میں صحرا میں بھٹک رہا ہوں۔ دور تک ریت ہی ریت۔۔۔۔ ریت میں کتنے لوگ گم ہو جاتے ہیں،بھٹک جاتے ہیں۔مجھے ایسی بے شمار کہانیاں یاد آ رہی ہیں ۔صحرائے تھر میں بیس انسانوں کا قافلہ اپنا راستہ کھوبیٹھا۔۔۔ اور شدید طوفان میں پھنس گیا۔ ان کے اونٹ بھی طوفان میں ان کو چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ راستے کی تلاش میں ایک ہفتہ تک بھٹکنے کے بعد، پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان سب کی موت ہو گئی ۔ موت۔۔۔۔ متحرک موت۔۔۔۔ابھی زندگی اور ابھی موت۔ صحرائے عظیم میں کچھ فوجی بھٹک گئے، جب ان کی تلاش شروع ہوئی تو ان کی لاشیں سرحدی علاقے میں صحرا کے وسط میں پائی گئیں۔ نعش دیکھ کر معلوم ہوا کہ پانی کی تلاش نے ان فوجیوں کو موت سے قریب کر دیا۔ یہاں بھی موت ہے۔۔۔۔موت کا رقص۔۔۔۔ دوست،عزیز، رشتے دار۔۔۔۔اور ایک خاموش تجسس۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے؟ ابھی اس کی عمر کیا تھی۔۔۔۔ طلسمی دیوار، جس کی طرف دیکھنے والا پتھر کا ہو جاتا ہے۔ ہم سب اس وقت اس طلسمی دیوار کا حصّہ ہیں اور کوئی نہیں جانتا، پتھر کے بے جان مجسمے میں، تبدیل ہونے میں کس کو کتنا وقت لگے گا۔مجھے اس کھلاڑی کی یاد آئی، جس نے مراتھن دوڑ میں حصّہ لیا تھا۔مراکش پہنچتے ہی صحرا نے اسے راغب کیا۔ جب صبح اس نے دوڑنا شروع کیا تو کچھ ہوا چل رہی تھی۔وہ چار چوکیوں سے گزرا۔ لیکن جب وہ ریت کے ٹیلوں کے علاقے میں پہنچا تو تنہا تھا۔ ٹیم کے رہنما آگے چلے گئے تھے۔
اچانک ریت کا طوفان شروع ہوگیا۔ کھلاڑی ریت سے ڈھکا ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے ہزاروں سوئیاں اس کے جسم میں گھونپ دی گئی ہوں۔وہ مسلسل ریت میں دفن ہونے سے خود کو بچانے کی کوشش کرتا رہا۔ آٹھ گھنٹے بعد، طوفان رک گیا اور اندھیرا تھا۔ وہ ایک ٹیلے پر سو گیا۔جب وہ صبح اٹھا تو وہاں کا منظر بالکل بدل گیا تھا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں ہے۔ اسے پہلی بار کھو جانے کا احساس ہوا تو سب سے پہلے اس نے ایک بوتل میں پیشاب کیا۔کچھ دن بھٹکتے بھٹکتے وہ ایک مزار پر پہنچا۔ وہاں اس نے تازہ پیشاب کے ساتھ کچھ کھانا پکایا اور کھایا۔ وہ بہت تناؤ کا شکار تھا۔ اسے لگا کہ اگر وہ صحرا میں مر گیا تو کوئی اسے تلاش نہیں کر نہیں پائے گا۔ اگر وہ درگاہ میں مرتا ہے تو شاید اس کی شناخت ہو جائے۔ اس نے اپنی جان لینے کا فیصلہ کیا۔ اس نے کوئلہ کے ساتھ ایک نوٹ لکھا اور کلائی کاٹ دی۔ اس کے باوجود وہ کھلاڑی زندہ رہا اور اس نے افق میں جہاں بھی بادل تھے، اس سمت میں دوڑنا شروع کیا۔آٹھ دن بعد اس کو ایک لڑکی نظر آئی لیکن وہ اس قدر خوفناک نظر آ رہا تھا کہ لڑکی بکروں کو چرانا چھوڑ کر ایک خیمے کی طرف بھاگ گئی۔
