قد دراز ، گونج دار آواز ۔۔۔۔ ہجوم ِدوستاں میں تنہا ، ادبی دنیا کا عالم چنا ۔۔۔۔۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ ، ما تھے پر جھنجھلاہٹ ۔۔۔۔۔ رنگوں میں دوڑتا ہوا تیموری خون ، چہرے پر کر بناک سکون ۔۔۔۔۔ جدید شاعری کے دلدادہ ، جوئے شیر لانے پر آمادہ ۔۔۔۔۔ تیشۂ کرب کے حامل ، ادب میں کامل ۔۔۔۔۔ مشاعروں کے چیمپئن ، ادبی ہنگاموں کے شوقین ۔۔۔۔۔ شہر شہر انجمن آراء ، اپنی ذات میں ادارہ ۔۔۔۔۔ نشست مہتابی کے بانی ، باعثِ فروغِ اقدارِ انسانی ۔۔۔۔۔ سابق ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ، بحیثیت انسان اس سے بھی گریٹ ۔۔۔۔۔ تحکمانہ ہر بات ، جنگیزیت کے اثرات ۔۔۔۔۔محکمہ ء اطلاعات پنجاب کے سابق ایڈیشنل سیکریٹری ، افسروں میں شاعر ، شاعروں میں افسری ۔۔۔۔۔ بہاولپور کے ڈویژنل سربراہ ، حرمت پناہ ۔۔۔۔۔ بلیئرڈ کا شوق ، اعلیٰ جمالیاتی ذوق ۔۔۔۔۔ قبیلہ ءمردہ ضمیر کا شاعر ہونے پر نالاں ، مرادآباد سے اسلام آباد تک حلقۂ یاراں ۔۔۔۔۔ باغ و بہار شخصیت کے مالک ، مسلک ِمحبت کے سالک ۔۔۔۔۔ باغبانی مشغلہ ، پورے شہر میں غلغلہ ۔۔۔۔۔ دن میں افسری ، مبتلائے احساس برتری ۔۔۔۔۔ شام کے وقت کلب یا پھر شعر و ادب ۔۔۔۔۔ مضافات کے جوہرِ قابل سے آگہی ، بے مثل ژرف نگاہی ۔۔۔۔۔ نظموں میں رومان ، غزلوں میں سیاست کا رجحان ۔۔۔۔۔ دشمنی میں بیزاری مگر ہو جائے تو مفاہمت سے انکاری ۔۔۔۔۔ شہرت سے بے نیاز ، مقبولیت سے سرفراز ۔۔۔۔۔ نہ بغض ، نہ عناد ، سراپا محبت آباد ۔۔۔۔۔ احترامِ آدمیت کے قائل ، دُکھی انسانیت کی خدمت پر مائل ۔۔۔۔۔ برج کے بہترین کھلاڑی ، رہ چکے ہیں وہاڑی ۔۔۔۔۔ تین خوبصورت بچوں کے باپ ، جن کی تخلیقات پر جمالیات کی چھاپ ۔۔۔۔۔ دیکھنے میں رعب دار ، ملو تو ملنسار ۔۔۔۔۔ نہ طبیعت میں عجز ، نہ سوچ میں انکسار ، دوستوں کے دوست ، یاروں کے یار ۔۔۔۔۔ مقابر کے مورخ نہ ہونے کے دعویدار ، عظیم فنکار ۔۔۔۔۔ نہ غم ، نہ رنج ، مرنجا مرنج ۔۔۔۔۔ مسند ِانصاف پر براجمان ، اعتدال و توازن کی میزان ۔۔۔۔۔ تقریر میں دریا کا سا بہاؤ ، لہجے میں تیز دھاری کا کٹاؤ ۔۔۔۔۔ دفتری معاملات میں دوستوں کی عدم مداخلت پہ کاربند ، قواعد و ضوابط کے پابند ۔۔۔۔۔ نیک سیرت ، نیک خو ، فکر و فن کی آبرو ۔۔۔۔۔ سرو قد ، مائل بہ فربہ جسامت ۔۔۔۔۔ جمال پسند ، شعروں کی سو گند ۔۔۔۔۔ تیشہ بدست فرہاد ، جنتِ فکر شاد ۔۔۔۔۔ برائی کرنے میں بخیل ، بڑے وجیہ و جمیل ۔۔۔۔۔ دوستوں میں سربلند ، ہر معاملے میں شدت پسند ۔۔۔۔۔ خوش فکر ، خوش لباس ، یہ ہیں ہمارے مرتضیٰ برلاس۔
