نیو یارک کے مضافات میں فاکس فیملی نے ایک گھر میں رہائش اختیار کی جو کہ آسیب زدہ مشہور تھا۔ اس سے کچھ ایسی آوازیں آتی تھیں جیسے فرنیچر ہلایا جا رہا ہو یا کوئی دستک دے رہا ہو۔ 31 مارچ 1848 کو کیٹ فاکس نے چند بار چٹکی بجائی او اس “آسیب” سے انہیں دہرانے کو کہا۔ فرمائش پوری ہوئی۔ کیٹ نے اپنی عمر پوچھی۔ دس بار دستک کی آواز آئی۔ کیٹ کی عمر دس برس تھی۔ ۔ تینوں بہنوں نے اس کا نام مسٹر سپٹ فٹ رکھا۔ اس سے باتیں کرنے کا طریقہ ڈھونڈ لیا۔ ہاں اور نہیں کے سگنل اور حروف کی پہچان سیکھ لی اور نتیجہ نکالا کہ ایک پھیری والا چارلس روزنا یہاں پر پانچ سال پہلے قتل ہوا تھا۔ یہ آسیب اس وجہ سے ہے۔ ان بہنوں کے اس واقعے نے ایک نئی موومنٹ شروع کر دی۔ 1850 کی دہائی میں مُردوں سے رابطہ کرنے کی ایک نئی قسم شروع ہو گئی تھی جو میز پر دستک کے ذریعے تھا۔ دور دور سے لوگ مردوں سے رابطہ کرنے ان بہنوں کی مدد حاصل کرنے آتے۔ اس کے بعد اس طرح کے ملتے جلتے طریقے میز ہلانا، میز گھمانا یورپ اور امریکہ میں تیزی سے پھیل گئے۔
طریقہ یہ تھا کہ افراد کا ایک گروپ میز کے گرد بیٹھ جاتا تھا۔ ہاتھ میز پر رکھ لیتا تھا اور انتظار کرتا تھا۔ میز گھوم جاتا تھا یا پھر یہ ایک طرف جھک جاتا تھا یا اس میں حرکت ہوتی تھی۔ ان کے میز پر رکھے ہاتھ بھی ساتھ حرکت کر جاتے۔ شرکاء میز کے ہلنے کی سمت دیکھ کو اپنے جوابات کے لئے اشارہ سمجھ کر نتیجہ نکال لیتے۔
یہ ٹرینڈ اس قدر مشہور ہوا کہ اس نے سائنسدانوں کی توجہ حاصل کر لی۔ کچھ سائنسدانوں نے 1853 میں اس کا تجزیہ کرنا شروع کیا۔ فزیشنز کے ایک گروپ نے نوٹ کیا کہ جب سب خاموش بیٹھے ہوتے ہیں تو کچھ دیر میں غیرشعوری اتفاقِ رائے بن جاتا ہے کہ میز کس سمت میں حرکت کرے گا۔ ہر ایک کے ہاتھ کا ہلکا سا ایک ہی طرف لگایا ہوا زور اس کو اس سمت میں دھکیل دیتا ہے۔ انہوں نے جب تجربہ کیا کہ اس دوران توجہ مبذول کروانے کے لئے کچھ کر دیا جائے تو یہ اتفاقِ رائے نہیں بن پاتا اور میز اپنی جگہ پر رہتا ہے۔ ایک اور تجربے میں انہوں نے آدھے ممبران کو میز پر بیٹھنے سے پہلے باور کروا دیا کہ میز دائیں طرف گھومے گا اور آدھے کو یہ کہ بائیں طرف۔ اس تجربے میں بھی میز نہیں گھوما۔ انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ حرکت مسلز سے لگائے گئے غیرشعوری زور کا نتیجہ ہے۔ لیکن اس پر نتیجہ خیز انوسٹیکیشن مائیکل فراڈے نے کی۔
فراڈے، جو الیکٹرومیگنیٹک تھیوری کے بانی ہیں، برقی موٹر کے موجد ہیں اور سائنس کی تاریخ کا اہم ترین تجربہ کر چکے ہیں۔ ان کا ایک تجربہ اس پر بھی تھا۔ پہلے انہوں نے یہ دریافت کیا کہ میز کی حرکت اس وقت بھی ہوتی ہے جب صرف ایک شخص میز پر بیٹھا ہو۔ پھر ان افراد کو لے کر جو یہ کام بہت بار کر چکے تھے اور معززین سمجھے جاتے تھے، انہوں نے تجربوں کی ایک سیریز کی جس سے ثابت کیا کہ بیٹھے ہوئے شخص کا ہاتھ پہلے ہلتا ہے اور میز بعد میں۔ اس کے بعد انہوں نے ایک انڈیکیٹر ڈیزائن کیا۔ جب اس شخص کے ہاتھ میں حرکت شروع ہی ہوتی تھی کہ وہ اس شخص کو الرٹ کر دیتا تھا اور پھر میز نہیں ہلتا تھا۔ سراب غائب ہو جاتا تھا۔