مجھے ایسی بیشمار کہانیاں یاد ہیں ۔۔اور اس وقت میں دھند بھرے صحرا میں بھٹک رہا ہوں ۔۔
کچھ لوگ پیدا ہوتے ہی کہانیوں میں داخل ہوجاتے ہیں۔ شاید ان میں سے ایک میں بھی تھا۔ آنکھیں کھولیں، تو دور تک کہانیوں کی چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ ’طلسم ہوشربا‘ کے کرداروں کی طرح گھر اور آس پاس سے جڑا ہر کردار جادو جگاتا، نظروں کے آگے آکر اپنے کھیل دکھاتا، میرے لیے طرح طرح کی دلچسپیوں کے سامان مہیا کر رہا تھا۔ آپ کو بتاوں، یہاں ڈکینس ہوتا تو وہ کتنے ہی دٹیل آف ٹو سیٹیز، پکوِک پیپر، ڈگریٹ ایکس پیک ٹیشن، ہائی ٹائمس لکھ ڈالتا— گیریل گار سیامارکیز ہوتا تو وہ اپنی اُداسی کے سو سال (One hundred years of solitude) کا دوسرا حصہ لکھنے بیٹھ جاتا— کہ یہ گھر جہاں میں پیدا ہوا، سو برسوں کی اداسیوں سے بھی زیادہ پرانا تھا۔ اور ان خستہ محرابوں، شکستہ درو دیوار میں جانے کتنی ہی کہانیاں دفن تھیں۔ اب یہاں حویلی جیسا کچھ بھی نہ تھا، مگر یہ گھر ’کوٹھی‘ کہلاتا تھا— بڑے محراب نما دروازے پر لٹکتا ہوا پرانا ٹاٹ کا پردہ، میری کہانیاں اسی پردے کے اندر باہر جھانکتی ہوئی بڑی ہوئیں:
”یہاں سے گل مہر کے پیڑ نہیں جھانکتے—
’سرو‘ کے پیڑوں کی قطار نظر نہیں آتی
نظر آتا ہے صرف اندھیرا / گھنے بادلوں کے درمیان کہیں چھپ گئی ہے/ روشنی/
زندگی تلاش کرنے والے چہروں میں/ گم ہوتی جارہی ہیں/ میری کہانیاں،‘
بستر پر بیٹھی بیٹھی، ہاتھوں سے مکھیاں اڑاتی، مریم مریم کا ورد کرنے والی بوڑھی دادی ، امّاں۔اور اپنے آپ سے زوردار آواز میں باتیں کرنے والی نانی اماں۔ جانوروں سے دوستی گانٹھنے والی، اُن سے انسانوں کے انداز میں باتیں کرنے والی فضیلن بوا، میں آہستہ آہستہ ان کرداروں میں اُتر رہا تھا۔
اس ایک گھر میں کتنے گھر آباد تھے۔ جیسے مہانگروں میں کالونیاں ہوتی ہیں۔ ان کالونیوں کے دروازے الگ الگ ہوتے ہیں۔ اور ان الگ الگ دروازوں میں اجنبیت کی نظمیں ہوتی ہیں۔
غیر مانوس آیتیں ہوتی ہیں۔ مگر یہاں۔۔۔۔
کالونیوں میں، جگمگاتے ستارے نظر نہیں آتے۔
نیلگوں آسماں نظر نہیں آتا۔
کالونیوں میں ”اُوسارے“ نہیں ہوتے— آنگن نہیں ہوتا— وہ چھت بھی نہیں ہوتی، جس پر ایک پلنگڑی یا چارپائی بچھی ہوتی ہے اور چھت سے ’آنکھوں جتنے فاصلے‘ پر ٹمٹماتے تارے بھی نہیں ہوتے ہیں۔ وہ مانوس سی جانی پہچانی تاریکی بھی نہیں ہوتی ہے، جس میں خواب بُنتے ہیں یا بُنے جاتے ہیں—
تب پہلی بار ایک خواب ’بُنا‘ تھا— اسی تاروں کی بارات والے قافلے کو دیکھتے ہوئے— اُسی پلنگڑی پر لیٹے لیٹے، تاریکی میں بند آنکھوں میں، ”میدے“ کی چھوٹی چھوٹی ’لوئیوں‘ کی طرح کچھ خوابوں کو گوندھا تھا۔۔۔۔
’میں لکھنا چاہتا ہوں۔‘
تم سب کو لکھنا چاہتا ہوں میں
زندگی کی چھوٹی سے چھوٹی بات کو
