انسان زمین پر موجود جانداروں میں سب سے زیادہ ذہین ہے۔ آج انسان زمین کے کُل رقبے کا مالک بن چکا ہے، حالت ایسی ہے کہ بہت سے جاندار انسانوں کی وجہ سے ناپید ہو چکے ہیں۔ ماہرینِ حیاتیات کے مطابق جانداروں کے معدوم ہونے کا تناسب گزشتہ ادوار کی معدومیت سے کہیں تیز ہے، اور آنے والی کچھ صدیوں میں زمین سے بہت سے جاندار معدوم ہو جائیں گے۔ رقم شدہ انسانی تاریخ کچھ زیادہ طویل نہیں، انسان نے لکھنا آج سے قریبا 5000 سال قبل سیکھا، اس سے قبل انسان کے پاس تاریخ، بلکہ حالات و واقعات کو ریکارڈ کرنے کا کوئی ذریعہ موجود نہ تھا۔ انسان تصاویر ضرور بناتا تھا جن سے قبل از تحریر انسانی تاریخ کو دیکھنے کا خوب موقع ملتا ہے۔ ان تصاویر میں بہت سے ایسے جاندار دیکھنے کو ملتے ہیں، جو تحریری تاریخ کے شروع ہونے سے کہیں قبل معدوم ہو چکے تھے، ان میں سرفہرست میمتھ ہاتھی اور سیبر ٹوتھ شیر ہیں، یورپ میں موجود وہ غاریں جو قدیمیت میں انسان کی رہائشگاہ رہ چکی ہیں، ان ہی غاروں میں یہ تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں۔
میمتھ ہاتھییوں کی عظیم معدومیت آج سے دس سے بارہ ہزار سال قبل وقوع پزیر ہوئی، اس دوران یہ براعظم ایشیا، افریقا اور یورپ سے مکمل طور پر معدوم ہوگئے۔ ان کی معدومیت کی وجہ زمین پر برفانی دور کا اختتام تھا، کیونکہ یہ ہاتھی سرد علاقوں کے باسی تھے، ان کی اونی کھال کی مناسبت سے ان کو اونی میمتھ یعنی Woolly Mammoths بھی کہا جاتا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق الاسکا کا سینٹ پال آئی لینڈ ان کی آخری رہائشگاہ تھا، مگر یہاں سے بھی یہ 3750 قبل مسیح میں معدوم ہوگئے، جبکہ میمتھ ہاتھیوں کی بونی نسل بحیرہ آرکٹک کے رینگل جزیرے پر 1650 قبل مسیح میں معدوم ہوئی۔ محققین کے اندازے کے مطابق، بڑھتے درجہ حرارت اور چڑھتے سمندر ان کی معدومیت کا باعث بنے۔
میمتھ کوئی اکلوتا جاندار نہیں جو کہ معدومیت کا شکار ہوا ہے۔ مگر یہ اس وقت معدومیت کا شکار ہوئے جب انسان نے تحریر کے ذریعے تاریخ رقم کرنا نہیں سیکھا تھا۔ اس لئے وقت کی طوالت میں یہ جاندار انسان کو بھول گئے، انسان یہ بھی بھول گیا کہ صرف 12000 سال قبل زمین کا غالب رقبہ برف سے ڈھکا ہوا تھا، سطح سمندر نیچے تھی، جس کے باعث انسان براعظموں کے درمیان جڑے ہوئے راستوں سے سفر کر سکتا تھا۔ انسان کی جنم بھومی افریقا ہے، مگر اسی برفانی دور کے دوران پچھلے ڈیڑھ لاکھ سال کے عرصے کے دوران انسان تمام رُوئے زمین پر پھیل گیا۔ ؎انسان ایتھوپیا ایشیاء سے نکلا، مشرق وسطیٰ میں آیا، یہاں سے یہ یورپ اور ہندوستان پہنچا، جہاں سے یہ چین و جاپان، بلکہ نیچی سطح سمندر کے باعث موجود زمینی راستوں سے ہوتا ہوا امریکی براعظموں حتیٰ کہ آسٹریلیا تک جا پہنچا۔ پھر زمین کا درجہ حرارت بڑھا سطح سمندر بلند ہوئی اور تمام زمینی راستے سطح سمندر کے نیچے چلے گئے۔ یقینا ایشیاء، افریقا اور یورپ میں موجود برف کے عظیم گلیشئیر جب پگھلے تو زمین پر دریاؤں میں تغیانی ہوئی بڑے بڑے سیلاب آئے۔ مگر جب درجہ حرارت اور موسم متوازن ہوئے تو انسان بھول چکا تھا کہ کبھی ایسے بھی راستے موجود تھے جو یورپ سے چین، جاپان اور امریکا تک جاتے تھے۔ انسان کے پاس تاریخ رقم کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہ تھا اس لئے انسان کا یہ علم معدوم ہو گیا، نئی نسلوں کو اس امر سے متعلق کوئی علم مہیا نہیں ہوا۔ اور انسان Amnesia یعنی بھولنے کی بیماری کا شکار ہو گیا۔ انسان کو میمتھ ، اونی گینڈوں اور سیبر ٹوتھ شیروں ہی کی طرح اپنے ماضی کے سفر، سمندروں کا اتار چڑھاؤ، زمینی راستے اور زمین پر چار سُو پھیلی ہوئی برف بھی یاد نہیں رہی۔
