نیکی کر دریا میں ڈال والی کہاوت تو سب نے سنی ہو گی، میں بھی اس کہاوت کے پیچھے چھپے مفہوم کو بڑی اچھی طرح سے سمجھتا ہوں لیکن میرے خیال میں کچھ نیکیاں ایسی ہوتی ہیں جو دوسروں کو بتانی بہت ضروری ہوتی ہیں تاکہ دوسرے لوگوں میں بھی نیکی کی تحریک پیدا ہو۔ ایسی ہی ایک نیکی دو روز پہلے سندھ کے مشیر قانون مرتضی وہاب صدیقی نے سرانجام دی ہے۔ چند روز پہلے ایک سپورٹس جرنلسٹ اعجاز وسیم باقری کی توسط سے ہاکی کے ایک سابق قومی کھلاڑی اولمپئین نوید عالم کی بیٹی کی اپنے والد کے علاج کے لیے مدد کی اپیل ٹوئیٹر پر وائرل ہوئی جس میں بتایا گیا کہ شوکت خانم ہسپتال لاہور میں نوید عالم کو بلڈ کینسر کی تشخیص ہوئی ہےاور شوکت خانم ہسپتال کی انتظامیہ کی جانب سے علاج کا خرچہ چالیس لاکھ روپے بتایا گیا ہے۔ یہ ٹوئیٹ خاکسار کی نظر سے بھی گزری تو دل کو دھچکہ سا لگا۔ ایک تو قومی کھلاڑی کا موذی مرض میں مبتلا ہونا، دوسرا شوکت خانم ہسپتال جیسا ادارہ جسے کروڑوں پاکستانی ہر سال دل کھول کر امداد اور زکات دیتے ہیں ان کی جانب سے قومی ہیرو کو مفت علاج کی سہولت میسر نہ کرنے کا سُن کربہت مایوسی ہوئی۔ چلیں شوکت خانم ہسپتال نہ سہی لیکن پنجاب حکومت، ہاکی فیڈریشن، سپورٹس بورڈ اور کھیلوں سے متعلقہ دوسرے اداروں کی جانب سے بھی سرد مہری کا ہی رویہ دیکھنے میں آیا۔ یہ سب دیکھ کر میرے ذہن میں سب سے پہلا خیال ہی سندھ حکومت کا آیا کہ اگر کوئی اس قومی کھلاڑی کی اس مشکل وقت میں مدد کر سکتا ہے تو وہ سندھ حکومت ہی ہے۔ اس پر میں نے اس ٹوئیٹ کا لنک مرتضی وہاب صاحب کو میسج کردیا اور اپیل کی کہ نوید عالم کے علاج کے لیے سندھ حکومت کا تعاون درکار ہے۔ میری توقع سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ اگلے دو روز میں ہی مرتضی وہاب نے وزیراعلی سندھ سے منظوری کے بعد شوکت خانم ہسپتال کے نام نوید عالم کے علاج پر اٹھنے والے تمام اخراجات سندھ حکومت کی جانب سے ادا کیے جانے کا ڈائریکٹو جاری کروا کے اس کی کاپی شوکت خانم ہسپتال اور متعلقہ وزارت کو بھجوا دی۔ جمعہ والے دن میں سو کر اٹھا تو مرتضی وہاب کا میسج آیا ہوا تھا کہ ڈائریکٹو جاری ہو چکا ہے اور نوید عالم کا علاج بھی شروع ہو گیا ہے۔ آج سنئیر صحافی محمد خبیف کا مرتضی وہاب کےبارے ایک کالم پڑھا تو سوچا کہ مرتضی وہاب کا ایک کامیاب سیاسی چہرہ تو سب نے دیکھا ہے کیوں نہ مرتضی وہاب کا انسانیت کےلیے ادا کیا جانے والا کردار بھی عوام کے سامنے لایا جائے۔
سنئیر صحافی محمد خنیف اپنے کالم “مرتضی وہاب بڑے ہو کر کیا بنو گے؟” میں مرتضی وہاب کی سٹوڈنٹ لائف کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب ایک دفعہ انہوں نے مرتضی وہاب سے پوچھا کہ بڑے ہو کر کیا بنو گے تو مرتضی وہاب نے فورا لیکن مختصرا صرف اتنا جواب دیا “میئر کراچی”۔ محمد خنیف کے کالم اور اس واقعہ کو بیان کرنے کا پس منظر سندھ حکومت کا مرتضی وہاب کو بلدیہ کراچی کا ائڈمنسٹریٹر کرنے کا فیصلہ ہے۔ چونکہ اس وقت پورے ملک میں بلدیاتی ادارے موجود نہیں ہیں اس لیےبلدیاتی اداروں کا نظام چلانے کے لیے ایڈمنسٹریٹر مقرر کیے گیے ہیں۔ ایڈمنسٹریٹر ایک میئر کی طرح ہی بلدیہ کا سربراہ ہوتا ہے اور میئر کے تمام اختیارات استعمال کر سکتا ہے