مرتضیٰ بیگ برلاس کو ہوش سنبھالنے کے بعد سے اپنے والد ِگرامی سید فخرالدین بلے کے حلقۂ یاراں میں شامل اور نمایاں دیکھا۔ شاہینوں کے شہر سرگودھا میں پی اے ایف کالج سے متصل ، پی اے ایف روڈ پر واقع آفیسر کالونی میں ڈائرکٹر انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشنز ، سرگودھا ڈویژن سید فخرالدین بلے کو فائیو نمبر بنگلہ الاٹ ہوا تھا۔ یہ علاقہ شہر سے نسبتا” دور سمجھا جاتا تھا۔ ان دنوں انجم نیازی کی آفیسر محکمۂ بلدیات ، ڈاکٹر انور سدید کی محکمۂ اریگیشن ، پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی گورنمنٹ کالج سرگودھا ، پروفیسر غلام جیلانی اصغر بحیثیت پرنسپل اور مرتضیٰ برلاس انکل کی پوسٹنگ غالبا” بحیثیت ایڈیشنل کمشنر ریونیو سرگودھا ہوئی تھی۔ ادبی محافل اور نشستیں سید فخرالدین بلے کی اقامت گاہ کے ساتھ ساتھ اٹھاون سول لائینز گویا کہ ڈاکٹر وزیر آغا کی رہائش گاہ پر اور ایڈیشنل کمشنر ریونیو یعنی برلاس ہاؤس میں بھی باقاعدگی سے سجا کرتی تھیں۔ جبکہ پریس کلب سرگودھا میں بھی شاندار نشستوں کے انعقاد کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ سیدفخرالدین بلے ہاؤس میں ہفتہ وار کم از کم ایک یا دو ادبی نشستیں اور کم از کم چار بی بی سی (بلے برج کلب) کی محفلیں ہوا کرتی تھیں۔
بلے برج کلب کے ریگولر ممبرز میں مرتضی برلاس ، شیخ رشید(سیکریٹری انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشنز پنجاب شیخ حفیظ الرحمن کے بڑے بھائی) ، سید عارف معین بلے ، آنس معین ، محبوب اصغر شیخ(نمائندہ اے پی پی) اور مستقل میزبان سید فخرالدین بلے کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔ مرتضی برلاس رات نو بجے تک کھیل کر یہ کہہ کر اٹھ جایا کرتے تھے کہ بچوں کے ساتھ رات کا کھانا کھا کر پھر انھیں پڑھانا بھی ہے جبکہ شیخ رشید صاحب زیادہ سے زیادہ رات دس بجے تک برج کھیل کر اٹھ جایا کرتے تھے ، انہیں سائیکلنگ کا بہت شوق تھآ اور وہ ہمیشہ سائیکل پر ہی آیا جایا کرتے تھے۔ ان دونوں کی روانگی کے بعد بھی بر ج کا کھیل جاری رہتا تھا۔ اور وہ بھی رات کم از کم ایک ڈیڑھ بجے تک۔
مرتضیِٰ برلاس کا پہلا شعری مجموعۂ کلام تیشۂ کرب منظر عام پر آ چکا تھا۔ تیشۂ کرب کوغیر معمولی شہرت ، مقبولیت اور پزیرائی حاصل ہوچکی تھی۔ اس کا سرورق دختر فیض احمد فیض محترمہ سلیمہ ہاشمی نے بنایا تھا اور واقعی کیا حسین ٹائٹل بنایا تھا۔ مرتضی برلاس کے اس شعری مجموعے میں تمام غزلیات ہی کانٹے کی تھیں۔ ایک شعر تو ہمیں بچپن سے بہت پسند بھی رہا ہے اوراب تک یاد بھی ہے۔ ملاحظہ کیجئے۔
تم اک ایسے شخص کو پہچانتے ہو یا نہیں
جس کا چہرہ بولتا ہے اور لب گویا نہیں
