شاعری ایک خدا داد ملکہ ہے۔یہ خاص الخاص غیبی امداد کی عطا کردہ نعمتِ مترقبہ ہے۔جس کو یہ فن ملتا ہے وہ اہلِ نقد و نظر کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی مقبول ہوتا ہے اور اس کی بقا کا ذریعہ اس کی نگارشات ہوتی ہیں لیکن اس میں بھی اختصاص اس کا ہے جس کی شاعرانہ فکر پاکیزہ و مطاہر ہو۔جس کے ذہن سے نکلنے والے خیالات رسول اور آلِ رسولؐ کی بارگاہ میں نذرانۂ عقیدت پیش کرتے ہوں۔ایسے شعراء بھی زندۂ جاوید ہوتے ہیں او ر ان کی شاعری بھی لازوال ہوتی ہے۔ساتھ ہی ان کا فن ان کے لئے باعثِ نجات و بخشش اور توشۂ آخرت ہوتا ہے جس سے اﷲبھی راضی ہوتا ہے اور رسولؐ اور ان کی آل بھی اس کی دادِ تحسین دیتی ہے۔اس سلسلے سے نہ جانے کتنے شعراء عالمِ وجود میں آئے ہیں اور آتے رہتے ہیں۔کچھ شعراء شاعری کی مختلف جہتوں پر نگاہ رکھتے ہیں تو کچھ تقدیسی شاعری کو ہی اپنا مطمحٔ نظر قرار دیتے ہیں اور اپنی پوری زندگی ذکرِ رسولؐ اور مدحِ آلِ رسولؐ کے لئے وقف کر دیتے ہیں اور اسی میں انفرادئیت قائم کرتے ہوئے فن میں کمال حاصل کرتے ہیں۔عصرِ حاضر میں ایسے ہی شعراء میں ضیغمؔ زیدی بھی پیش پیش ہیں جن کے آبا و اجداد کا تعلق گگسونہ ضلع مظفر نگر سے ہے۔ان کی ولادت بلند شہر میں ہوئی لیکن عمر علی گڑھ میں گزررہی ہے۔اب یہی ایک زمانے سے ان کا جائے مسکن اور وطن ہے۔یہاں کی ادبی فضا میں ان کے فن کو مزید جلا ملی۔وہ بہ یک وقت ایک اچھے سوز خواں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک منفرد لب و لہجے کے شاعر بھی ہیں۔ان کے یہاں تقدیسی شاعری کی مختلف اصناف میںطبع آزمائی نظر آتی ہے۔جس میں حمد،نعت،منقبت اور خصوصاً نوحہ نگاری ہے۔حال ہی میں ان کا تازہ مجموعۂ کلام بعنوان’’قلمِ مدحت‘‘ منظرِ عام پر آیا ہے جس کو ادبی اور خصوصاً مذہبی حلقوں میں نہایت مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔یہ مجموعہ صرف اور صرف طرحی کلام پر مشتمل ہے جو انھوں نے علی گڑھ اور بیرونِ علی گڑھ مختلف محافل و مجالس میںپیش کیا ہے۔اس مختصر سے مضمون میں ان کی مذہبی یعنی مقدس شاعری کا اجمالی طور پر جائزہ لینا مقصود ہے۔
ضیغمؔ زیدی کی خاص بات یہ ہے کہ وہ طرحی مصرع پر تضمین لگانے میں نہایت کامیاب نظر آتے ہیں۔وہ ایسا چست مصرع تضمین کرتے ہیں کہ لگتا ہے کہ طرحی مصرع انھیں کے لئے تھایا ان کا ہی ہے۔مثال کے لئے چند اشعار دیکھیں:
حقیقت یہی ہے ازل سے ابد تک
’’ثنائے خدا ہے ثنائے محمدؐ‘‘
غدیرِ خم کے متوالوں کی حالت پوچھتے کیا ہو
’’مئے حبِ علیؑ پی کر سدا سرشار رہتے ہیں‘‘
روئے علیؑ کی ضو کا سمندر ہے موجزن
’’کعبے کی سرزمیں پہ ہے سیلاب نور کا‘‘
ترے گھر کا کوئی ثانی نہیں دنیا میں اے زہراؑ
’’تری دہلیز کی رونق نبوت بھی امامت بھی‘‘
