(Last Updated On: )
بطور ٹورسٹ میں پاکستان میں زیادہ نہیںں گھوما لیکن ایشیا، وسطی ایشیا، افریقہ اور یورپ کے تقریبا تمام اہم ممالک جاچکا ہوں۔ جہاں ہوٹل ریٹس وقت موسم اور ڈیمانڈ کے حساب سے بدلتے رہتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے ائیر لائن کی ٹکٹ۔ دبئی سے پاکستان 280 درہم میں گیا ہوں اور یہی ٹکٹ 1800 درہم میں بھی خریدا ہے وجہ یہ کہ فلائٹ جب تقریبا فل ہو جاتی ہے تو باقی دستیاب ٹکٹس ہوشربا قیمت پر بکتی ہیں۔
امارات ائرلائن میں سب سے زیادہ اتار چڑھاو دیکھا جاتا ہے۔ حالیہ سفر میں پی آئی اے 700 درہم اور امارات 2200 درہم میں سیالکوٹ سے دبئی جارہی تھی۔
اب اسے بدمعاشی کہہ لیں، رواج کہہ لیں یا کچھ اور یہ دونوں انڈسٹریز اسی طرح چلتی ہیں اور دنیا بھر میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔دنیا نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ ایڈوانس بکنگ کر لیتے ہیں یا ایسی ایپس استعمال کی جاتی ہیں جہاں زیادہ سے زیادہ ہوٹلز پرکھے جاسکیں اور کم سے کم ریٹس پر فلائٹس یا ہوٹل بک کیا جاسکے۔
آخری دن بھی اچھے ریٹس مل جاتے ہیں کہ اگر آج کسی ہوٹل میں کمرہ خالی ہے تو وہ اونے پونے بھی دے دیتے ہیں کہ خالی بھی تو پڑا ہے جیسا کہ میرے ساتھ ہوا۔ روم شہر سے پیرس جانا تھا اور نیو ائیر کی وجہ سے پیرس شہر کے تقریبا تمام ہوٹلز ہی تین سے چار گنا مہنگے مل رہے تھے۔ میں نے یہ فیصلہ کیا کہ پیرس پہنچ کر دوبارہ چیک کرونگا تاکہ ایسے رومز جو بک نہیں ہوسکے وہ سستے مل جائیں۔ ایسا ہی ہوا اور مجھے 50 یورو میں دریائے سینی کے کنارے ہوٹل مل گیا جو اس سے پہلے 200 یورو بتا رہا تھا۔
یہ تو انٹرنیشنل طریقہ کار ہیں جس پر دنیا چلتی ہے۔ ہمارے ہاں چل پھر کر چھان پھٹک کر سودا خریدنے کا رواج ہے کہ ہر کام پہنچ کر ہی کرنا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے ٹورسٹس یا تو ایجنٹس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں یا پھر ہوٹلز کے تمام کمرے بک پا کر خوار ہوتے ہیں۔
ٹورازم اگر سمارٹ طریقے سے نا کی جائے تو خواری میں بدلتے دو منٹ ہی لگتے ہیں۔
سیاحت میں سفر اور رہائش اگر مناسب مل جائے تو ایڈوانس بکنگ کرنی چاہئے۔ اگر آپ کے پاس ایپس موجود نہیں ہیں تو انٹرنیٹ پر مری سمیت تمام شہروں کے ہوٹلز کے نمبر موجود ہوتے ہیں اور بات کرکے ایڈوانس بکنگ کروائی جا سکتی ہے۔ بنک ٹرانسفر یا ایزی پیسہ سے ادائیگی کرکے کام پکا بھی کیا جاسکتا ہے۔
مری میں حالیہ دنوں میں پہلی اور دوسری برف باری جیسے ہی شروع ہوئی تو ہوٹلز نے اپنے ریٹس بڑھا دئیے جیسا کہ دنیا کے ہر خطے میں ہر تہوار پر ہوتا ہے۔