اک نئے دور کا آغاز ہوا، یہ دور ہریالی اور گرم موسم کا دور تھا، انسان جو جسمانی طور پر ننگا تھا، اس کی آبادی اس گرم دور میں خوب بڑھی، انسان زرخیز زمینوں کی جانب بڑھا، پہلے یہ شکاری تھا، جنگلی درختوں سے پھل کھاتا تھا، مگر وقت کے ساتھ آبادی بڑھی، اور انسان نے زراعت سیکھی، انسان اناج اگانے اور کھانے لگا، اس طرح خانہ بدوش شکاری زندگی کا اختتام ہوا، انسان گاؤں، قصبوں اور شہروں کی صورت میں رہنے لگا۔ آغازِ تہذیب کے بعد انسان نے بلآخر لکھنا سیکھا۔ مگر اس سے قبل جو ہوا وہ انسان بھول چکا تھا، کیونکہ اس کے پاس ایسا کوئی طریقہ موجود نہیں تھا جس سے ان قدیم ادوار کے حالات و واقعات کو یاد رکھ سکے۔
مذھب انسان میں انتہائی قدیمیت سے موجود تھا، انسان مختلف دیوی دیوتاؤں اور قدرتی قوتوں کی پوجا کرتا آیا تھا، فنِ تحریر سے قبل انسان بت بنانا جانتا تھا۔ اس لئے بت پرستی بھی جاری و ساری تھی۔ مذھبی روایتیں اور قصے زبانی بیان کے طور پر نسل در نسل منتقل ہوتے تھے۔
انسان کیونکہ ذہین ہے، اور ماضی کا انسان بھی ذہانت میں موجودہ انسان سے کچھ زیادہ پیچھے نہیں تھا۔ اس لئے وہ ہمیشہ ہی سے کائنات کی تعزین و آرائش، اور اس میں موجود قوتوں، رونما ہونے والے حالات و واقعات سے متعلق سوچتا آیا تھا۔ وہ ہمیشہ سے زلزلے، طوفان، آسمانی بجلی، سیلاب، کال اور قحط کی وجہ کے متعلق سوچتا تھا، مگر اس کے پاس ان سبھی معاملات میں علم موجود نہیں تھا، انسان اُسی وقت سے مختلف نظریات بناتا، گو کہ ان نظریات کی حقیقت کو پرکھنے کے آلات انسان کی دسترس میں نہ تھے، اسی لئے اگر آسمان میں بجلی کڑکی تو اس کی وجہ زیوس قرار پایا، سیلاب آیا تو اس کی وجہ مردوک، فصل اچھی ہوئی تو اس کی وجہ حیرا قرار پائی، اگر زلزلہ آیا تو شیول میں ہیڈیز اس کی وجہ قرار پایا۔ انسان نے ہر امر سے متعلق تاویلات گھڑ لیں، اور یہی تاویلات انسان کے ایمان اور مذھب کا حصہ بن گئیں، اگر کسی بچے نے پوچھا کہ زمین و آسمان کیسے بنے تو ایک بزرگ نے فرضی کہانی سنا دی، اور اس بچے نے اپنے بزرگ سے سنی ہوئی کہانی کو درست مان لیا، اسی طرح سلسلہ چلتا رہا، مختلف علاقوں میں رہنے والے لوگوں نے مختلف قصوں، کہانیوں اور ان کے مرکزی کردار یعنی دیوی دیوتاؤں کے ذریعے زمین و آسمان کے معاملات سے متعلق فہم پیدا کرنے کی کوشش کی۔ یہ فہم حقائق یا حتمی علم پر مبنی ہونے کے بجائے اندازے اور مفروضے پر مبنی تھا۔ اور یہ اندازے اور مفروضے کب مذھب بن گئے انسان کو معلوم ہی نہ ہوا، جب انسانی تہذیب پروان چڑھی تو نظم و ضبط اور تنظیم کی ضرورت پڑی، سب لوگوں کو ایک جھنڈے ایک نظریے کے نیچے اکٹھا کرنے کی لازمی محسوس ہوا، اور یوں مروجہ مذھب یعنی organized religion کا آغاز ہوا۔ سلطنتوں، راجاؤں اور بادشاہوں کو رعایا میں ہم آہنگی اور اتحاد کی ضرورت تھی، یہاں سے سرکاری مذھب ایجاد ہوا، سرکاری مذھب کی ایجاد کے ساتھ ہی مذھبی قصے کہانیوں کو رقم کر کے تحریری شکل دی گئی، اور مذھب جو پہلے مائع حالت میں تھا ٹھوس شکل اختیار کرتا چلا گیا۔ مذھب کسی بھی علاقے کے لوگوں میں اتحاد، تنظیم اور سیاسی یگانگت کی وجہ بن گیا، ایسی صورت میں مذھبی بندشیں پیدا ہوئیں، اور بہتر سمجھا گیا کہ ایک علاقے، حکومت اور انتظامیہ کے ماتحت لوگ ایک ہی مذھب اختیار کریں، یہاں سے مذھب کا جبر شروع ہوا، لوگوں کو زبردستی مذھب بدلوانے کا سلسلہ چل نکلا۔ اسی دور میں وہ سبھی قصے جو کسی وقت انسان نے زمین و آسمان کے امور کو سمجھنے کے لئے گھڑے تھے جامد شکل اختیار کر گئے۔ زمین و آسمان کا سات دن میں بنایا جانا، انسان کا مٹی سے تخلیق کیا جانا، عورت کا پسلی سے بنایا جانا، عظیم سیلاب اور اس جیسے دوسرے کئی واقعات مذھبی تاریخ میں اٹل حقیقتیں بنا دیئے گئے۔
مگر انسان بھول چکا تھا کہ وہ افریقا سے نکلا ہے، اس نے مشرقِ وسطیٰ، ہندوستان، چین، جاپان، آسٹریلیا اور امریکا تک پیدل سفر کیا تھا۔ اسی لئے انسان کا ایجاد کردہ مذھب بھی ان بھولی بسری باتوں سے متعلق کہیں کوئی بات نہیں کرتا ۔ وقت گزرتا گیا، انسان نے مذھب کے نام پر جنگیں لڑیں، ہزاروں سال تک قائم رہنے کے بعد فاتحین نے مفتوحین کے مذاھب کو معدوم کیا، مذھب پر مذھب نے چڑھائی کی، کئی مذھبوں کی موت ہوئی تو کئی فاتح و سچے قرار پائے، اور کئی آج تک برسر پیکار ہیں۔ مذاھب کی اس جنگ میں آخر کار انسان نے ترقی کی وہ بحری جہاز بنانے لگا، وہ زمین کی گولائی کے راز کو سمجھ گیا، اور بلآخر ایک دن وہی براعظم جو وقت کی طوالت میں انسانی یاداشت سے کھو گئے تھے، دوبارہ دریافت کیئے گئے، اور ان میں بسنے والے انسان جو پچھلے بارہ ہزار سال سے ہم سے کٹ چکے تھے پھر آن ملے۔ مگر ہماری قلیل یاداشت والی مذھبی کتابیں ان سے متعلق خاموش تھیں، ان میں کہیں رقم نہیں تھا کہ انسان زمین پر تین اور براعظموں اور کئی جزیروں پر بستا ہے، یہ کہیں نہیں لکھا تھا کہ ایک وقت زمین برف سے ڈھکی تھی، صحرائے عرب سے لے کر صحرائے گوبی اور الاسکا سبھی سفید تھے، مگر انسان کا ایجاد کردہ بھولا بسرا مذھب اور ننھا مُنا خدا اگر جانتے تو ضرور کہیں بین السطور ہی ان اٹل حقائق کی جانب کوئی اشارہ دے دیتے۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔
میری ایک رشتہ دار خاتون انتہائی بزرگ ہیں، ان کے کہنے کے مطابق ان پر آنے والا جن حافظِ قرآن ہے، مگر ان پر جب بھی جن آتا ہے وہ قرآن کی وہی آیات پڑھتی ہیں جو ان کو خود حفظ ہیں، اگر ان سے کہا جائے کہ سورۃ الاحزاب سنا دیں تو ان پر آنے والا جن اس کی پہلی آیت پڑھنے سے بھی قاصر رہتا ہے۔ ایسا ہی معاملہ مذھب اور اس کے خدا کا ہے، یہ انسان پر ہاوی وہ نفسیاتی بیماری ہے جس کو ایک جن کہا جا سکتا ہے۔ انسان کا مذھب صرف وہی کچھ جانتا ہے جو انسان مذھب کی ایجاد سے قبل خود جانتا تھا۔ ورنہ تو سورۃ الاحزاب کی طرح جراثیم بھی موجود تھے، امریکا بھی موجود تھے، زمین بھی گول تھی، برفانی دور بھی حقیقت ہے، ڈائنوسار بھی زمین پر لگے پھرتے تھے، مگر مذھب کو ان میں سے ایک سے بھی متعلق کچھ علم نہ تھا اور نہ سچے خدا اور جھوٹے دیوتاؤں نے ان سے متعلق کچھ خبر دی۔ اس امر کی روشنی میں مذھب کو ایک نفسیاتی بیماری قرار دیا جا سکتا ہے، ایسا مقدس امنیسیا یعنی Holy Amnesia جو کھوئی ہوئی یاداشت کے ساتھ ساتھ حالتِ وجدان میں وہی حقائق بتاتا ہے جو انسان پہلے سے جانتا تھا۔