگ میں ایک دوسرے کا قتل، جہانگیر نے اپنے بیٹے خسرو سے جنگ کی اور قید ہی میں خسرو کی موت ہوئی۔شاہ جہاں کی طرف سے اقتدار کے لیے اپنے چچا زاد بھائیوں،اور بھتیجوں کا قتل،شاہجہاں کے بیٹوں میں اقتدار کی جنگ میں اورنگ زیب کے ہاتھوں باقی سارے بھائیوں کا قتل۔ مغلوں کے زوال تک ان کی محلاتی سازشوں اور اندرونی ظلم و غارت گری کے باعث خون کے رشتے’خونی‘ رشتے بنے رہے،خون بہتا رہا۔کیا اس خونی تاریخ کے ان ابواب میں بھی کافروں کی سازشیں کارفرما تھیں؟کون ہے کتنا گنہگار کہوں یا نہ کہوں!
جن احباب کو یہ کالم پسند آئے اس کی داد بطور خاص حسن جعفر زیدی صاحب کو دی جائے،جن سے میں نے استفادہ کیا ہے،جنہیں پسند نہ آئے توان کی ساری ملامت کا سزاوار میں خود ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