اگر آپ پروفیشنل ٹورسٹ ہیں یا ایسے خاص مواقع پر جاتے رہتے ہیں تو یہ بات آپ کے ذہن میں پہلے سے ہونی چاہئے کہ صورتحال کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ عام دنوں والے ریٹس کا ملنا ممکن نہیں۔ اگر جانا ہی ہے تو زیادہ پیسے لے کر جائیں یا وقت پر واپسی یقینی بنائیں۔ گھومنا پھرنا بھی ضروری لیکن سیفٹی فرسٹ ہے۔ اپنی اپنے بچوں اور ہمراہیوں کی حفاظت یقینی بنائیں پھر انجوائے کریں۔
جس طرح ہم دنیا سے الگ ہیں اسی طرح ہمارے ہوٹلز قوانین بھی استحصالی ہیں جن کو درست ہونا چاہئے۔
یورپ ٹور دسمبر میں تھا تو ہیٹر ہر جگہ موجود پایا۔ اس کے لئے الگ سے پیسے نہیں دینے پڑے جبکہ مری میں دو دفعہ دئیے۔ اسی طرح اگر آپ استری گھر سے لے آئے ہیں تو آپ کو پاور ساکٹ نہیں ملے گی کہ کپڑے ہم سے استری کرواو جبکہ یورپ ایشیا افریقہ میں بھی ایسا نہیں ہوا۔ ہوٹل ایجنٹس سب سے بڑا مسئلہ ہے جس پر انتظامیہ اور ہوٹلز کچھ نہیں کرسکتے کہ ایک تو یہ غیر قانونی نہیں دوسرا ہوٹلز خود مجبور ہیں کہ ایک تو ایجنٹس مقامی لوگ ہیں اور دوسرا ان کا بزنس انہی سے چلتا ہے۔ ان ایجنٹس سے صرف ایڈوانس بکنگ اور ایپس استعمال کرکے جان چھڑائی جاسکتی ہے۔
اسی طرح کھانا پینا بھی سمارٹ طریقے سے اچھا اور سستا کھایا جاسکتا ہے۔ بہتر ہے کہ مال روڑ کی بجائے نیچے جانے والی سڑکوں پر بنے مقامی آبادی کے ریسٹورنٹس میں کھانا کھائیں جو تین سے چار گنا سستے ہیں۔
ٹرانسپورٹ اگر ممکن ہو تو پبلک والی استعمال کریں۔ اپنی گاڑی اور دکھاوے کے چکر میں خواری زیادہ ہوتی ہے۔ مری اتنا بڑا شہر نہیں ہے کہ شہر میں کار کی ضرورت پڑے۔ جب پیدل ہی گھومنا ہے تو کار پارکنگ، برفباری بارش اور دوسرے خطرات کا شکار کیوں ہوں۔
اس مقصد کے لئے ٹرین بیسٹ ہے لیکن شاید مستقبل قریب میں یہ ممکن ہوسکے۔ انڈیا نے تو شملہ اور سری نگر تک ٹرین چلائی ہے جبکہ ہمارا مری کشمیر ابھی تک محروم ہے۔
حکومت اگر ہوٹل ایسوسی ایشن کے ساتھ مل کر کمروں کے ریٹس فکس کرتی ہے تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ڈیمانڈ اور سپلائی ہمیشہ کا رولا ہمیشہ رہے گا۔
باقی چیزیں درست کی جاسکتی ہیں۔ بنچوں پر لگی کیلیں اتاری جاسکتی ہیں۔ ٹوائلٹ جانے کے 300 روپے کم کروائے جاسکتے ہیں، انڈا دو سو کی بجائے پچاس کا کیا جاسکتا ہے اسی طرح پانی اور دودھ وغیرہ کہ یہ مارکیٹ کنٹرول کے انڈر آتے ہیں۔
آج ہی کی خبر ہے کہ اس بندے کو پکڑ لیا گیا ہے جو شیول سے سڑک پر برف پھینکتا تھا تاکہ گاڑیاں پھنسیں اور وہ دو سے تین ہزار کی چین لگا کر دے سکے۔ عباسی ہے تو مری کا مقامی ہی ہوا اور اگر اہل علاقہ کے سامنے ہی عرصہ دراز سے یہ سب کچھ کررہا تھا تو وہ بھی جواب دہ ہیں۔