یہ 2008 کی گرمیوں کی بات ھے میں نیا نیا انگلینڈ میں وارد ھوا تھا اور اسی دوران بدقسمتی سے میرا پاسپورٹ چوری ھوگیا تھا اور جب تک نیا پاسپورٹ ملتا میں چھوٹی موٹی نوکری کی تلاش میں تھا جو کہ بغیر پاسپورٹ کے لندن میں تقریبا" کافی مشکل ھی نہیں بلکہ ناممکن بھی تھا، ایک کرسچیئن مہربان نے مجھے لندن سے برسٹل آنے اور نوکری دلوانے کا آسرا دیا جو وھاں جا کر پتہ چلا کہ واقعی آسرا ھی ھے، انتہائی مایوسی کے عالم میں واپسی پر غلط جگہ پر بس کا انتظار کرنے لگا لہذا صیح جگہ سے اپنے مقررہ وقت پر جس بس کی واپسی کی سیٹ بک تھی وہ روانہ ھوگئی اور ھمارے پاس ھاتھ ملنے اور دوسری بس کا انتظار کرنے کے علاوہ کوئ چارہ ناں تھا، جس بس میں سیٹ بک ھوئ اس کے آنے میں تقریبا" دو گھنٹے باقی تھے اب کیا کریں؟ مجبورا" اب کہیں سے کوک اور چپس کی تلاش ھوئ، جس جگہ بس اسٹاپ تھا اس سے پانچ منٹ کی مسافت پر ایک انتہائی مصروف علاقہ تھا ھم وھاں پہنچے اور ایک بڑے سے اسٹور میں داخل ھوگئے، ایک نوجوان بڑے سے فریج میں مختلف اقسام کی سوفٹ ڈرنک اور انرجی ڈرنک لگا رھا تھا اس سے کوک کے مطلق پوچھا تو لہجے سے انڈین لگا تو پوچھ لیا کہ کہاں سے ھو؟ کہنے لگا پاکستان حیدرآباد آباد سے، کیونکہ میرا تعلق بھی حیدرآباد سندھ یونیورسٹی سے تھا تو پوچھ لیا کہ حیدرآباد کے کس علاقے سے ھو جناب؟ باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ میرے سابقہ اسٹوڈنٹ کا کزن ھے۔ بہت محبت اور عزت سے ملا اور کھانے اور رات ٹھہرنے تک کی دعوت دے ڈالی، میں نے بتایا کہ سیٹ بک ھے اور بس کا انتظار کر رھا ھوں، تھوڑی دیر اس سے باتیں کی موصوف یہاں برسٹل یونیورسٹی میں پڑھ رھے تھے، اور اس اسٹور میں پارٹ ٹائم نوکری کرتے ھیں، ھماری گفتگو کے دوران ایک شخص متواتر اسے دیکھ یا گھور رھا تھا میرے استفار کرنے پر بتایا کہ اس اسٹور کا مالک ھے مجھ سے اجازت لے کر وہ نوجوان کاونٹر پر چلا گیا، اسٹور کافی بڑا تھا اور کئی نوکر کام کر رھے تھے، اسٹور کی مصروفیت کا یہ عالم تھا کہ لوگوں کو لائن میں کھڑے ھو کر کاونٹر پر بل دینا پڑ رھا تھا، کیونکہ میں اسٹور میں کھڑا ھو کر ڈرنک نہیں پی سکتا تھا اس لئیے میں باھر آکر کھڑا ھوگیا اور کوک پینے لگا، چند منٹوں بعد ھی وہ اسٹور کا مالک باھر آگیا اور سگریٹ سلگانے لگا، یاد رھے انگلینڈ میں آپ گھر دوکان آفیس یا کسی بھی بند جگہ بس یا چار دیواری میں سگریٹ نہیں پی سکتے ھیں حتی کہ اپ اپنے گھر کے اندر بھی یعنی اپنے بیڈروم میں بھی سگریٹ نہیں پی سکتے ھیں، اور لوگ بڑی سختی سے اس قانون پر عمل کرتے ھیں، سگریٹ آپ کو ھر حال میں کھلی جگہ پر ھی پینا ھوتی ھے، اسی لئے اسٹور کے مالک کو بھی باھر آکر ھی سگریٹ پینا پڑ رھی تھی، میں آھستہ آھستہ کوک کے سپ لے رھا تھا تاکہ اس ایک کوک کے سہارے زیادہ سے زیادہ وقت گزار سکوں، اس نے آتے ھی اسلام وعلیکم مارا، میں نے بھی مسکرا کر جواب دیا، انہوں نے مختلف سوالات کئے میں مختصرا" جواب دیتا جا رھا تھا۔ پھر پوچھا، اسٹوڈنٹ ھو؟ میں نے کہا جی نہیں، سیاسی پناہ پر ھو؟ عرض کیا نہیں، بتایا کہ ھHighly Skilled immigrants visa پر آیا ھو لندن میں رھتا ھوں اور ایک دوست سے ملنے آیا تھا، اپنا تعارف کروایا موصوف پنڈی سے تھے اور اس اسٹور کے مالک تھے۔ اپنا تین بیڈ روم کا گھر بھی ھے بیوی گوری ھے، ایک شاندار گاڑی کا ملک بھی ھے۔ باتوں باتوں میں نے تعریف کی کہ آپ کی زندگی تو بڑی شاندار ھے اتنا بڑا اسٹور ھے گھر اپنا بیوی گوری ھے، سگریٹ کا کش لے کر برا سا منہ بنایا اور ایک گندی سی بہن کی گالی اس ملک کی تعریف میں دی اور کہنے لگا لوگ بڑے گندے اور خود غرض ھیں، میں بہت حیران ھوا اور تب میری انٹرویو والی رگ پھڑک اٹھی اور پوچھا جناب اس ملک میں کیسے ٘ہنچے تھے؟ فرمایا وزٹ ویزے پر آیا تھا پھر سیاسی پناہ حاصل کرکے یہاں شادی کرلی اب پکا ھوں، سوال کیا کہ کیا لوگ رنگت کی وجہ سےنفرت کرتے ھیں کہنے لگے ارے نہیں ۔۔اگر ایسا کوئ کرے تو ایک کال پر پولیس آجاتی ھے۔ تب پھر آپ کو کیا شکایت ھے؟ کافر بےدین لوگ ھیں اور وفا نہیں ھے ۔ میں نے حیران ھوکر پوچھا وفاسے کیا مراد ھے؟ دور دور رھتے ھیں اس نے جواب دیا،
اچھا ۔۔۔میں نے ایک گہرا سانس لے کر کہا، یہ تو اچھی بات ھے فضول میں کسی کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی نہیں کرتے ھیں
جناب ایک بات پوچھوں؟ میں نے کہا
جی۔۔
آپ کی دوکان پر پولیس ھفتے یا مہینے میں بھتہ کتنی بار لینے آتی ھے ؟
ایک بار بھی نہیں، جواب دیا
اچھا یہ اسٹور آپکا ھے، تو پیسہ پاکستان سے لاے تھے ؟ نہیں بینک نے لون دیا تھا ۔ جواب ملا
کب آے تھے اس ملک میں؟ میں نے سوال کیا، پانچ سال ھوگئے ھیں
سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوئ خاص وجہ؟ میں نے سوال کیا ۔ کچھ نہیں سب اسی طرح اس ملک میں سیٹل ھوتے ھیں میں نے بھی وکیل کو پیسے دے کر کیس بنوا لیا تھا۔
ویسے ڈاکہ کتنی دفعہ آپ کے گھر پڑ چکا ھے؟ میں نے پھر سوال داغا
ایک دفعہ بھی نہیں، اس کو میرے اس بیوقوفانہ سوال پر حیرانگی ھوئ، یعنی آپ اتنے امیر آدمی لگتے ھیں اور ایک بار بھی آپکے گھر ڈاکہ نہیں پڑا بڑی حیرانگی کی بات ھے۔ اسے میرے بے تکے سوال سمجھ نہیں آرھے تھے۔ جس علاقے میں آپ رھتے ھیں وھاں کوئ جگا ٹیکس نہیں مانگتا آپ سے ؟
تب میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ھوے ایک لمبا سوال کیا۔ جناب جعلی سیاسی پناہ حاصل کرکے ان کے پیسوں سے ھی ایک کامیاب کاروباری شخص بنے ھیں اور پھر، ان ھی کی لڑکی سے شادی کرکے اپنا گھر بھی بنا لیا ھے اگر اب بھی آپ ان کو گالیاں دے رھے ھیں اور آپ ان گوروں سے مطمئن نہیں ھیں تو پھر اب آپ کو خوش کرنے کا ایک ھی راستہ رہ گیا ھے کہ ملکہ اپنا تاج و تخت آپ کے حوالے کر دے۔ تب بھائ صاحب کو میرے بےتکے سوالات ایک دم سمجھ آگئے اور بغیر جواب دئے آدھی سگریٹ پھینک کر ھاتھ ملاے اسٹور میں گھس گئے۔
“