خواجہ الطاف حسین حالیؔ (1914۔1837) اْردو کے مشہور شاعر ‘ انشا پرداز سوانح نگار اور نقاد گذرے ہیں۔ غالب کے شاگرد تھے اور سرسید کی اصلاحی تحریک میں حصہ لیا‘ ابتداء میں قدیم طرز کی غزل گوئی کی۔بعد میں ادب کی مقصدیت کے قائل ہوئے انہوں نے انجمن پنجاب کے مشاعروں میں نظمیں سناتے ہوئے نظم گوئی کو فروغ دیا۔ مشہور مسد س مدو جزراسلام 1879ء میں لکھی۔ سوانح نگاری میں آپ کی یادگار تصانیف حیات سعدی 1882ء یادگار غالب1897اور حیات جاوید 1901ء مشہور ہیں۔ اپنی شاعری کے مجموعے کو ایک طویل مقدمہ کے ساتھ شائع کیا جس میں شاعری کے بارے میں اْصولی بحثیں کی گئیں۔ بعد میں یہ کتاب ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ کے عنوان سے 1893ء میں علٰحیدہ شائع ہوئی اور اس کتاب کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ حالی ’’جدید اْردو تنقید کے بانی‘‘ قرار پائے۔شاعری میں حالیؔ کا مشہور کارنامہ ان کا تحریر کردہ مسدس ہے۔ مسدس کے بارے میں رشید احمدصدیقی نے کہا کہ:
’’مْسدّس حالی وہ شاہکار ہے، جس نے شاعری کی دنیا میں اور قوم کی زندگی میں عظیم انقلاب برپا کردیا۔ حالی اگر کچھ نہ لکھتے، صرف مْسدّس ہی لکھتے تو بھی وہ بڑی شخصیت ہوتے۔‘‘(بہ حوالہ مضمون۔مسدس حالی کے ادبی اور فنی محاسن ۔ از مولانا معین الدین۔ ماخذ دارلعلوم دیو بند ویب سائٹ )
حالی ؔ کے مسدس نے اردو میں قومی شاعری کی بنیاد ڈالی۔مسدس لکھے جانے کی تہذیبی و سماجی وجوہات بھی تھیں۔ 1857ء کے حالات کے بعد مسلمانوں کو ایک طرح سے زوال آگیا تھا۔ مغلیہ سلطنت اورجاگیر داری نظام کے خاتمے کے بعد بے ہنر مسلمانوں اور ہندوستانیوں کے سامنے معاشی بدحالی کا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ دین سے دوری اور بے جا رسم و رواج میں پھنسے مسلمانوں کے لئے کوئی راستہ نہیں تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جس جگہ تاریکی ہوو ہیں سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔ خواب غفلت میں ڈوبی قوم کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے ایک مسیحا کے روپ میں سرسید احمد خاں ہندوستان کی تہذیبی و سماجی زندگی کے افق پر ایک روشن ستارے کی مانند ابھرے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کی ترقی تعلیم کے حصول میں مضمر ہے اور یہ کہ اس قوم کو خواب غفلت سے جگانے کے لئے کچھ کرنا چاہئے۔ انہوں نے حالی ؔ ‘شبلیؔ ‘نذیر احمد‘ آزاد اور دیگر رفقاء کے ساتھ ایک سماجی تحریک شروع کی جسے اردو ادب کی تاریخ میں علی گڑھ تحریک کہا جاتا ہے۔ سرسید چاہتے تھے کہ قوم کو جھنجھوڑنے کے لئے کوئی ایسی شاہکار نظم لکھی جائے جس میں مسلمانوں کا شاندار ماضی بھی دکھایا جائے اور موجودہ پستی کے ساتھ مستقبل کی راہ بھی دکھائی جائے۔ انہوں نے دیکھا کہ حالی ؔ پرانی شاعری سے بیزار تھے اور اردو میں نظم نگاری کے تجربے کر رہے تھے چنانچہ انہوں نے حالی ؔ سے مسدس لکھنے کی فرمائش کی۔حالی ؔ بھی پرانی غزلیہ شاعری سے بیزار تھے اور ادب کی مقصدیت کے لئے کام کر رہے تھے ۔ حالیؔ اپنی کیفیت کے بارے میں مسدس میں لکھتے ہیں:
زمانے کا نیا ٹھاٹھ دیکھ کر پرانی شاعری سے دل سیر ہوگیا تھا۔ اور جھوٹے ڈھکوسلے باندھنے سے شرم آنے لگی تھی۔ نہ یاروں کے ابھاروں سے دل بڑھتا تھا نہ ساتھیوں کی ریس سے کچھ جوش آتا تھا۔ مگر کہ ایک ناسور کا منہ بند کرنا تھا جو کسی نہ کسی راہ سے تراوش کئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔اس لئے بخارات درونی جن کے رکنے سے دم گھٹا جاتا تھا دل و دماغ میں تلاطم کر رہے تھے اور کوئی رخنہ ڈھونڈتے تھے۔ قوم کے ایک سچے خیر خواہ نے جو اپنی قوم کے سواتمام ملک میں اسی نام سے پکارا جاتا تھا اور جس طرح خود اپنے پرزور ہاتھ اور قوی بازو سے بھائیوں کی خدمت کر رہا تھا اسی طرح ہر اپاہج اور نکمے کو اسی کام پر لگانا چاہتا تھا آکر ملامت کی اور غیرت دلائی کہ حیوان ناطق ہونے کا دعوی کرنا اور خدا کی دی ہوئی زبان سے کچھ کام نہ لینا بڑے شرم کی بات ہے۔۔۔ ہر چند اس حکم کی بجا آوری مشکل تھی اور خدمت کا بوجھ اٹھانا دشوار تھا ۔ مگر ناصح کی جادو بھری تقریر جی میں گھر کر گئی۔ دل سے ہی نکلی تھی دل میں جاکر ٹہری۔ برسوں کی بجھی ہوئی طبعیت میں ایک ولولہ پیدا ہوا ۔ باسی کڑی میں ابال آیا۔ افسردہ دل بوسیدہ دماغ جو امراض کے متواترحملوں سے کسی کام کے نہ رہے تھے انہیں سے کام لینا شروع کیا اور ایک مسدس کی بنیاد ڈالی۔ ( الطاف حسین حالی۔ مسدس مدوجزر اسلام۔ص۔۳۔۴)
ان خیالات کے ساتھ حالی ؔ نے سرسید کی فرمائش پر لبیک کہا اور یہ شہرہ آفاق نظم’’ مسدس مدوجزر اسلام ‘‘ لکھی۔ جس پر سب سے اہم تاریخی تبصرہ سرسید نے کیا جب کہ انہوں نے مسدس دیکھ کر کہا کہ’’ اگر خدا نے مجھ سے پوچھا کہ دنیا سے کیا لائے ہوتو، میں کہہ دوں گا کہ حالی سے مْسدّس لکھوالایا ہوں۔‘‘مسدس کی اس سے اچھی تعریف اور کسی نے نہیں کی۔حالی ؔ نے یہ نظم لکھنے کے لئے مسدس کا فارم استعمال کیا۔ مسدّس چھ مصرعوں والی نظم کو کہتے ہیں، اس کے ہر بند میں چھ مصرعے ہوتے ہیں۔ اس کے پہلے چار مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اورآخری شعر کسی اور قافیہ میں آتا ہے۔ مسلسل واقعات، یعنی قومی، سیاسی اور اخلاقی موضوعات کی ادائیگی کے لیے مسدّس نہایت موزوں صنف ہے۔اس میں روانی ہوتی ہے اور اثر انگیزی بھی۔ اردو میں اگرچہ مسدّس کسی الگ صنف سخن کی حیثیت نہیں رکھتی، تاہم یہ اردو شاعری کا اہم جز ہے، عربی اور فارسی شاعری میں مسدّس کاوجود نہیں ہے۔ لیکن اردو میں حالیؔ کا مدوجزر اسلام اور علامہ اقبال کا شکوہ وجواب شکوہ چونکہ اس طرز میں لکھا گیا ہے، لہٰذا نظم کی اس صورت کو کافی اہمیت حاصل ہوچکی ہے۔اس کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس زمانہ میں کربلا اور اہلِ بیت کے واقعات کے اظہار کا بہترین ذریعہ مْسدّس سمجھا جاتا تھا۔ اس طرز میں غم والم کی داستانیں سْنا سْنا کر لوگوں کو رْلایا جاتا تھا؛ چونکہ حالیؔ ہی حقیقتاً قوم کا مرثیہ بھی لکھ رہے تھے، لہٰذا انھوں نے مْسدّس کو اس مقصد کے لیے موزوں ترین صنف تصوّر کیا اور اسی کو اپنایا۔ اس وقت مثنوی محض رزم وحزن کے واقعات کے لیے مخصوص ہوچکی تھی، لہٰذا ممکن نہ تھا کہ اس کے ایک ایک شعر میں تاریخ کے علاحدہ واقعات کا ذکر کیا جاتا۔ اس لئے بھی حالی نے مْسدّس کو اپنایا، اس کے ہربند میں الگ الگ واقعات کے تذکرہ کی گنجائش تھی،اس میں تمام واقعات سامع پر کھل کر سامنے آجاتے ہیں، جس سے ہرقاری صحیح نتیجہ اخذ کرسکتا ہے۔
حالی ؔ کی مسدس کی مقبولیت کی ایک وجہہ بھی اس کا فارم ہے کہ ایک ایک بند میں بات بیان کی جائے اور بند کے آخری دو مصرعوں میں بات کو انجام تک پہونچایا جائے۔مسدس کو اردو کی پہلی طویل قومی نظم کہا گیا۔اس نظم میں حالیؔ نے مسلمانوں کی مذہبی، تہذیبی اور علمی زندگی کا ارتقا دکھایا، ظہور اسلام اور مسلمانوں کے زوال کی کہانی پیش کی۔ نظم کا مقصد ایک طرح سے قومی بیداری اور اس ناقابل تلافی نقصان کا ازالہ کرنا مقصود تھا، جو معاشی اور اخلاقی تنزّل کی وجہ سے ظہور میںآ یا ہے، اس کے لیے شاعر نے ان تمام عیوب اور کمزوریوں کو انتہائی موثر اور درد انگیز طریقہ سے بیان کیا ہے۔ اس کا مقصد احساس زیاں کو بیدار کرنا تھا اور مسلمانوں کی پستی کا علاج بھی۔ خود حالی نے مسدس کا اجمالی تعارف بیان کرتے ہوئے لکھا کہ:
’’اس مسدس کے آغاز میں پانچ سات بند تمہید کے طور پر لکھ کر عرب کی ابتر حالت کا خاکہ کھینچا ہے، جو ظہورِ اسلام سے پہلے تھی اور جس کا نام اسلام کی زبان میں جاہلیت رکھا گیا تھا، پھر کوکب اسلام کا ظہور ہونا اور نبی اْمّی کی تعلیم سے اس ریگستان کا سرسبز وشاداب ہوجانا اوراس ابررحمت کا ہرا بھرا چھوڑ جانا اور مسلمانوں کا دینی ودنیوی ترقیات میں تمام عالم پر سبقت لے جانا بیان کیا ہے۔ اس کے بعد ان کے تنزّل کا حال لکھا ہے اور قوم کے لیے اپنے بے ہنر ہاتھوں سے ایک آئینہ بنایا ہے جس میں آکر وہ اپنے خدوخال دیکھ سکتے ہیں کہ ہم کون تھے اور کیا ہوگئے۔‘‘ ( الطاف حسین حالی۔ مسدس مدوجزر اسلام۔ص۔۳۔۴)
مسدس کا آغاز اس رباعی سے ہوتا ہے
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے ( مسدس ۔ ص۔۱)
مسدس میں خیالات کی روانی ہے اور د لسو ز انداز میں بات کہی گئی ہے۔ مسلمانوں کی پستی کو بیان کرتے ہوئے حالیؔ کہتے ہیں:
یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے
بھنور میں جہاز آکے جس کا گھرا ہے
کنارہ ہے دور اور طوفاں بپا ہے
گماں ہے یہ ہردم کہ اب ڈوبتا ہے
نہیں لیتے کروٹ مگر اہل کشتی
پڑے سوتے ہیں بے خبر اہل کشتی
عرب کی جہالت اور پستی بیان کرنے کے بعد حالیؔ نے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وصلم کی بعثت مبارکہ اور آپﷺ کی جانب سے لائی گئی اسلام کی روشنی کو بیان کیا۔
سبق پھر شریعت کا ان کو پڑھایا
حقیقت کا گر ان کو ایک اک بتایا
زمانے کے بگڑے ہوؤں کو بنایا
بہت دن کے سوتے ہوؤں کو جگایا
کھلے تھے نہ جو راز اب تک جہاں پر
وہ دکھلا دئے ایک پردہ اٹھا کر ( مسدس ۔ص ۲۰)
مسدس میں آپ ﷺ کی شان میں کہے گئے وہ نعتیہ اشعار بھی ہیں جو اکثر محافل نعت میں پڑھے جاتے ہیں۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ ( مسدس ۔ص۲۲)
ہندوستانیوں کی پستی کا حال بیان کرتے ہوئے حالی کہتے ہیں:
نہ اہل حکومت کے ہمراز ہیں ہم
نہ درباریوں میں سرفراز ہیں ہم
نہ علموں میں شایان اعزاز ہیں ہم
نہ صنعت میں حرفت میں ممتاز ہیں ہم
نہ رکھتے ہیں کچھ منزلت نوکری میں
نہ حصہ ہمارا ہے سوداگری میں
۔۔۔
تنزل نے کی ہے بری گت ہماری
بہت دور پہنچی ہے نکبت ہماری
گئی گذری دنیا سے عزت ہماری
نہیں کچھ ابھرنے کی صورت ہماری
پڑے ہیں اک امید کے ہم سہارے
توقع پہ جنت کے جیتے ہیں سارے ( مسدس ۔ص ۴۸)
حالیؔ مقصدی شاعری کے علمبردار تھے۔ اس لئے انہوں نے مسدس میں ایسی شاعری اور شعرا کی برائی کو جن کے فن سے کسی کو فائدہ نہ ہو۔ اس ضمن میں مسدس میں ان کے مشہور زمانہ اشعار اس طرح ہیں۔
وہ شعر و قصائد کا نا پاک دفتر
عفونت میں سنڈاس سے ہے جو بد تر
زمیں جس سے ہے زلزلہ میں برابر
ملک جس سے شرماتے ہیں آسماں پر
ہوا علم و دیں جس سے تاراج ہمارا
وہ علموں میں علم ادب ہے ہمارا
۔۔۔
برا شعر کہنے کی گر کچھ سزا ہے
عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے
تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے
مقرر جہاں نیک و بد کی سزا ہے
گنہگار واں چھوٹ جائیں گے سارے
جہنم کو بھردیں گے شاعر ہمارے ( مسدس ۔ص۸۰)
مسدس میں قوم کی زبوں حالی بیان کرنے کے بعد مسلمانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے اور آدمیت و انسانیت کا سبق پڑھاتے ہوئے حالی مسئلے کا حل یوں بیان کرتے ہیں:
بس اب علم و فن کے وہ پھیلاؤ ساماں
کہ نسلیں تمہاری بنیں جن سے انساں
غریبوں کو راہ ترقی ہو آساں
امیروں میں ہو نور تعلیم تاباں
کوئی ان میں دنیا کی عزت کو تھامے
کوئی کشتی دین و ملت کو تھامے
۔۔۔
بنے قوم کھانے کمانے کے قابل
زمانے میں ہو منہ دکھانے کے قابل
تمدن کی مجلس میں آنے کے قابل
خطاب آدمیت کا پانے کے قابل
سمجھنے لگیں اپنے سب نیک و بد وہ
لگیں کرنے آپ اپنی مدد وہ ( مسدس ۔ص۱۱۸)
