سپرا دیکھ سکتا ہے۔ ایک میت ہے، جو خلا میں ہے اور جسے چار کندھے نصیب ہوگئے ہیں۔ شام کا وقت ہے۔ راہگیر میت کو راستہ دینے کے لیے ادھر ادھر ہوجاتے ہیں ___ اوراس مقد س راستے کی طرف جہاں تم جارہے ہو، خوش رہنا، الوداع___ یہ اس کا دوست ہے، برسوں پرانا جسے وہ بھول چکا ہے۔ سردی کا موسم ہے…. اور اس وقت ایک قبرستان کا حصہ دکھائی دے ر ہا ہے، جہاں میت کو دفن کیا جانا ہے۔ قبرستان دور سے نظر آرہا ہے۔گیلی مٹی کی دیوار…. ایک بڑا سا دروازہ…. ساکت درخت، ہوا خاموش… سپرا اس میت کو پہچانتا ہے۔ قبرستان پہنچنے تک اچانک ساکت درختوں کا جمودٹوٹتا ہے۔ خاموش ہوا تیز آندھی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ میت کا سیاہ کفن کھل جاتا ہے۔ایک چہرہ ہے، ڈراؤنا۔ مگر یہ چہرہ ڈراؤنا نہیں ہے۔ یہ اس آدمی کی میت ہے، جو برسوں پہلے مر چکا ہے اور خلا میں جسے دفن کرنے کے لیے کچھ لوگ برسوں بعد لیے جارہے ہیں۔
لایعنیت…. یہ کیا مذاق ہے۔ برسوں بعد؟ وہ برسوں مردہ خانے میں رہا… اور اس کے جاننے والوں کا رویہ مایوس کن تھا کہ اس کے جیتے جی سب نے اسے مردہ سمجھ لیا تھا…. اور یہ بھی سچ ہے کہ وہ مردہ خانے میں تھا۔ سپرا کے لیے یہ امتحان کا لمحہ تھا کہ جب باہر فوجیوں کے بوٹ بج رہے تھے، ایک لڑکی نے مردہ خانے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ آہ، یہاں بھی ایک کہانی۔ شمال میں ڈوبتا سورج۔ اُفق کی سرخیوں کے درمیان ایک لڑکی جو ٹریگر ڈباتی ہے۔ ایک پولیس والا ہے، جو تیز چیخ کے ساتھ گرتا ہے اور کسی مردہ خانے میں پھینک دیا جاتا ہے۔
ایک بوڑھی عورت جو تمہاری ماں تھی، وہ کہتے کہتے رُکتا ہے…. گل بانو نظر اٹھاتی ہے۔
ہاں وہ ہے اور صندوق ابھی بھی اس کے پاس ہے۔
ہاں جیساکہ تم نے بتایا، صندوق…. اور صندوق سے ایک نیا شہر برامد ہوا تھا
تمہارے چکلہ گھر کی یادوں سے الگ کا شہر….
ہاں….‘
’ وہ کیا زندہ تھے؟
ہاں، جیسا میں سوچتی ہوں….