یہ ضیاء الحق کے عہد آمریت کے ابتدائی تین برسوں کا قصہ ہے۔ سید فخرالدین بلے کو بھی مقربین و مخلصین ذوالفقار علی بھٹو میں شمار کیا جاتا تھا۔ اسی پاداش میں انیس سو اسی میں انہیں جبری طور پر ریٹائر کردیا گیا۔ ایل پی آر کا ایک برس کا عرصہ انہوں نے سرگودھا میں ہی گزارا اور ان کی رہائش گاہ پر ادبی محافل اور برج کی نشستوں کا سلسلہ بھی اسی طرح جاری رہا۔ لیکن جب انہوں نے ملتان منتقل ہونے کا ارادہ کرلیا۔ تو ان کے اعزاز میں متعدد الوداعی تقاریب کا اہتمام بھی کیا گیا۔ انہی دنوں ایک تقریب انجم نیازی صاحب نے ایک الوداعی تقریب سجائی۔جس میں ڈاکٹر وزیر آغا،ڈاکٹر خورشید رضوی ،ڈاکٹر انور سدید اور عبدالرشید اشک نے سید فخرالدین بلے کی شخصیت ، فن اور خدمات کے حوالےسے قابل قدر مقالات پیش کیے ، پرویز بزمی نے منظوم خراج پیش کیا اور مرتضی برلاس ، سجاد نقوی ، راغب شکیب ، انجم نیازی اور پروفیسر غلام جیلانی اصغر نے شاندار انداز اور الفاظ میں خراج پیش کیا۔ سرگودھا سے رخصت ہو کر سید فخرالدین بلے ملتان کیا گئے،کچھ ہی عرصے بعد مرتضی برلاس ، انور سدید اور ڈاکٹر خورشید رضوی کا بھی سرگودھا سے تبادلہ ہوگیا۔
جب مرتضی برلاس صاحب کی بطور ڈپٹی کمشنر وہاڑی تعیناتی ہوئی تو وہ وہاڑی جانےکےلئے پہلے ملتان ہی آئے بلکہ راقم السطور (ظفر معین بلے جعفری) انہیں ایئر پورٹ سے ریسو کرکے بلے ہاؤس لائے تھے۔ مرتضی برلاس صاحب کےوہاڑی پہنچتے کے ساتھ ہی ادبی ہنگامہ آرائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جبکہ سید فخرالدین بلے نے بحثیت ڈائریکٹر آرٹس کونسل ملتان میں ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے حوالے سے تہلکہ مچائے رکھا ۔جس کا آغاز جشن تمثیل ۸۲ سے ہوا تھا۔ وہاڑی میں تعیناتی کے دوران ہی مرتضی برلاس کی والدہ ماجدہ اچانک شدید علیل ہوگئیں اور انہیں وہاڑی سے ملتان شفٹ کیا گیا۔ چند روز وہ ہسپتال میں زیرعلاج رہیں اور چند روز بلے ہاؤس میں ان کا قیام رہا۔ اس وقت پی ٹی وی کے معروف نیوز کاسٹر جناب خالد حمید بھی اپنی نانی کی بیماری کی خبر سن کر اسلام آباد سے ملتان بلے ہاؤس تشریف لائے تھے۔ اس وقت ہم خالد حمید کو پی ٹی وی پر دیکھا کرتے تھے اور آج ہم انہیں وائس آف امیریکہ پر دیکھتے ہیں۔ اللہ نے کرم کیا دادی (والدہ مرتضی برلاس) جلد صحت یاب ہوکر بلے ہاؤس سے ڈی سی ہاؤس وہاڑی روانہ ہوگئیں۔ مرتضی برلاس نے وہاڑی میں دوران تعیناتی ادبی ہنگامہ آرائیوں کا جو سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔اس کا گیٹ وے یا بریک جرنی ملتان میں بلے ہاؤس ہوا کرتا تھا۔ احمد ندیم قاسمی ، برادر خالد احمد ، کلیم عثمانی ، طفیل ہوشیار پوری ، حفیظ تائب ، ڈاکٹر اجمل نیازی ، جعفر شیرازی ، بسمل صابری ،امجد اسلام امجد ، محسن احسان اور محسن نقوی کا پہلا پڑاؤ ملتان میں سید فخرالدین بلے کی اقامت گاہ پر ہوا کرتا تھا۔