مجموعی طور پر مسدس قوم کا مرثیہ ہے۔ اس مسدّس نے مسلمانوں کو ان کی تباہی وتنزّل کے اسباب سے آگاہ کیا اور یہ بتایا کہ اس قسم کے حادثہ سے انھیں کیوں کر دوچار ہونا پڑا اور اب انھیں کیا تدابیر اختیار کرنی چاہئیں؛ لہٰذا اب یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ ’’مسدّس حالی ‘‘ ایک ایسی انگوٹھی ہے جس میں اس عہد کے واقعات کے نگینے جڑے ہیں۔یہ نظم ایک ایسا جامِ جم ہے جس میں ہم اس عہد کے مسلمانوں کو ماتم کناں دیکھتے ہیں اور ہمارا دل بھی ان کی حالت پر رقت سے بھر آتا ہے۔ اس بنا پر اگر’’ مسدّس حالی‘‘ کو اس عہد کی مبسوط تاریخ کہا جائے تو چنداں بے جانہ ہوگا۔ لہٰذا کسی ایسی اہم تاریخی دستاویز کو نظرانداز کرنا کسی قوم کے لیے ممکن نہیں، بس یہی صورت حال ’’مسدس حالی‘‘ کی ہے۔ابتداء میں مسدس کا اختتام حزنیہ باتوں پر ہی تھا بعد میں ۱۳۵۳ھ میں حالیؔ نے ضمیمہ شامل کیا۔ اور قوم کو نئے حوصلے اور بلند عزائم کی راہیں دکھلائیں۔
مسدّس حالی نہ صرف مضمون اور مواد کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔ بلکہ اعلیٰ ادبی اور فنّی خصوصیات کا حامل بھی ہے، مسدس روانیِ الفاظ اور برجستگی کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ الفاظ بالکل سیدھے سادھے ہیں، ناجائز مبالغہ سے پرہیز کیاگیاہے، لمبی چوڑی تشبیہات اور استعارات سے بھی گریز کیاگیاہے۔ اس کے باوجود تمام نظم رقتِ قلب، وفورِ جذبات اور جوشِ بیان سے بھرپور ہے اور یہی اس کی عمدگی ہے۔
الطاف حسین حالیؔ کی اس نظم نے نہ صرف مسلمان قوم کو خوابِ خرگوش سے جگایا۔ بلکہ اردو شاعری کو بھی نئی منزلوں اور بلند مقاصد سے آگاہ کیا، یہ مْسدّس اردو زبان کی پہلی نظم ہے، اس نے اردو شاعری کے دھارے کو موڑدیا، اس سے اردو شاعری کا نیادور شروع ہوتا ہے، اِسے الہامی نظم کہاجاسکتا ہے، مْسدّس سے اردو میں قومی اور وطنی نظموں کی بنیاد پڑی، یہ نظم زوالِ اسلام کی کہانی ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے تنزّل کا مرثیہ بھی ہے، اس کے ساتھ مسلمانوں کو عظمتِ رفتہ کا احساس دلاکر کچھ کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اس نظم نے مسلمانوں کے لیے جگانے کا کام کیا ہے، حالی نے مْسدّس میں تمام قومی اچھائیوں اور بْرائیوں کا جائزہ لیا ہے اور اس میں خلوص اور شاعرانہ دردمندی ہے، فنّی اعتبار سے مْسدّس میں کچھ ایسی خوبیاں ہیں جو آج کے دور کی شاعری کے لیے مشعلِ راہ بن سکتی ہیں، زبان کی سادگی، سلاست، دور ازکار تشبیہوں اور استعاروں سے پرہیزایسی چیزیں ہیں،جن سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، اس نظم میں حقیقت نگاری، سادہ بیانی اور اثرانگیزی کے تمام عناصر موجود ہیں، جس سے اعلیٰ درجہ کی نظم تخلیق ہوتی ہے۔ مْسدّس سے قومی شاعری کا آغاز ہوتا ہے، جس کی آخری کڑی علامہ اقبال کی قومی اور ملّی شاعری ہے۔ اس نظم کی ایک اور بڑی خوبی اس کا تسلسل ہے؛ اس لیے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمام نظم ایک ہی وقت، ایک ہی مجلس میں ختم کی گئی ہے؛ کیونکہ نظم میں کوئی بے ربطی دکھائی نہیں دیتی۔