صلحِ حسنؑ سے مل گیا اس بات کا ثبوت
’’کردار مصطفیٰؐ کا ہیں شبرؑ لئے ہوئے‘‘
ملک بھی اس کی کوئی انتہاء بتا نہ سکے
’’نہ جانے کتنی بلندی پہ سر حسینؑ کا ہے‘‘
ستم کے وار سے پیکاں بھی رو دیا لیکن
’’چلے جو خلد کو اصغرؑ تو مسکرا کے چلے‘‘
ان کے کلام سے متعدد ایسی مثالیں دی جا سکتی ہیں جو اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ وہ مصرع پر مصرع لگانے میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ انفرادئیت رکھتے ہیں۔
ایک بڑا شاعر جہاں تاریخ پر گہری نگاہ رکھتا ہے وہیں تاریخی واقعات کو اپنی تخلیقات میں منظم کرنے کے فن سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔ضیغمؔ زیدی بھی اس سلسلے سے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں تو کئی کئی اشعار میں واقعہ نگاری کا حسن پیدا کر دیتے ہیں۔مثلاً:
جو مرتبہ ملا ہے علیؑ کو غدیر میں
کیسے نصیب ہوتا کسی کو غدیر میں
مجمع کثیر،دھوپ کڑی تھی،نبیؐ کا قلب
جبریلؑ جب کے لائے وحی کو غدیر میں
من کنت کہہ کے مولا بنا دو علیؑ کو آج
’’تبلیٖغ کا ہے حکم نبیؐ کو غدیر میں‘‘
منبر پہ ہیں رسولؐ تو ہاتھوں پہ مرتضیٰؑ
مولا بنا دیا ہے علیؑ کو غدیر میں
تاریخ ہے گواہ کہ اتنا کیا بلند
مجمع نہ دیکھ پایا نبیؐ کو غدیر میں
ظاہر ہے ان اشعار میں تسلسل کے ساتھ واقعۂ غدیر بیان کیا گیا ہے۔یہ بیان جس صورت سے کیا گیا ہے اس سے جہاں عقیدت آشکار ہورہی ہے وہیں یہ بھی ظاہر ہے کہ شاعر کو مسلسل اشعار کہنے کا بھی سلیقہ آتا ہے۔یعنی ضیغمؔ زیدی نظم نگاری میں بھی اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔
مذہبی شاعری میں قصیدہ نگاری کا بھی ایک مخصوص درجہ ہے۔آج کے زمانے میں قصیدے کی بقا صرف اور صرف مذہبی شاعری ہے۔اس صنف کے تقاضے نبھانا آسان نہیں لیکن ضیغمؔ زیدی جب قصیدہ نگاری کے حوالے سے قلم کو جنبش دیتے ہیں تو اس کی تشبیب کا بھرپور حق ادا کرتے ہیں۔مثلاً:
فضا مسرور ہے بدلا ہوا رنگِ گلستاں ہے
شگفتہ ہر کلی ہے شاخ پر ہر پھول خنداں ہے
کہیں قمری کی کو کو ہے کہیں بلبل غزل خواں ہے
چمن کی ڈالی ڈالی پر بپا جشمِ بہاراں ہے
بچھی ہے بزمِ کن میں چاندنی کی چادرِ ابیض
عروسِ شب نئے انداز سے محفل میں رقصاں ہے
کہیں سنبل کی لہرانے لگی ہیں شبنمی زلفیں
کہیں سوسن کی خوشبو سے معطر بزمِ امکاں ہے
ظاہر سی بات ہے مختصر سے مضمون میں ان کے قصیدے کے تمام اشعار رقم نہیں کئے جا سکتے لیکن ان اشعار سے مترشح ہے کہ ان کا اس سلسلے سے کیسا مزاج ہے۔گویا کہ وہ یہاں روایت کی راہ سے انحراف نہیں کرتے بلکہ روایتی انداز میں مختلف تشبیہات و استعارات کے توسل سے تمہید قائم کرتے ہوئے گریز تک پہنچتے ہیں۔اس قصیدے کا گریز بھی قابلِ تعریف ہے۔کہتے ہیں:
جو پوچھا میں نے ہے کس کے لئے آرائشِ محفل
صدا یہ غیب سے آئی کہ اس کا نام عمراں ہے
گویا کہ وہ نہایت سادگی و آسانی سے تمہیدسے مدح کی طرف سفر کرتے ہیں اور اس طرح گریز کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے قاری یا سامع کا ذہن چشمِ زدن میں ہی ممدوح کی شخصیت کی جانب متوجہ ہو جاتا ہے۔
اسی قصیدے میں وہ حضرت ابو طالبؑ کے وصف کو طرح طرح کی مثالوں او رتشبیہات کے سانچے میں ڈھال کر پیش کرتے ہیں۔مثلاً:
اگر لب کھول دے عرفان کی برسات ہو جائے
اگر خاموش ہو جائے تو خاموشی ہی طوفاں ہے
ایک بات یہاں ثابت ہوتی ہے کہ ان کے قصائد میں روایتی انداز بھی ہے اور جدید لب و لہجے کی رمق بھی ۔یہی وجہ ہے وہ مناقب میں بھی طرح طرح کے اسالیب کے تحت اپنی شاعری کا رنگ دکھاتے ہیں۔تشبیہات و استعارات کا جہاں قصیدے میں سہارا لیتے ہیں وہی منقبت بھی اس سے مزئین نظر آتی ہے۔کہتے ہیں:
تعجب کیا علیؑ کے ساتھ گر اغیار رہتے ہیں
گلوں کے درمیاں دیکھا گیا ہے خار رہتے ہیں
بنتِ اسد کی گود میں اترا ہے ایک چاند
مجمع لگا ہے کعبے میں غلمان و حور کا
نہ کہو ہاتھ میں ہے زلفِ محمدؐ کی مہار
اپنے قبضے میں لئے گردشِ دوراں ہیں حسنؑ
یوں گود میں حسنؑ کو ہیں حیدرؑ لئے ہوئے
جیسے فلک ہو مہرِ منور لئے ہوئے
کسی بھی کلام کو زیب و زینت دینے کے لئے تشبیہات و استعارات کے ساتھ ساتھ تلمیحات کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔یوں تو مذہبی شاعری کو من و عن تلمیح کہا جاسکتا ہے لیکن شاعر کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ تلمیح در تلمیح بیان کرکے اپنے فن کا لوہا منواتا ہے۔ضیغمؔ زیدی بھی اس راہ میں قدم قدم پر تلمیحات کا دامن تھامتے ہیں۔مثلاً:
اپنے بیٹوں کو سلا دے جو بھتیجے کی جگہ
دہر میں ایسا نگہبان ابو طالبؑ ہے
وہ شعب کی منزل ہو یا بزمِ عشیرہ ہو
ہے دین کی گردن پر احسانِ ابوطالبؑ
ہم جو نعتِ رسولؐ پڑھتے ہیں
آپ کا ہے کرم ابو طالبؑ
معجزن دریا مسرت کا دلِ حیدرؑ میں ہے
محسنِ فطرس کی آمد فاطمہؑ کے گھر میں ہے
جہاں پر بھی غلامِ حیدرِؑ کرار رہتے ہیں
وہ ظالم کے مقابل صورتِ مختار رہتے ہیں
ظاہر ہے ان اشعار میں دعوتِ ذوالعشیرہ ،شعبِ ابو طالبؑ اور دیگر واقعات کی طرف اشارے ہیں جو اسلام کی تاریخ کا اہم جزو ہیں۔
ضیغمؔ زیدی کے اسلوب کے تحت یہ بات متعدد مثالوں سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کی شاعری میں ہر وہ چیز موجود ہے جو اچھی شاعری کے لئے ضروری ہوتی ہے۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کے الفاظ کا در و بست قاری کے لئے تفہیمی مراحل میں کوئی دشواری مہیا نہیں کرتا بلکہ وہ آسان اور عام فہم الفاظ کا بیشتر مقامات پر استعمال کرتے ہیں تاکہ ان کے شعر کی تبلیغ آسانی سے ہو سکے۔مثلاً:
ہوئی مجھ پہ جب سے عطائے محمدؑ
کئے جارہا ہوں ثنائے محمدؐ
کربلا کا آئینہ جب بھی اٹھا کر دیکھنا
صورتِ اصغرؑ میں صدیوں کا مقدر دیکھنا
صدیوں غمِ حسینؑ کو سینے میں پال کے
ہم نے رکھی ہے دین کی دولت سنبھال کے
بڑی شاعری کی پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ خوابیدہ اذہان کو جگانے کا کام کرتی ہے اس میں ایک پیغام عیاں ہوتا ہے۔ضیغمؔ زیدی جہاں اپنی شاعری کو عقیدت اور عقائد کا گلدستہ بناتے ہیں وہیں پیغام رسانی سے بھی کام لیتے ہیں۔مثلاً:
کنیزانِ جنابِ فاطمہؑ لیں جائزہ اپنا
تمہارے روبرو ہے آئینہ زہراؑ کی چادر کا
کیا بتائیں گے جہاں والے بھلا رازِ حیات
زندگی چاہو تو ڈھونڈو راستہ شبیرؑ کا
ان کے لکھے ہوئے نوحوں کے حوالے سے گفتگو کریں تو بلا دریغ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے نوحے واقعی نوحے ہیں یعنی رثائی شاعری پر پورے کھرے اترتے ہیں۔قاری یا سامع انھیں جوں ہی پڑھتا ہے یا سنتا ہے بشرطِ کہ اس کی فکر واقعۂ کربلا سے منسلک ہو میرا دعوہ ہے کہ اس کی آنکھیں نم ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔کیوں کہ ان کے نوحوں میں محزونیت بدرجۂ اتم موجود ہے۔مثال کے لئے کچھ اشعار دیکھے جاسکتے ہیں:
فریاد فاطمہؑ کی دل کو ہلا رہی ہے
زینبؑ اسیر ہوکر زنداں کو جا رہی ہے
مقتل بنا پڑا ہے لاشوں سے کربلا میں
اور فوجِ ظلم شہ کے خیمے جلا رہی ہے
بچے تڑپ تڑپ کر آنسوبہا رہے ہیں
فوجِ لعیں طمانچے رخ پر لگا رہی ہے
باپ کے غم میں رہے چالیس برسوں تک ملول
زندگی بھر غم اٹھائے سیدِ سجادؑ نے
کیوں علی اکبرؑ کا سینہ تم نے زخمی کر دیا
یہ مسلمانوں نبیؐ کی ہو بہو تصویر ہے
زینبؑ نے کہا روکر یہ قبرِ سکینہؑ پر
جاتے ہیں وطن بی بی زنداں سے رہائی ہے
ضیغمؔ زیدی کے لکھے ہوئے نوحوں میں جا بجا حزن و ملا ل نظر آتا ہے جو اصل میں نوحہ گوئی کا خاصہ ہوتا ہے۔ان کے یہاں واقعاتِ کربلا کے مختلف گوشوں پر مختلف زاویوں سے اشعار رقم کئے گئے ہیں۔وہ اپنی مذہبی شاعری کو اپنے لئے آخرت میں کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں جس کا اظہار اکثر ان کے مقطع میں نظر آتا ہے۔
مختصر یہ کہ ضیغمؔ زیدی کی شاعری صرف اور صرف مذہبی ہے جو رسول اور آلِ رسولؐ کی مودت میں ڈوبی ہوئی ہے۔اس کے مضامین اسلامی واقعات سے مشتق و ماخوذ ہیں۔ان کے یہاں شاعری کا ہر وہ حسن موجود ہے جو کسی بھی شاعری کو حقیقت میں شاعری بناتا ہے۔
ڈاکٹر سید بصیر الحسن وفاؔ نقوی
ہلالؔ ہائوس
4/114نگلہ ملاح
سول لائن علی گڑھ یوپی انڈیا
موبائل:9219782014
Dr Syed Baseerul Hasan Wafa Naqvi
Hilal House
4/114 Nagla Mallah Civil line Aligarh
UP India
Mob:9219782014