شاعر کرب ، ادیب ، کالم نگار ، خوبصورت شعری مجموعوں کے خالق اور نامور بیوروکریٹ مرتضی بیگ برلاس وہاڑی میں بطور ڈپٹی کمشنر تعیناتی کے دوران ایک جب ایک مرتبہ ڈویژنل ہیڈ یعنی کمشنر ملتان کی ماہانہ میٹینگ میں شرکت کرنے کے لیے ملتان تشریف لائے اور میٹنگ سے فراغت پاکر وہ سید فخرالدین بلے کی اقامت گاہ پر تشریف لائے تو وہاں ڈاکٹر سید مقصود زاہدی ، ڈاکٹر عاصی کرنالی ، پروفیسر عرش صدیقی ، پروفیسر حسین سحر پہلے سے ہی موجود تھے۔ مرتضی برلاس کے آتے کے ساتھ ہی سید فخرالدین بلے نے فرمایا کہ لیجے صاحب کورم تو پورا ہوگیا۔ بحیثیت میزبان آج کی شعری نشست کا باضابطہ آغاز کرنے کی غرض سے میں میں دو اشعار پیش کرتا ہوں۔ اس کے جواب میں پروفیسر حسین سحر نے فرمایا کہ آپ سب مجھ سے سینئر ہیں میرے لیے قابل احترام ہیں لہذا سب سے پہلے میں اپنا کلام پیش کرتا ہوں۔ قصہ مختصر تمام شعرائے کرام نے اپنا اپنا شاندار اور جاندار کلام پیش کیا لیکن جب مرتضی برلاس کو زحمت کلام دی گئی تو پروفیسر حسین سحر نے فرمائش کی کہ پہلے ۔ اک بار ہی جی بھر کے سزا کیوں نہیں دیتے ، اس کے بعد دیگر کلام۔ مرتضی برلاس نے پہلے اپنی یہی غزل عطا فرمائی ، آپ بھی ملاحظہ فرمائیے
اک بار ہی جی بھر کے سزا کیوں نہیں دیتے
گر حرف غلط ہوں تو مٹا کیوں نہیں دیتے
ایسے ہی اگر مونس و غم خوار ہو میرے
یارو مجھے مرنے کی دعا کیوں نہیں دیتے
اب شدت غم سے مرا دم گھٹنے لگا ہے
تم ریشمی زلفوں کی ہوا کیوں نہیں دیتے
فردا کے دھندلکوں میں مجھے ڈھونڈنے والو
ماضی کے دریچوں سے صدا کیوں نہیں دیتے
موتی ہوں تو پھر سوزن مژگاں سے پرو لو
آنسو ہو تو دامن پہ گرا کیوں نہیں دیتے
سایہ ہوں تو پھر ساتھ نہ رکھنے کا سبب کیا
پتھر ہوں تو رستہ سے ہٹا کیوں نہیں دیتے
مرتضی برلاس سے یہ غزل سننے کے بعد فرمائش کرکے مذید کلام بھی سنا گیا۔ لیکن ہماری سوئی اسی غزل پر اٹک گئی تھی۔ ہم نے نشست کے اختتام پر مرتضی برلاس کو مخاطب کرکے عرض کیا کہ اجازت ہو تو اس زمین میں ہم بھی کچھ لکھنے کی جسارت کریں تو انکل مرتضی برلاس نے پوچھا ، ظفر ! آپ بھی شاعری فرماتے ہیں ؟ پھر فرمایا کیوں نہیں ضرور اور پھر ہم نے کوئی گھنٹہ بھر میں انہیں انہی کی زمین میں اپنی یہ غزل سنائی ۔ مکمل غزل تو نہیں البتہ اپنی اس غزل کے چند اشعار پیش خدمت ہیں
اک بار ہی جی بھر کے سزا کیوں نہیں دیتے
یارو مجھے سولی پہ چڑھا کیوں نہیں دیتے
ہر بار نئے طور سے ، آغاز کی تلقین
انجام نیا ہو ، یہ دعا کیوں نہیں دیتے
اسلام کے داعی ہو تو سکھ چین کی خاطر
کہرام ، ہر اک گھر سے مٹا کیوں نہیں دیتے