مسدس حالی کی عصری معنویت بھی ہے کہ آج ایک مرتبہ پھر مسلم قوم بے دینی‘کفر و الحاد‘بے راہ روی اور اسراف اور بے جا رسم و
رواج کی لعنتوں میں پڑی ہے۔ دولت مندوں اور غریبوں کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے۔ اور جو قوم ساری دنیا کو امن و آشتی اور فلاح و کامیابی کا راستہ دکھانے کے لئے بھیجی گئی تھی وہ ایک مرتبہ پھر سرسید جیسے میر کارواں اور حالیؔ جیسے ہمدرد انسان کی رہبری کی منتظر ہے ایسے میں اگر مسدس حالیؔ سے سبق لیا جائے اور اس کے پیغام کو ایک مرتبہ پھر عام کیا جائے تو بہ حیثیت قوم مسلمانوں کا بھلا ہوسکتا ہے۔مسدس کے بارے میں انیس عائشہ لکھتی ہیں:
حالی ؔ نے اس راز کو پالیا تھا کہ قوم کی پست حالت کے وقت انسان کے ذہن میں دو خیال گزرتے ہیں ایک تو یہ کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے ۔ دوسرے یہ کہ کچھ کر گزرنا چاہئے۔ پہلے خیال سے کچھ نہیں ہوتا۔ دوسرے سے عجائبات ہوجاتے ہیں۔ قوم کے وہ لوگ جو زمانے کی ضرورتوں اور مصلحتوں سے واقف ہیں، ان کو جو بن پڑے کر گزرنا چاہئے۔ لہذا سر سید کے اصرار پر نظم کی پرانی ڈگر سے ہٹ کر قوم کیلئے مسدس ’’مدو جزراسلام‘‘ لکھی۔( انیس عائشہ۔ ادبی ڈائری ۔ روزنامہ سیاست۔۲۔ اکٹوبر ۲۰۱۵ء)
ولانا معین الدین سید پور بنگلہ دیش نے اپنے ایک مضمون ’’مسدس حالی کے ادبی اور فنی محاسن‘‘ میں مسدس پر مشاہیر ادب کی آرا کو یوں پیش کیا۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق کے مطابق ’’انیسویں صدی میں کسی شخص نے ہماری زبان وادب پر ایسے گراں قدر احسانات نہیں کیے، جتنے حالی نے، وہ ہماری جدید شاعری کے امام اور مجتہدہیں۔‘‘
جبکہ پروفیسر احتشام حسین کا کہنا ہے کہ :
’’خواجہ الطاف حسین کا نام ان کی قومی شاعری کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اگر حالی نہ ہوتے تو اقبال بھی نہ ہوتے۔‘‘
(بہ حوالہ مضمون۔مسدس حالی کے ادبی اور فنی محاسن ۔ از مولانا معین الدین۔ ماخذ دارلعلوم دیو بند ویب سائٹ )
بہر حال ’’مدوجزر اسلام یا مْسدّس حالی ‘‘ ایک عہد آفریں کارنامہ ہے، جس نے سرسید کی اصلاحی تحریک کوخاص طور سے اور ان کے تعلیمی پہلو کو مسلمانوں میں مقبول عام بنانے میں اہم حصّہ لیا اور جہاں تک اصلاحی تحریک کا تعلق ہے، مْسدّس حالی اس تحریک کی ہمہ گیرمقبولیت اور کامیابی کا زینہ بن گئی۔اور یہ مسدس ہر زمانے میں قومی اصلاح کے ذریعہ بن گئی۔
“