فراڈے کے تجربے سے نتیجہ نکلا کہ یہ میز پر لگائی غیر شعوری فورس کا نتیجہ ہے۔ غیرشعوری طور پر لگائی گئی رینڈم فورس جب کسی جگہ پر ایک پیٹرن بنا لے اور سب شرکاء کے لئے ہم آہنگ ہو جائے تو میز ہلا دیتی ہے۔ اور سراب یہ ہوتا ہے کہ میز کے ہلنے سے ہاتھ ہلا نہ کہ ہاتھ کے ہلنے سے میز۔ پہلے سے قائم کی گئی توقعات اس میں اہم ہیں۔ انسانی پرسپشن حقیقت سے براہِ راست نکلا نتیجہ نہیں بلکہ ایک تخیل ہے۔
مائیکل فراڈے کی یہ دریافت الیکٹرومیگنیٹک تھیوری یا برقی موٹر کی طرح تہلکہ خیز تو نہیں تھی لیکن تجربوں کے دلچسپ ڈیزائن اور سائنسی ذہن کا پتا دیتی ہے جس کی مدد سے انہوں نے انیسویں صدی میں سائنس کی اہم ترین دریافتیں کیں۔
اور ہاں، ان بہنوں کا کیا ہوا؟ اس گھر میں کسی بھی قتل ہونے کے شواہد نہ ملے۔ گھر کے سٹرکچر میں دراڑوں کی وجہ سے دستک کی آوازیں آتی تھی۔ ایسا ضرور ممکن ہے کہ اس روز ان کو اتنی ہی آوازیں سنائی دی گئی ہوں جتنا ان کا دعوی تھا۔ اس اتفاق سے آگے ہو سکتا ہے کہ شروع میں ان کا واقعی ایسا خیال ہو کہ گھر میں کوئی آسیب ہے جس سے وہ رابطہ کر سکتی ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی۔ ان کو یہ علم ہو گیا تھا کہ یہ سب فراڈ ہے۔ مگر کئی دہائیوں تک انہوں نے مردوں سے رابطہ کروانے کا اور ان سے مشورے لینے کا وسیلہ بننے کا پیشہ جاری رکھا۔ 21 اکتوبر 1888 کو ایک بہن نے پبلک میں تسلیم کیا کہ ان کا طریقہ فراڈ تھا اور دستک کی آواز وہ کیسے پیدا کرتی تھیں۔ دو ہزار کے مجمع میں مارگریٹ فاکس نے یہ کر کے دکھایا۔ نیو یارک ورلڈ میں ان کے اعتراف میں لکھے گئے آرٹیکل سے اقتباس۔
“دستک کی آواز کے لئے ہم پریکٹس کیا کرتے تھے کہ گھٹنوں کے اوپر کے پٹھوں سے کیسے نکالنی ہے۔ کم عمری میں یہ آسان تھا۔ زیادہ عمر میں لچک ختم ہو جانے کے بعد یہ مشکل ہو گیا تھا۔ ایک بار دستک کی آواز سن کر لوگ یقین کر لیتے تھے کہ وہ مرنے والوں کی روح کو چھو رہے ہیں۔ ایسا ہر ایک کے ساتھ ہی ہوتا تھا۔ ایک بار بہت ہی امیر لوگ بھی ہمارے پاس آئے اور میں نے انہیں دستک سنوائی۔ جیسے ہی دستک سنی، ان میں سے ایک خاتون چیخ اٹھیں۔ دیکھو، روح میرا کندھا تھتھپا رہی ہے۔ پیسے کمانا آسان تھا”۔
دوسری بہن کیٹی نے لکھا، “میری زندگی کا بڑا دکھ یہ ہے کہ میں نے جھوٹ کے سہارے زندگی گزاری ہے اور یہ توبہ زندگی میں بہت دیر سے کر رہی ہوں۔ لیکن اب میں سچ بتانے کے لئے تیار ہوں۔ مکمل سچ اور سچ کے سوا کچھ نہیں۔ خدا میری مدد کرے۔ میں روحانیت کی اس تحریک کی بانیوں میں ہوں اور اعتراف کرتی ہوں کہ یہ شروع سے آخر تک فریب کے سوا کچھ نہ تھا۔ ہم نے لوگوں کے توہمات کا فائدہ اٹھا کر مکاری اور ان سے زیادتی کی ہے۔ سپرچوئیلزم اس دنیا میں ایک بڑی لعنت ہے۔”
اس اعتراف کے بعد اس تحریک کے لوگوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ انہوں نے زندگی کے ایام کسمپرسی میں گزارے۔
دلچسپ بات یہ کہ واضح اعترافات کے باوجود آج بھی پیراسائیکولوجی کی کتابوں میں اور سپرچوئیلزم کے لٹریچر میں فاکس سسٹرز اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کی زندگی میں ان کے اعترافات کو منہا کر کے باقی سب ان میں موجود ہے۔