مرتضی برلاس نے وہاڑی کو ادب یاب کرکے خانیوال میں بطور ڈپٹی کمشنر اپنا عہدہ سنبھالتے ہی صوبائی ، قومی اور بین الاقوامی سطح کی ادبی محافل اور تقاریب کا سلسلہ شروع کر ڈالا۔ خانیوال کی تاریخ کی پہلی اور اب تک کی آخری عالمی اردو کانفرنس کے انعقاد کا سہرا بھی مرتضی برلاس کے سر ہے۔ مرتضی برلاس ۔ فن اور شخصیت کتاب کے مرتبین میں پہلا نام سید فخرالدین بلے کا تھا۔ سید فخرالدین بلے کے ملتان میں قیام کے دوران بی بی سی گویا کہ بلے برج کلب کی سرگرمیاں بدستور جاری رہیں۔ جناب اللہ نواز خان ترین ، ایم ڈی اے کے ڈائریکٹر سردار نذیر ، پرائس کنٹرول ڈیپارٹمینٹ کے سربراہ محمد اسلم اریگیشن ڈیپارٹمینٹ کے افضل صاحب اور دیگر اصحاب تو مستقل بنیادوں پر جبکہ اداکار منور سعید اور مرتضی برلاس ملتان آمد پر بی بی سی کے فعال ممبران ہوا کرتے تھے۔
مرتضی برلاس صاحب خانیوال کے بعد لاہور چلے گئے۔اور سید فخرالدین بلے بھی ڈائریکٹر انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشنز تعینات کر دیئے گئے۔ یوں یہ دونوں سجن ، بیلی ، یار ، دوست بلکہ بھائیوں جیسے دوست اور ادبی ہنگامہ آرائیوں کے محرک ایک مرتبہ پھر ایک شہر میں اکٹھے ہوگئے۔ سید فخرالدین بلے کی اقامت گاہ پر بی بی سی ، بلے برج کلب کی محفلیں جمنے لگیں اورادبی و ثقافتی تنظیم قافلہ کے پڑاؤ بھی پہلے ہی کی طرح بھرپور انداز میں ڈالے جانے لگے۔ مرتضی برلاس کی حیثیت کبھی بھی بلے ہاؤس میں مہمان کی نہیں ہوا کرتی تھی بلکہ وہ ایک با اختیار میزبان ہوا کرتے تھے۔ سید فخرالدین بلے کی قائم کردہ ادبی تنظیم قافلہ کے پڑاؤ میں بھارت اور دیگر ممالک یا دیگر شہروں سے آئے ہوئے مہمانان گرامی میں سے اکثر کے استقبال سے لے کر دوران قیام پزیرائی اور رخصت کرنے تک کے تمام تر مراحل میں بھی مرتضی برلاس صاحب سید فخرالدین بلے کے شانہ بہ شانہ دکھائی دیتے تھے۔ اس تذکرے کے دوران میری آنکھوں کے سامنے قافلے کے پڑاؤ کے بے شمار شرکاء کے حسین چہرے گھوم رہے ہیں جیسے کہ کنور جی مہندر سنگھ بیدی سحر ، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ، پروفیسر جگن ناتھ آزاد ، جوگندر پال ، کرشنا دیوی ، راجندر ملہوترا ، رام لعل جی ، شبنم رومانی ، جون ایلیا ، محسن بھوپالی ، صہبا اختر ، جمیل الدین عالی ، محترم مشفق خواجہ جی ، عاصی کرنالی ، ڈاکٹر عرش صدیقی ، ممتاز مفتی جی ڈاکٹر سید مقصود زاہدی ، ڈاکٹر اسلم انصاری ، مشتاق احمد یوسفی ، محترمہ ادا جعفری ، حسن رضا گردیزی اور بہت سی دیگر شخصیات شامل ہیں
ممتاز ادیب ، سفر نامہ نگار ، صحافی ، قادرالکلام شاعر اور مدیر اقدار جناب شبنم رومانی صاحب سید فخرالدین بلے کی قائم کردہ بین الاقوامی شہرت کی حامل ادبی تنظیم قافلہ کی دعوت کراچی سے لاہور تشریف لائے۔ انہوں نے سید فخرالدین بلے اور مرتضی برلاس دونوں مقربین کی اقامت گاہوں پر قیام فرمایا اور ان کے اعزاز سید فخرالدین بلے نے قافلے کا خصوصی پڑاؤ بھی ڈالا۔ جس میں تمام تر مستقل شرکائے قافلہ پڑاؤ نے بھرپور انداز میں شرکت فرمائی۔ مرتضی برلاس نے سید فخرالدین بلے اور قافلہ کی لاہور میں دس سالہ شاندار خدمات کے حوالے سے بھرپور خطاب فرمایا۔ سید فخرالدین بلے نے جناب شبنم رومانی کی ادبی خدمات پر بھرپور انداز میں روشنی ڈالی اور شبنم رومانی کی شاعری ، کالم نویسی اور سفرنامہ نگاری کے ساتھ ساتھ شبنم رومانی کے زیر ادارت شائع ہونے والے ادبی جریدے اقدار کے اعلی معیار کے حوالے سے جامع انداز میں اظہار خیال فرمایا۔ ڈاکٹر وحید قریشی ، ڈاکٹر انور سدید ، ڈاکٹر اجمل نیازی ، سرفراز سید سمیت تمام تر شرکائے قافلہ پڑاؤ نے سید فخرالدین بلے کے تعارفی کلمات کے حوالوں سے گفتگو فرمائی۔
تیشۂ کرب کے کئی برس بعد مرتضی برلاس کا دوسرا شعری مجموعہ ارتعاش سامنے آیا۔ جس کا دیباچہ سید فخرالدین بلے نے تحریر فرمایا تھا۔
مرتضی برلاس کے پہلے شعری مجموعے تیشۂ کرب کا دوسرا ڈیلکس ایڈیشن کے اشاعت کا اہتمام سید فخرالدین بلے کے قائم کردہ اشاعتی ادارے معین اکادمی نے کیا تھا۔
مرتضی برلاس کے کلام کو دنیائے اردو ادب میں بہت مقبولیت اور شہرت حاصل رہی ہے۔ ان کی بہت سی غزلیں بے حد مقبول ہوئیں اور ان کے بہت سے اشعار زبان زد عام رہے ہیں۔ مرتضی برلاس کی ایک مشہور غزل کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے۔
تم نئی نسل کے مجرم ہو حقیقت یہ ہے
جرم تسلیم کرو اپنا ، پرانے لوگو
اور اس غزل کے حوالے سے تو ہم کیا ہی عرض کریں۔ انتہائی خوبصورت ، شاندار اور جاندار غزل ہے۔ تو ملاحظہ فرمائیے مرتضی برلاس کی ایک شاہکار غزل
غزل : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرتضی برلاس
ہے ادھر پھر وہی شب خوں کا ارادہ برلاس
اور ادھر مشغلۂ بربط و بادہ برلاس
پہلے بھی ایسی ہی شب تھی کہ قیامت ٹوٹی
پھر وہی رت وہی منزل وہی جادہ برلاس
کیا اثر اس پہ ہو اعجاز مسیحائی کا
جس کے جینے کا نہ ہو اپنا ارادہ برلاس
اپنے ملبوس دریدہ کو چھپانے کے لیے
پہنے پھرتے ہو تصنع کا لبادہ برلاس
جن کو قربان کریں شاہ بچانے کے لیے
ہم ہیں اس بازی میں یوں جیسے پیادہ برلاس
تنگ دل تنگ نظر لاکھ ہوں دنیا والے
تم رکھو دامن دل اپنا کشادہ برلاس
ایسی بستی کو زمیں چاٹ لیا کرتی ہے
ظلم بڑھ جائے جہاں حد سے زیادہ برلاس
مرتضی برلاس کی شخصیت کے بہت سے تخلیقی رنگوں کو اجاگر کرنے کے لیے جون ۱۹۹۰ میں سید فخرالدین بلے کی زیر ادارت شائع ہونے والے ہفت روزہ آواز جرس لاہور کا مرتضی برلاس نمبر شائع کیا گیا۔ دنیا بھر کے ادبی حلقوں میں اس اشاعت کی بھرپور پزیرائی ہوئی۔حقیقت تو یہ ہے کہ اس کی اتنی مانگ ہوئی کہ جسے پورا ہی نہ کیا جاسکا اور پھر جنوری ۱۹۹۱ میں مرتضی برلاس کی سالگرہ کے موقع پر چند خوبصورت اضافوں کے ساتھ اس مرتضیٰ برلاس نمبر کی اشاعت مکرر کا اہتمام کیا گیا