جب مرتضی وہاب کی بطور ایڈمنسٹریٹر کراچی تقرری کی خبریں سامنے آنا شروع ہوئیں تو کچھ لوگوں نے مخالفت برائے مخالفت کرتےہوئے تنقید بھی شروع کر دئ۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل کی جانب سے کہا گیا کہ مرتضی وہاب کے پاس تجربہ نہیں ہے اور اس تقرری کے لیے وفاقی حکومت سے مشورہ نہیں کیا گیا۔ جہاں تک مرتضی وہاب کی قابلیت اور تجربے کا تعلق ہے تو مرتضی وہاب ایک اعلی تعلیم یافتہ اور باصلاحیت شخصیت ہیں جو وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی کور ٹیم کا بھی حصہ ہیں۔ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ جس طرح خود ایک نہایت متحرک شخصیت ہیں اور ہمہ وقت عوامی مسائل کی حل کے لئے کوشاں رہتے ہیں اسی طرح سید مراد علی شاہ کی ٹیم بھی ایسے ہی متحرک اور باصلاحیت افراد پر مشتمل ہے اور مرتضی وہاب اس ٹیم کے ایک اہم رکن ہیں۔ مرتضی وہاب سینٹ آف پاکستان کے رکن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پچھلے کئی برسوں سے سندھ حکومت میں بطور مشیر قانون وزارت قانون کے انچارج وزیر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں، وزارت ماحولیات کا اضافی چارج بھی مرتضی وہاب کے پاس ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت سندھ کی ترجمانی کی ذمہ داری بھی مرتضی وہاب کے پاس ہی ہے۔ پروفیشن کے اعتبار سےمرتضی وہاب بیرسٹر ہیں۔ مرتضی وہاب کے پاس سندھ کابینہ میں جتنے بھی قلم دان رہے ہیں، مرتضی وہاب نے ان سے پورا انصاف کیا ہے اور ان تمام شعبوں میں کام ہوتا نظر بھی آ رہا ہے۔
اب میں اس بات کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ اتنا تجربہ اور قابلیت رکھنے والا شخص بلدیہ کراچی کا ایڈمنسٹریٹر کیوں نہیں بن سکتا جبکہ اعتراض کرنے والا شخص صرف میٹرک پاس ہونے کے باوجود گورنر سندھ کے عہدے پر براجمان ہے۔
گورنر سندھ کا دوسرا اعتراض کہ اس تقرری کے لیے سندھ حکومت نے وفاق سے مشاورت نہیں کی تو اس سلسلے میں گورنر سندھسے پوچھا جانا چاہئیے کہ کیا باقی سارے پاکستان میں ہونے والی ایڈمنسٹریٹرز کی تقرریوں میں وفاق سے مشاورت کی گئی ہے؟ اورسب سے زیادہ اہم بات کہ کیا ایسا کرنا قانونی طور پر ضروری بھی ہے کہ نہیں؟ تو اس کا جواب نفی میں۔ ایڈمنسٹریٹرز کی تعیناتی کُلی طور پر صوبائی حکومت کا اختیار ہے اور ان تعیناتیوں کے لیے وفاق سے کسی مشاورت کی ضرورت نہیں ہوتی۔
گورنر سندھ کی بے جا تنقید کے پیچھے دراصل تحریک انصاف کا وہ ڈر اور خوف چھپا ہے کہ مرتضی وہاب جیسا قابل شخص اگر بطورایڈمنسٹریٹر، کراچی کے دیرینہ مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو تحریک انصاف جو پہلے ہی کراچی سے تیزی کے ساتھ سمٹ رہی ہے کہیں کراچی کے سیاسی منظر سے بالکل ہی غائب نہ ہو جائے۔ مرتضی وہاب کی متحرک شخصیت اور قابلیت کو دیکھتے ہوئےتحریک انصاف کا یہ خدشہ بے جا بھی نہیں ہے۔
کراچی کا میئر بننا مرتضی وہاب کا بچپن کا خواب تھا لیکن اگر عوامی نقطعہ نظر سے دیکھا جائے تو اصل چیز یہ نہیں کہ مرتضی وہاب کاخواب پورا ہو گیا، اصل چیز تب ہو گی جب مرتضی وہاب کراچی کے پیچیدہ مسائل کو حل کرکے وہاں کے لوگوں کے خواب بھی پورے کرے گا۔ کراچی کے مسائل کو حل کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے لیکن اطمینان کی بات یہ ہے کہ مرتضی وہاب اتنا بڑا واقعی ہو چکا ہے کہ کراچی کے دیرینہ مسائل کو حل کر سکے۔ وہ تمام مسائل جو پہلے آنے والا کوئی بھی مئیر یا ایڈمنسٹریٹر حل نہیں کر سکا وہ مسائل ایک بڑی ماں کا بیٹا مرتضی وہاب ہی حل کرے گا اور یہ کراچی کے عوام کی امید نہیں کراچی کے عوام کا یقین ہے۔
آخر میں سنئیر صحافی محمد خنیف کے کالم “مرتضی وہاب بڑے ہو کر کیا بنو گے” کے مطابق مرتضی وہاب کراچی کے ایڈمنسٹریٹر تو بن رہے ہیں لیکن یہاں ایک مسئلہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ مرتضی وہاب بڑا تو ہو گیا ہے لیکن اپنی قابلیت، کردار، انسانیت سے پیار اورایک عظیم ماں کی تربیت کے باعث ان تمام بڑے بڑے عہدوں سے بھی بڑا ہو گیا ہے۔
شاباش مرتضی وہاب۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...