مردہ قوم کو سلام مت کرو
جسٹس کھوسہ کی ادبی ججمینٹ
سچ ثابت ہوئی:
’’ہر دولت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے
اس ملک کا حکمران مجرم ہے!!‘‘
سپریم کورٹ کی تحقیقاتی ٹیم ثابت کر چکی ہے
’’وہ مجرم ہے‘‘
مگر وہ اب بھی اس ملک کا حکمران ہے
اور قوم خاموش ہے!
اگر آج خلیل جبران زندہ ہوتا
تو وہ اپنی نامکمل نظم مکمل کرتا!!
مگر اس سے کیا ہوتا؟
اس کے ’’فیس بک ‘‘ پیج پر
سینکڑوں؛ ہزاروں اور لاکھوں لائکس بھی آتیں
تو کیا ہوتا!!؟
کیا وزیر اعظم مستفی ہوجاتا؟
کیا وہ اپنی کنپٹی پر پرویز مشرف کا پسٹل لوڈ کرتا
اور اپنے آپ کو شوٹ کردیتا؟
اگر وہ اپنے آپ کو شوٹ کردیتا
تو وہ ایک تاریخ بن جاتا
اس کا خون اس کے سارے جرم دھو دیتا!
مگر اس میں اتنی ہمت نہیں
اس کے کسی وزیر کسی کارکن میں
اتنی ہمت نہیں کہ وہ مستفی ہوجائے
اور میڈیا کو بتائے
’’میں ایک مجرم لیڈر کا ساتھ نہیں دے سکتا‘‘
اور آج کسی طرف سے کوئی صدائے احتجاج نہیں آئی
کسی بیوروکریٹ نے اپنے عہدے سے یہ لکھ کر استعفی نہیں دیا
’’مجھے ایک مجرم حکمران کا ماتحت ہونا قبول نہیں
آئی ایم سوری۔۔۔۔!!‘‘
کسی وکیل نے احتجاج کرتے ہوئے
اپنا کالا کوٹ نہیں جلایا!
کسی این جی او نے
سپریم کورٹ کے آگے
موم بتی کو نہیں جلایا!!
کسی ادیب نے
سوشل میڈیا پر اپنا یہ خط اپلوڈ نہیں کیا
’’میں تمہارے ساتھ اس ملک میں نہیں رہ سکتا
برائے کرم مجھے جلاوطن کریں!!‘‘
یہ قوم اپنے ذہن؛ اپنے ضمیر اور اپنے شعور کے حوالے سے مر چکی ہے
اس قوم کو سلام مت کرو
اس قوم کو سلام مت کرو
اس قوم کو سلام مت کرو
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