لاہور میں انیس سو چھیاسی کے بعد ہمارے دس سالہ قیام کے دوران حضرت جون ایلیاء صاحب والد گرامی جناب سید فخرالدین بلے صاحب ، اپنی بھتیجی محترمہ شہناز منور سعید اور بھتیجے (اداکار) منور سعید صاحب کی خصوصی دعوت پر متعدد بار لاہور تشریف لاہور لائے۔ جناب جون ایلیاء کا پہلا شعری مجموعہ شاید منظر عام پر آکر دھوم مچا چکا تھا۔ ان دنوں جون ایلیاء کی جو غزلیں بہت مشہور تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی۔
غزل : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جون ایلیا
دل نے وفا کے نام پر کار وفا نہیں کیا
خود کو ہلاک کر لیا خود کو فدا نہیں کیا
خیرہ سران شوق کا کوئی نہیں ہے جنبہ دار
شہر میں اس گروہ نے کس کو خفا نہیں کیا
جو بھی ہو تم پہ معترض اس کو یہی جواب دو
آپ بہت شریف ہیں آپ نے کیا نہیں کیا
نسبت علم ہے بہت حاکم وقت کو عزیز
اس نے تو کار جہل بھی بے علما نہیں کیا
جس کو بھی شیخ و شاہ نے حکم خدا دیا قرار
ہم نے نہیں کیا وہ کام ہاں بہ خدا نہیں کیا
محترم جناب مرتضی برلاس صاحب کی بھی اسی زمین میں بہت جاندار بلکہ شاندار اور عمدہ غزل بھی انہی دنوں سننے کا اتفاق ہوا۔ ہم نے نہایت اہتمام سے چچا جون ایلیاء اور انکل مرتضی برلاس کی یہ دونوں غزلیں ہفت روزہ آواز جرس لاہور میں آمنے سامنے کے دو صفحات پر ان دنوں سینئر شعراء کی تصاویر کے ساتھ شائع کیں تو قارئین نے بےحد سراہا۔ اب ملاحظہ فرمائیے شاعر کرب جناب مرتضی برلاس کی یہ شاہکار غزل : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرتضیٰ برلاس
وعدہ جو تھا نباہ کا تم نے وفا نہیں کیا
ہم نے تو آج تک تمہیں دل سے جدا نہیں کیا
ہم ہی وہ کم نصیب تھے مانگے ملی نہ موت بھی
آپ کا کیا قصور ہے آپ نے کیا نہیں کیا
موم ہوئے پگھل گئے سنگ بنے چٹخ گئے
پھر بھی زباں سے آج تک ہم نے گلہ نہیں کیا
دشت طلب میں ہر صدا گونج بنی بکھر گئی
کس کو سلگتی ریت نے آبلہ پا نہیں کیا
وہ تو یہ کہیے سخت جاں ہم تھے کہ وار سہہ گئے
تم نے وگرنہ ایک بھی تیر خطا نہیں کیا
آج وفا کا واسطہ دیتا ہے وہ ستم ظریف
جس نے غرور حسن میں خوف خدا نہیں کیا
ویسے تو سب بزعم خویش سچے ہیں لین دین کے
مٹی کا جس پہ قرض تھا اس نے ادا نہیں کیا
جب جون ایلیاء صاحب دونوں غزلیں ایک ساتھ آواز جرس میں شائع شدہ ملاحظہ فرمائیں تو فرمایا برلاس بھائی کی غزل تو لاجواب ہے۔ ہم نے عرض کیا جون چچا دونوں ہی غزلیں اپنی اپنی جگہ بہت عمدہ ہیں۔