آہ….‘ سپرا کے چہرے پر تلخیوں کی جھریاں آگئی تھیں۔ تمہارے سوچنے کی بات نہیں۔ ہم صحیح مقام پر کب ہوتے ہیں؟ ہم سوچتے ہیں، ہم جاگ رہے ہیں، مگر ایسا نہیں ہوتا۔ہم سوچتے ہیں کہ بیداری ہمیں چلنا سکھارہی ہے جبکہ اس وقت ہمارے گھٹنے سوجے اور ٹوٹے ہوتے ہیں۔ہم سوچتے ہیں کہ آنے والے کل میں ہمیں یہ کرناہے؟کیا آنے والا کل ہے؟ کیا آنے والے کسی کل میں کسی گل فروش نے تازہ پھول رکھے ہیں۔؟ میرے خیال سے نہیں۔ یہ ہم ہیں جو سوچتے ہیں کہ آسمان کا رنگ نیلا ہے کیونکہ رنگوں کو یہ نام ہم نے دیا۔ نیلا پیلا سبز۔ آہ، سپرا گل بانو سے مخاطب تھا… تم خوفزدہ لگتی ہو، اور ان ساعتوں سے ڈرتی ہو جس میں نان سینس، لایعنیت کے نئے پودے رکھ دیے گئے ہیں۔
’ نان سینس کے نئے پودے…..؟‘
’ ہاں۔ یہ وقت کی اضطرابی کیفیت ہے جو وقت انسانوں پر انڈیل دیتا ہے۔ پرانے کلینڈر کا چنگیز، پرانے کلینڈر کا ہلاکو، پرانے کلینڈر کا نادر شاہ اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کبھی تھے، یہ ان پرانی ساعتوں میں لایعنیت کے سوکھے ہوئے پودے تھے، مرجھائے ہوئے۔ وقت پر ایک بار پھر دورہ پڑا ہے…. اور تم کو سمجھنا چاہیے کہ ہر کچھ برس بعد ایسا ہوتا ہے کہ جب وقت اپنی اضطرابی کیفیات میں انسان کو شامل کرلیتا ہے۔
’ ہاں، یہ ممکن ہے…. صندوق میں برادے تھے۔؟‘
’ برادے؟‘
’ ہاں، پرانی مٹی کے، پرانے وقت کے۔‘
”….اور ان برادروں میں تم تھی جبکہ تم فنون لطیفہ سے واقف تھی۔لیکن لوگ یہ نہیں جانتے کہ فنون لطیفہ میں دلچسپی رکھنے والوں کے پاس بھی نان سینس کے مرجھائے ہوئے پودے ہوتے ہیں۔ ایک صندوق کھلا اور ایک عورت نکلی…..شی، ریٹرن آف شی۔ خیر، تم ان کتابوں سے واقف نہیں ہوگی۔ میں نے ان کتابوں کو پڑھا ہے۔ وہ ہزار برسوں کی عورت تھی اور سورج کی شعاؤں سے غسل کرنے کے بعد جوان ہوجاتی تھی….وہ ایک ساحرہ تھی اور طلسم کی کلید اس کے ہاتھوں میں تھی۔ وہ گل فروشوں کو آزماتی تھی…. اور جیساکہ تمہاری ماں نے تم کو آزمایا۔…. تم کو صندوق کے حوالے کردیا… ایک خوبصورت ذائقہ نان سینس کے پھول کا… اور ایک صندوق میرے پاس ہے جو کسی زمانے میں ریحانہ کے پاس تھا اور اب وہ تمہاری قبر ہے۔ آہ، ایک دن زندہ جھیلیں پیچھے چھوٹ جاتی ہیں، ہم کھارے پانیوں میں کھڑے ہوکر تماشہ کرتے ہیں۔ اور یہ سوچنا دلچسپ ہے کہ مردوں کے گوشت ہمیشہ تازہ رہتے ہیں…. اور یہ، کہ صرف دو صندوق نہیں ملتے، بلکہ ہر مردہ کی کہانی ایک جیسی ہے۔ طلوع ہونا اور غروب ہونا۔
سپرا آہستہ سے بولا۔ میری ناک کی نلکیوں کے پاس کچھ پھنس گیا ہے۔ یہ میرا واہمہ بھی ہوسکتا ہے۔ مگر جو پھنسا ہے، وہ گوشت کے ٹکرے جیسا ہے…اور ادھر مردہ خانے میں آنے کے بعد میں نے گوشت کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ یہ تمہارا فوجی ہوسکتا ہے، جس نے باغ میں تم پر ڈنڈے برسائے تھے…. اور اس کے گوشت کا ایک ریشہ تم اپنے ساتھ لے کر اس مردہ خانے میں آگئی تھی۔ وہ ریشہ میری ناک کی نلکیوں سے الجھ گیا ہے۔ اور اس وقت میری ساری توجہ ناک کی نلکی پر ہے، کیونکہ اس سے میری سانسیں گھٹنے لگتی ہیں… اور ایسا اس وقت بھی ہوا جب ریحانہ کا جنازہ اٹھا تھا…. سوگوار نم آنکھوں کے ساتھ بار بارمیرے شانے پر ہاتھ رکھ رہے تھے اور یہ ہاتھ مجھے ضحاک کے سانپ جیسے محسوس ہورہے تھے۔ بعد نماز عشا چارپائی تھامے افراد جب کھدی ہوئی قبر کی جانب بڑھ رہے تھے، وہاں پہلے سے ایک مردہ موجود تھا۔
کھودی جانے والی مٹی کی تہوں میں سپرا نے خود کو دیکھا تھا اور یہ اس کی آنکھوں کا وہم نہیں تھا…. اور جب ریحانہ کو قبر میں اتار جارہا تھا اور یہ اس کا وہم نہیں کہ اس کی چادرمیں اس کا لمس موجود تھا۔ کفن کے اندر سے اس کی ایک انگلی باہر آگئی تھی۔ جو اشارہ کررہی تھی کہ قبر کی تہوں میں کوئی پہلے سے موجود ہے۔ ایک ناقابل یقین مگر مگر سنسنی خیز لمس۔ وہ اس زندہ انگلی کے لمس کے ساتھ گھر لوٹا تھا اور اس وقت اس نے بی بی مریم کے مجسمے کو دیکھا تھا اور اس سرخ چیونٹے کو جو صندوق کے پاس دیوار پر چڑھنے کی کوشش کررہا تھا۔
وہ سونے کی کوشش کررہا ہے تو وہ انگلی رقص کرتی ہوئی اس کے سامنے آجاتی ہے۔ وہ ایک برف کے قلعے کو دیکھتا ہے اورپھر ریحانہ کو۔وہ قلعے کی فصیلوں پر کھڑی ہوئی مسکرا رہی ہے اور پھر اپنی چار انگلیاں دکھا کر کہتی ہے کہ ایک انگلی تمہارے لیے چھوڑدی، کہ تم مردہ مچھلیو ں کی طرح ساکت نہ رہو اور چاہو تو کسی خاتون کو گھر لے آؤ، جو میری طرح برف کے قلعوں میں قید نہ ہو۔
سپرا نے پہلے ایک صحرا دیکھا۔ پھر ایک خوبصورت مجسمہ۔ پھر اس پرندے کو دیکھا، جو یونانی داستانوں میں فینکس کے نام سے طویل عرصہ تک زندہ رہنے والا پرندہ ہے۔ جو سورج سے وابستہ ہے اور اپنی راکھ سے دوبارہ نمو حاصل کرتا ہے۔ جسے بی بی مریم نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے اور حضرت مسیح نے صلیب کو چومتے ہوئے فینکس کو دیکھاتھا اور کہا تھاکہ میں دوبارہ واپس آؤں گا۔
فینکس نے منہ سے شعلہ اُگلا….اور بھسم ہوگیا۔
سپرا نے دیکھا….. وہ دوبارہ زندہ ہوا، اس کے پنکھ عقاب کی طرح سونے کے ہیں۔ اس نے عیسیٰ مسیح کو صلیبوں کے درمیان دیکھا…. حق کی نگہداشت کرنے والا باپ، جو دوبارہ موجوں سے اٹھا اور چوٹیوں پر برامد ہوا… اور اس وقت جب دنیا تباہی کی طرف جاچکی تھی۔
سپرا نے آہستہ سے دہرایا۔فینکس…..مسیح…..
فینکس نے دوبارہ شعلہ اُگلا اور غائب ہوگیا۔
اب اس کی نظروں کے سامنے ضحاک تھا۔ دو سانپ، جو اس نے دو دو بار دیکھے۔ زہر اُگلتے اور غائب ہوتے ہوئے….لیکن ضحاک کے دہانے سونے جیسے نہیں تھے۔
اس نے پھر محسوس کیا، اس کی سانس لینے والی نلکی کے پاس ایک ہڈی کا ٹکرا آگیا ہے۔تاہم وہ مطمئن تھا کہ یہ ٹکرا نکل جائے گا اور وہ پھر سے سانس لے سکے گا اور اگر نہیں بھی لے سکا تو کوئی بات نہیں کیونکہ وہ زندہ کب ہے اور وہ فینکس بھی نہیں ہے۔
سپرا نے گل بانو کی طرف دیکھا….