جو میری سوچ میں عید کی سویّوں کی طرح الجھ گئی ہیں۔۔۔۔‘
لگاتھا، یہاں سے آنکھوں جتنے فاصلے پر، پھیلے آسمان تک میری آواز گونج گئی ہو۔۔۔۔
”سنو، میں لکھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔
تم سب کو لکھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔
میں لکھنا چاہتا ہوں کہ۔۔۔۔“
ستارے ٹمٹما رہے تھے۔ رات گا رہی تھی۔۔۔۔ ہوا گنگنا رہی تھی۔ آنگن میں تنہا امرود کا درخت تیز ہوا سے ڈول رہا تھا۔۔۔۔ اور وہاں۔۔۔۔ دور۔۔۔۔ فلک پر ۔۔۔۔ تاروں کے قافلے سے ذرا الگ۔۔۔۔ وہ سات تارے۔۔ ’بنات النعش‘۔۔۔۔ (وہ سات ستارے جو ایک ساتھ آسمان پر شمال کی سمت میں دکھائی دیتے ہیں۔)۔۔۔۔ اور وہ۔۔۔۔ اُداس سا قطب تارا۔۔۔۔
میری آواز جیسے کہکشاں میں تیر گئی ہو۔۔۔۔
’سنو‘ میں لکھنا چاہتا ہوں‘
تمہیں! تم سب کو لکھنا چاہتا ہوں میں۔۔۔۔‘
چھوٹا سا شہر، آرا—
محلہ مہادیوا کی پتھریلی سڑک۔ سڑکوں سے گزرتی گاڑیاں، بیل گاڑیاں، ٹم ٹم، زیادہ تر پیدل چلتے مسافر‘ سائیکل سوار۔ لیکن تب، عمر کی نازک سی دہلیز پر سب سے زیادہ چاہت پیدا ہوئی تھی— تو کسی ڈاکیے کے لیے۔
تب— وحشت کا گیارہواں سال تھا—
تب پہلی کہانی لکھی تھی—
تب— پہلی بار اس شہر میں سب سے زیادہ الگ ہونے کا احساس پیدا ہوا تھا۔ لیکن اس احساس نے مجھے کتنی جلد، میری اوقات بتا دی تھی۔
دوپہر دو بجے کا وقت۔ گرمی، مئی جون کا مہینہ۔ تیز چلتی ہوئی لو، سڑک جیسے آگ اُگل رہی ہے۔ اس دن چھٹی تھی۔ اس دن میں اسکول نہیں گیا تھا۔ آنکھوں میں رہ رہ کر انتظار کی گرد پڑی جارہی تھی۔۔۔۔
ڈاکیہ آگیا ہے۔۔۔۔
اور ڈاکیہ سچ مچ آگیا۔ ایک لفافہ میرے ہاتھ میں تھما گیا۔ میں وہیں کھڑا کھڑا لفافے کو دیکھتا ہوں۔ اس میں میرا نام لکھا ہے۔۔۔۔ میرا نام۔۔۔۔ بار بار اپنا نام پڑھتا ہوں۔ م۔۔۔۔ مشر۔۔۔۔رف۔۔۔۔ عالم ۔۔۔۔ ذو۔۔۔۔ قی۔۔۔۔ ارے سچ مچ یہ تومیرا نام ہے۔۔۔۔ ارے واہ یہ خط تو میرے نام کا ہے۔۔۔۔ یہ کسی رسالہ سے آیا ہوا، میرے نام کا آیا ہوا پہلا خط تھا۔ رسالہ تھا۔ پیام تعلیم۔ اس وقت اس کے مدیر تھے — حسین حسان ندوی (شاید‘ اگر میں نام نہیں بھول رہا ہوں)
ظاہر ہے ، یہ خط میری پہلی لوٹائی گئی کہانی کے بارے میں تھا۔ چند نصیحتیں تھیں۔ ۔۔۔ مگر یہ خط دلی سے آیا تھا۔ میں دلی نہیں گیا تھا۔ مگر میری کہانی دلی تک کا سفر طے کر کے واپس آئی تھی۔ یہ میرے لیے بڑی بات تھی۔۔۔۔ دلچسپ بات تھی۔۔۔۔
میں بار بار مڑی تڑی اپنی کہانی کو دیکھتا تھا اور کہانی کے ساتھ منسلک خط کو۔
بہت حبس ہے ۔۔ مگر ایک امید اس لفاف میں قید ہے ۔۔
بہت اندھیرا ہے ۔۔مگر آگے ایک روشنی بھی ہے ۔۔میں صحرا میں بھٹک رہا ہوں۔ دور تک ریت ہی ریت۔۔۔ مگر مجھے یقین ہے ، کہیں اس پاس محبت کا نغمہ بھی ہے اور یہ نغمہ مجھے آواز دے رہا ہے ۔۔