آواز جرس کے مرتضی برلاس نمبر میں یادگار تصاویر ، شاندار سرورق ، عکس تحریر ، مرتضی برلاس کا انتہائی جاذب نظر اور حسین پورٹریٹ ، مرتضی برلاس اور تیشۂ کرب کے عنوان کے تحت سید عارف معین بلے کے خوبصورت مضمون بلکہ ناقدانہ تجزیے ، پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کی تحریر ۔ مرتضی برلاس ایک باہنر غزل گو ،امجد اسلام امجد کے مضمون ۔ تیشۂ کرب کی ترکیب میں تجدیم بھی ہے اور تجرید بھی ، پروفیسر غلام جیلانی اصغر ، پرتو روہیلہ ، مرتضی برلاس کی کہانی ، مرتضی برلاس کی زبانی ، مرتضی برلاس ۔ آواز جرس کے قافلۂ فکر میں کے عنوان کے تحت طویل اظہاریہ اور اس کے بعد مرتضی برلاس سے ظفر معین بلے جعفری اور افتخار ایلی کا بھر پور مکالمہ ، جناب حضرت ابوالخیر کشفی کے تاثرات ، مرتضی برلاس ارباب شعر و ادب کی نظر میں اور راقم السطور ظفر معین بلے جعفری کاتحریر کردہ خاکہ مرتضی برلاس ۔ ادبی دنیا کا عالم چنا بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ میرے پاس مرتضیٰ برلاس صاحب کی یادوں کے حوالے سے ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔انشاء اللہ ان تمام یادوں کی روشنی اہل ِ علم و ادب تک پہنچانے کیلئے میرا سفر جاری رہے گا۔
مرتضی برلاس ۔ ادبی دنیا کا عالم چنا
داستان گو : ظفر معین بلے جعفری
==========================================
غزلیات : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرتضی برلاس
کتاب سادہ رہے گی کب تک کہیں تو آغاز باب ہو گا
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی کبھی تو ان کا حساب ہو گا
وہ دن گئے جب ہر اک ستم کو ادائے محبوب کہہ کے چپ تھے
اٹھی جو اب ہم پہ اینٹ کوئی تو اس کا پتھر جواب ہو گا
سحر کی خوشیاں منانے والوں سحر کے تیور بتا رہے ہیں
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی کہ سانس لینا عذاب ہو گا
سکوتِ صحرا میں بسنے والو، ذرا رُتوں کا مزاج سمجھو
جو آج کا دن سکوں سے گزرا تو کل کا موسم خراب ہو گا
نہیں کہ یہ صرف شاعری ہے، غزل میں تاریخِ بے حسی ہے
جو آج شعروں میں کہہ دیا ہے، وہ کل شریکِ نصاب ہو گا
غزل : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرتضیٰ برلاس
کس کس کامنہ بندکروگے کس کس کو سمجھاؤ گے
دل کی بات زباں پر لا کے دیکھو تم پچھتاؤ گے
آج یہ جن دیواروں کو تم اونچا کرتے جاتے ہو
کل کوان دیواروں میں خودگھٹ گھٹ کے مر جاؤ گے
ماضی کے ہر ایک ورق پر سپنوں کی گلکاری ہے
ہم سے ناطہ توڑنے والو کتنے نقش مٹاؤ گے
ہاتھ چھڑا کے چل تو دیے ہو لیکن اتنا یاد رکھو
آگے ایسے موڑ ملیں گے سائے سے ڈر جاؤ گے
تم کو آدم زاد سمجھ کے ہم نے ہاتھ بڑھایا تھا
کس کوخبرتھی چھوتےہی تم پتھرکے ہوجاؤ گے
دل سا مسکن چھوڑ کے جانا اتنا بھی آسان نہیں
صبح کو رستہ بھول گئے تو شام کو واپس آؤ گے
جسم کے کچھ بےچین تقاضےضبط سے باہر ہوتے ہیں
کب تک دل کو دھوکادے کر یادوں سے بہلاؤ گے