’ کیا اس دن، اس دن جب باغ میں تم ڈنڈے کھارہی تھی، کیا آسمان میں گدھ تھے؟‘
’ ہاں۔میں نے ایسا ایک گدھ کیلی فورنیا کے نقشے میں دیکھا تھا۔ چونچ کے اوپر سانس لینے کے لیے دونوں جانب سوراخ ہوتے ہیں…. اور ان کی قوت شامہ بہت تیز ہوتی ہے….‘
ہاں اور شاید اسی لیے نظیرے، راٹھور تک نہیں پہنچا، بلکہ راٹھور نظیرے تک پہنچا…. قوت شامہ…..‘
سپرا نے پھر صلیبوں پر جھولتے مسیح کو دیکھا۔ لیکن ایک سیکنڈ میں منظر صاف تھا… اور سپرا نے گل بانو کے سفر کے بارے میں سوچا۔ ایک قحبہ خانہ…. چکلہ گھر….اس نے ایک دھول اڑتی ہوئی سڑک دیکھی۔ سڑک ے آس پاس سے بدبو اٹھ رہی تھی۔ ٹھیک ویسی بدبو، جو اس نے پارلیامنٹ میں محسوس کی تھی جب وہ راجیہ سبھا کا ممبر تھا اور بلا روک ٹوک ایوان خاص میں آیا جایا کرتا تھا۔ وہ اس وقت قحبہ خانے کی تنگ گلیوں سے گزر رہا تھا اور اس کو شدت سے احساس تھا کہ گل بانو نے زندگی کے بہت سے اوراق اس سے چھپالیے ہیں، وہ بھی ایک فینکس ہے، قحبہ خانے سے نکلی، ساؤتھ ایکس کے شاندار بنگلے میں چلی گئی۔ وہاں سے نکلی مردہ خانے میں آگئی۔ تجدید حیات…..
نغمے جو مرجاتے اور دوبارہ جنم لیتے ہیں۔
… اور موت….سپرا نے خیال کیا اور موت….وقفہئ حیات جہاں سے ایک لایعنی دشت وصحرا کی شاہراہیں نظر آتی ہیں۔ دور گھنا دشت….موت ایک لایعنیت کا سفر…. زندگی ایک غیر مبہم سفر کے ساتھ ہوتی ہے اور موت اس سے زیادہ غیر مبہم…. وہ لایعنیت کے صحرا میں ہے۔ سمندر غرقاب، نفوس غرقاب…. اور کہیں سراغ زندگی نہیں۔ حیات، عدالت کی پیشی….یہاں قحبہ خانہ بھی عدالت اور اس کی زندگی…. تمام نفوس کی زندگی۔
لایعنیت، جو فینکس کی طرح بار بار شعلے اگل کر پیدا ہوتی ہے، مرتی ہے، پیدا ہوتی ہے…. اور حیات و موت کا سراغ نہیں ملتا۔
ساقی اور پیر مغاں…شمسیروسناں… گل بانو اور وہ…. ایک متوازی سفر…. اور ایک پیشی میں اس نے ریحانہ سے کہا، پرندے اڑ گئے… اور ریحانہ نے کہا تھا، پرندے پھر واپس آئیں گے۔
اس دفعہ سپرا نے مجسمہ کی طرف دیکھا تو اسے ریحانہ کی شکل نظر آئی۔
آدم پرستی میں تمہاری دلچسپی ہے مگر تمہارا جمالیاتی حسن فینکس کی طرح آگ میں جھلس گیا۔
سپرا آہستہ سے بولا۔ کائنات کی افرا تفری…. اور دشت لایعنیت….
کیا تمہاری چھلانگ یہیں تک ہے؟ مجسمہ نے دریافت کیا۔
– ہم جسے آزادی سمجھتے ہیں، تصادم سمجھتے ہیں، بے آب وگیاہ ریگستان کے سوا کچھ بھی نہیں۔
یہاں کھجور کے درخت بھی ہوں گے، تلاش کرو۔
ll
مگر سپرا کو لایعنیت کے ریگستان میں کہیں بھی کھجور کا درخت نہیں ملا۔
وہ اب بھی بھٹک رہا تھا۔ دو روحوں کے درمیان
خانہ بدوشوں کے درمیان___
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...