منو بھائی
————–
ملک کے ممتاز کالم نگار،شاعر اور ڈرامہ نگار منوبھائی 6فروری 19333ء کووزیر آباد میں محمد عظیم قریشی کے گھر پیدا ہوئے۔ منو بھائی کا اصل نام منیر احمد قریشی ہے۔ ان کے دادا میاں غلام حیدر مسجد میں امامت کرواتے تھے لیکن امامت کے صلہ میں وہ کچھ بھی نہیں لیتے تھے اور کتا بوں کی جلد سازی اور خوش نویسی سے گزر اوقات کرتے تھے۔گویا ان کا تعلق نہایت غریب طبقے سے تھا۔ انہوں نے کئی راتیں فاقے سے گزاریں۔ انہیں علم ہے کہ بھوک کا عذاب اور لطف کیا ہوتا ہے۔ ان کے داد اشاعر بھی تھے اور پنجابی میں شاعری کرتے تھے۔ انہوں نے ہندوئوں کی کتاب ’’ گیتا‘‘ کا پنجابی میں منظوم ترجمہ کیا تھا۔ وہ ہندی ، فارسی اور سنسکرت جانتے تھے اور حوالے سے وہ چھ ماہ مہاراجہ کشمیر کے فارسی کے اتالیق بھی رہے۔
ان کے والد اور تایا جی ( فضل کریم) نے وزیر آباد ہی میں تعلیم حاصل کی۔ ان کی عمرآٹھ سال تھی کہ ان کے دادا کا انتقال ہو گیا۔ ان کے والد ریلوے میں ملازمت کے سلسلے میں جہاں جہاں رہے منو بھائی بھی ساتھ رہے۔ انہوں نے پانچویں سے نویں جماعت تک کلور کوٹ(بھکر) میں تعلیم حاصل کی ۔پاکستان اسی دوران معرض وجودمیں آیا ۔ اس شہر میں زیادہ تر ہندوئوں کی آبادی تھی۔ کلورکوٹ ان دنوں اچار اور چنے کی بڑی منڈی کے حوالے سے مشہور تھا۔ انہیں اسی شہر میں پہلی بار محبت سے آشنائی ہوئی۔ سکول میں رام لیلا ڈرامہ ہوتا تھا جس میں منو بھائی بھی حصہ لیا کرتے تھے۔ ان کے ڈراموں کے بیشتر کردار اسی علاقے کے لوگوں میں سے ہیں۔ ان کے مشہور ڈرامے ’’سونا چاندی‘‘ کے کرداروں کا پس منظر بھکر کے ایک ریلوے اسٹیشن پر صفائی کرنے والا جوڑا تھا جن کے نام سونا اور چاندی تھے۔ اسی طرح ان کے ڈرامے ’’جزیرہ‘‘ کی کیلی کملی بھی اسی اسٹیشن پر ریل کے ڈبوں میں سویا کرتی تھی۔
منو بھائی کے بقول بچپن میں ان کی زبان میں لکنت تھی اور ٹھیک طرح بول نہیں سکتے تھے، اس وجہ سے لڑکے انہیں منیر تھتھا کہا کرتے تھے۔ اس سے دل برداشتہ ہو کر وہ لڑکوں کی بجائے لڑکیوں میں کھیلا کرتے تھے کیونکہ لڑکیاں ان کی جسمانی کمزوری کا مذاق نہیں اڑاتی تھیں اور قدرے ہمدرد تھیں۔
منو بھائی کے والد انہیں ریلوے میں بھرتی کروانا چاہتے تھے لیکن وہ صحافت کے میدان کی طرف جا نکلے۔ انہوں نے ماہنامہ ’’تعمیر‘‘ راولپنڈی میں پچاس روپے ماہوار پر پروف ریڈنگ سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ جلد ہی وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر سب ایڈیٹر بن گئے۔ اسی دوران انہیں معروف صحافی اور ادیب شفقت تنویر مرزا کی رفاقت میسر آئی۔ شفقت مرزا ریڈیو پر بطور پروڈیوسر خدمات سر انجام دیتے تھے۔ 1955ء کا دور تھا جب انہیں ریڈیو پر بین کر دیا گیا تو ان کے پروگرام منو بھائی کے نام سے چلتے تھے۔ اس کے عوض انہیں دو سو روپے ماہوار ملتے تھے۔
منو بھائی مختلف رسائل و اخبارات میں اپنا کلام بھیجتے تھے جو منیر احمد کے نام سے شائع ہوتا تھا۔ جب انہوں نے اپنی نظم روزنامہ ’’امروز‘‘ میں چھپنے کے لیے بھیجی تو جناب احمد ندیم قاسمی نے منیر احمد کاٹ کر ان کا نام ’’منو بھائی‘‘ کر دیا تب سے یہی نام چل رہا ہے۔ دلدار پرویز بھٹی نے ایک بار ان سے پوچھا تھا کہ بھابی آپ کو کس نام سے پکارتی ہیں تو انہوں نے بے ساختہ کہا تھا۔ ’’دلدار کے نام سے…‘‘
منو بھائی کا کالم ’’گریبان‘‘ بے حد مقبول ہے اور کئی سالوں سے مسلسل شائع ہو رہا ہے۔ انہوں نے اردو اور پنجابی میں شاعری بھی کی لیکن ان کو زیادہ شہرت ٹی وی ڈراموں کی وجہ سے ملی۔
ان کا سب سے مشہور ڈرامہ ’’سونا چاندی‘‘ ہے جو بہت طویل عرصہ تک پی ٹی وی پر چلتا رہا۔ ان کے دیگر قابل ذکر ڈراموں میں دشت، آشیانہ، میری سادگی دیکھ، دروازہ، ضرورت، چھوٹے، گم شدہ شامل ہیں۔ منو بھائی کے کالموں کا مجموعہ ’’جو بچا ہے شہر مقتل میں‘‘ شائع ہو چکا ہے۔
منو بھائی سماجی کاموں میں بھی خود کو بے حد مصروف رکھتے ہیں اور متعدد سماجی تنظیموں کے فعال کارکن ہیں۔ بیمار بچوں کی فلاح و بہبود کی معروف این جی او ’’سندس فائونڈیشن‘‘ کے تاحیات چیئرمین ہیں۔ حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس بھی مل چکا ہے۔
منو بھائی کی پنجابی شاعری کے دو نمونے ملاحظہ کیجیے۔
اک گل میری پلے بنھ لو
کہن لگائی حلوائی
مکھیاں وی اُڈ جان گیاں
جدوں مک گئی مٹھیائی
وال ودھا لے رانجھے نے تے ٹنڈ کرا لئی ہیراں نے
مرزے خاں نال دھوکہ کیتا اوہدے اپنے تیراں نے
میٹر لا کے خوب چلائی صاحباں اودیاں ویراں نے
پر اجے قیامت نہیں آئی
Munnu Bhai, 6 Feb, Munir Ahmad Qureshi
https://www.facebook.com/groups/290995810935914?view=permalink&id=1248265128542306